counter easy hit

سولر پر اسکول صحت کے مراکز ایک منفرد منصوبہ

پاکستان اس وقت بھی توانائی کے شدید بحران کا شکا ر ہے۔ لوڈ شیڈنگ موجود ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کم ہوئی ہے۔ لیکن ختم نہیں ہو ئی ہے۔ حکمران لوڈشیڈنگ کے ختم ہونے کی نوید سنا رہے ہیں لیکن ان کی باتوں پر اگر اعتبار کر بھی لیا جائے تب بھی ابھی اس منزل میں ایک سال باقی ہے۔ ایک مسئلہ توانائی کا بحران ہے تو دوسرا مسئلہ مہنگی بجلی بھی ہے۔ مہنگی بجلی نے جہاں ملک میں مہنگائی کا طوفان پیدا کیا ہے وہاں ہماری برآمدات بھی کم ہو گئی ہیں۔ اور تو اور بجلی کے بلوں نے عام آدمی کی بھی کمر توڑ دی ہے۔ بجلی کے اس بحران سے نبٹنے کے لیے ملک میں مختلف قسم کے بجلی کے منصوبے لگ رہے ہیں۔ کسی بھی بڑے ڈیم کے لیے اب تک کوئی پیسے دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے کسی بڑے ڈیم کی تو کوئی خبر نہیں ہے۔

البتہ پانی سے بجلی بنانے کے چند منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ جن میں نیلم جہلم اور تربیلا کی توسیع شامل ہے۔ اسی طرح ایٹمی بجلی کا بھی کارخانہ لگ رہا ہے۔ لیکن اس میں بھی ایک مسئلہ یہ ہے کہ مغرب پاکستان کے ساتھ ا یٹمی بجلی کے منصوبوں میں تعاون کے لیے تیار نہیں ۔ اور چین کے پاس چھوٹے ایٹمی بجلی گھروں کی ٹیکنالوجی ہی ہے جو وہ ہمیں دے رہا ہے۔ لیکن ایٹمی بجلی بھی بڑے منصوبوں پر سستی بجلی بناتی ہے۔ چھوٹے ایٹمی بجلی گھر مہنگی بجلی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ گیس سے بجلی کے منصوبے لگ رہے ہیں جو تکمیل کے قریب ہیں۔

کوئلہ سے بھی بجلی کے منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ ان میں ساہیوال میں کوئلہ سے بجلی بنانے والا پلانٹ تو اب تقریبا مکمل ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کوئلہ کا سب سے بڑا ذخیرہ تو تھر یعنی سندھ میں موجود ہے۔ لیکن وہاں ابھی تک ایک بھی پلانٹ کام نہیں شروع کر سکا۔ حالانکہ تھر میں کوئلہ کے بجلی کے منصوبے بھی سی پیک میں شامل ہیں۔ لیکن وہاں شہباز اسپیڈ سے کام نہیں ہو رہا۔ جب کہ سولر انرجی پر بھی پنجاب میں کام شروع ہوا ہے۔ بہاولپور میں سولر انرجی کا ایک بڑا پارک بنا یا گیا ہے۔ جہاں پہلا تین سو میگاواٹ کا پلانٹ کام بھی کر رہا ہے۔جب کہ اس پارک میں ایک ہزار میگاواٹ تک پلانٹ لگانے کی استطاعت موجود ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ سورج پاکستان کے تمام صوبوں کے پاس یکساں موجود ہے۔

لیکن پنجاب کے علاوہ کوئی اور صوبہ سولر انرجی کا ایک بھی منصوبہ نہیں قائم کر سکا۔ ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان میں سورج کی شعائیں سولر انرجی کے لیے سب سے بہترین ہیں لیکن ہم وہاں ایک بھی منصوبہ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ جہلم میں ہوا سے بجلی کے منصوبے لگانے کے منصوبے بھی زیر غور ہیں۔ لیکن ابھی تک ان میں کوئی پیش رفت نہیں۔ سائیوال کے کوئلہ کی بجلی کے منصوبہ کی مخالفت کرنے والے عمران خان بھی کے پی کے میں سولر کا کوئی منصوبہ نہیں لگا سکے ہیں۔

قائد اعظم سولر پارک میں جب بجلی کے پہلے منصوبے نے کام شروع کیا تو حکومت کے مخالفین نے اس کی استطا عت پر بہت سے سوال اٹھائے۔ اپوزیشن نے اس بات کو یکسر نظر انداز کر دیا کہ سورج تو دن میں چند گھنٹوں کے لیے نکلتا ہے۔ اس لیے سورج سے بننے والی بجلی بھی چند گھنٹہ ہی پوری بنتی ہے رات کو سورج سے بجلی نہیں بن سکتی ۔ اسی طرح جس طرح سورج طلوع اور غروب ہونے کے عمل سے گزرتا ہے سولر انرجی بھی طلوع اور غروب ہونے کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس لیے جب بھی چوبیس گھنٹوں کی اوسط نکالی جائے گی تو سولر انرجی کی اوسط کم آئے گی۔ لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں سو لر انرجی کو ایک منفرد اور اہم مقام حا صل ہے۔ جس سے انکار ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں سرکاری دفاتر اسکول یونیورسٹیاں سمیت سب کام دن میں ہو تا ہے۔ اسی لیے دن میں سولر انرجی ان ضروریات کے استعما ل کے لیے بہترین ہے۔

بینک بھی صرف دن میں کام کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے بھی سولر انرجی ہی بہترین ہے۔  دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے لیے ایک مربوط مہم شروع ہے۔ امریکا کی دس بہترین اور بڑی یونیورسٹیاں نہایت فخر سے یہ اعلان کر رہی ہیں کہ وہ مکمل طور پر سولر ہو چکی ہیں۔ حالانکہ وہاں توانائی کی کوئی کمی نہیں۔ اسی طرح دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی تعلیمی اداروں کو سولر پر منتقل کرنے کے حوالہ سے ایک بڑی مہم شروع ہے۔ اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کوسولر پر منتقل کیاجا رہا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ دنیابھر کے تعلیمی اداروں کو سولر پر منتقل کیے جانے کی کوشش ہے۔ جس کا آغاز ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ممالک سے کیا ہے۔ یقینا اچھے کام کا آغازیہ ممالک اپنے ملک سے ہی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اب تک جو تحقیق کی گئی ہے اس حو الہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تین کلا س روم اور نو کمپیوٹر چلانے کی اہلیت والا سولر سسٹم ایک اسکول کے لیے بہترین ہے۔ مغرب بھی اپنے دور دراز کے دیہی علاقوں کے اسکولوں میں یہی سولر سسٹم لگا رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی پنجاب کے پندرہ ہزار اسکول اور بہاولپور یونیورسٹی کو سولر پر منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس کو دیر آئے درست آئے کہا جا سکتا ہے۔ ویسے تو پنجاب میں 47 ہزار سرکاری اسکول ہیں جن میں سے پہلے مرحلہ میں پندرہ ہزار کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ ملک کی ضرورت ہے۔

ہمارے ملک میں تو بڑے شہروں میں تونائی کا بحران ہے ایسے میں دور دراز کے علاقوں کی صورتحال تو ابتر ہی ہے۔ ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی صورتحال بہتر بھی ہو جائے تب بھی سرکاری اسکولوں میں بجلی کے بل ایک مسئلہ رہتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ ختم بھی ہو جائے تب بھی بجلی کی قیمت ایک مسئلہ کے طور پر برقرار رہے گی۔ا یسے میں سرکاری اسکول کی سولر منتقلی ان کی خود انحصاری کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔امید کی جا سکتی ہے پندرہ ہزار اسکولوں کا یہ پراجیکٹ چھ ماہ میں منتقل ہو جائے گا۔ اور اس کے بعد باقی اسکولوں کو بھی منتقل کرنے کا جامع منصوبہ بنایا جا ئے۔اسی طرح تمام کالجز اور یونیورسٹیاں بھی سولر پر منتقل کی جائیں ۔یہ ٹھیک ہے کہ پہلے مرحلہ میں بہاولپور یونیورسٹی منتقل کی جا رہی ہے لیکن تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو فوری طور پر سولر پر منتقل کیا جا ئے ۔ یہ وقت کی ضرورت ہے۔

میری عمران خان سے بھی درخواست ہے کہ وہ پنجاب سے اور پنجاب کے حکمرانوں سے اپنی دشمنی برقرار رکھیں لیکن کے پی کے کے تمام سرکاری اسکول سولر پر منتقل کریں ۔یہ کے پی کے میں وقت کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ انھوں نے کے پی کے میں بلین درخت بھی لگا لیے ہیں اور ہائیڈرو کے سیکڑوں منصوبے بھی مکمل کر لیے ہیں ۔ لیکن اگر وہ سرکاری اسکول سولر پر منتقل کر لیں تو یہ یقینا قوم کی حقیقی خدمت ہو گی۔ اسی طرح تھر کے مسئلہ کا بھی حقیقی حل سولر ہی ہے۔ وہاں سولر ٹیوب ویل لگائے جائیں تو پانی کا مسئلہ حل ہو گا۔

اسکولوں کو سولر پر منتقل کیا جائے تو تعلیم عام ہو گی۔ اسی طرح بلوچستان کے بھی دور دراز علاقوں اور ریگستانوں بھی سولر ہی خوشحالی کی نوید لا سکتا ہے۔میاں شہباز شریف نے پنجاب کے سات سو بنیادی صحت کے مراکز کو بھی سولر پر منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی ایک منفرد منصوبہ ہے۔ ہمارے بنیادی مراکز صحت کی خراب صورتحال سب کے سامنے ہے۔ ایسا صرف پنجاب میں ہی نہیں ہے بلکہ پورے ملک یعنی چاروں صوبوں میں بنیادی صحت کے مراکز ہماری حکومتوں کی عدم توجہی کی مثال ہیں۔ وہاں بجلی نہیں پانی نہیں۔ ایسے میں اگر ان کو سولر پر منتقل کر لیا جائے تو یہاں بجلی پانی جیسی سہولتوں کے مسائل حل ہو جائیں گے اور پھر شاید ڈاکٹر بھی وہاں جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website