counter easy hit

زمین کے لیے جنگوں کا شاہی کلچر

ہندوستان آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور جنوبی ایشیا میں منی سپرپاورکہلاتاہے ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور ملک میں دانشور طبقہ موثر اور متحرک ہے ایسے ملک کا حکمران طبقہ اگر قومی مفادات کے نام پر اپنی احمقانہ ضد کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کے لیے بھی عذاب بن جاتا ہے تو اہل فکر، اہل دانش کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں انا اور ضد کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں۔

بھارت کا حکمران طبقہ عشروں سے اپنے دو پڑوسیوں پاکستان اور چین کے خلاف جارحانہ پالیسیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کا تنازعہ کشمیر کے حوالے سے 70 سالوں سے جاری ہے اور چین کے ساتھ سرحدی تنازع کی وجہ سے 1962 میں چین کے ساتھ جنگ بھی لڑ چکا ہے۔ ماضی کے شاہوں اور شہنشاہوں راجوں مہاراجوں کا خبط دوسرے ملکوں کو فتح کرنا دوسرے ملکوں کی زمین پر قبضہ کرنا ہوتا تھا اور اس سیاست کو جدید دنیا نے ملک گیری کی ہوس کا نام دے کر مسترد کردیا تھا لیکن جدید جمہوری دور کے حکمران بھی ابھی تک ماضی کے شاہوں راجوں مہاراجوں کی سیاست پر عمل کرکے خود کو بادشاہوں مہاراجوں کے پیرو کار ثابت کر رہے ہیں۔

کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کی سیاست کا جائزہ لینے سے قبل ہم چین کے ساتھ ہندوستان کے سرحدی تنازعے کی سنگینی پر ایک نظر ڈالیں گے تاکہ عوام کو اس خطے میں جنگوں سے لاحق خطرات کا اندازہ ہوسکے۔ ہندوستانی میڈیا میں شایع ہونے والے تجزیوں کے خلاف جن میں کہا گیا ہے کہ چین بھارت سے کبھی جنگ نہیں کرے گا۔ چینی سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کی ویب سائٹ پر دی گئی ہیڈ لائن کے مطابق یہ سوال کیا گیا ہے کہ ’’ہندوستان کوئی منتر پڑھ رہا ہے کہ چین کبھی بھارت کے ساتھ جنگ بلکہ چھوٹی موٹی محدود کارروائی بھی نہیں کرے گا۔‘‘

اخبار ٹائمز آف انڈیا میں شایع ہونے والے تجزیے کا جواب دیتے ہوئے چین نے کہا ہے کہ55 برس گزرنے کے بعد بھی بھارت نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق چینی حکام نے سوال کیا ہے کہ بھارت اس خام خیالی میں مبتلا نظر آتا ہے کہ جنگ کی صورت میں امریکا اس کی مدد کو آئے گا۔ اخبار کے مطابق بھارتی حکمران طبقے کو امریکا کے گریٹ پاور گیم کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔

اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج چین کے سرحدی علاقے ڈوکلام میں گھس آئی تھی۔ اخباری خبر کے مطابق ڈوکلام سے بھارتی فوج کو نکالنے کے لیے چین محدود جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ چین اس فوجی تعطل کو زیادہ دنوں تک جاری رہنے نہیں دے گا۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق چین دو ہفتوں کے اندر محدود فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق چین اس ممکنہ محدود فوجی کارروائی سے قبل بھارت کی وزارت خارجہ کو مطلع کرے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی محدود جنگ بھی چھڑ جائے تو کیا اس کے محدود رہنے کی گارنٹی دی جاسکتی ہے؟ چین اور بھارت کے درمیان اسی سرحدی تنازعے پر ایک بھرپورجنگ 1962 میں لڑی جاچکی ہے۔

ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس میں ایک عالمی برادری کا تصور ابھر رہا ہے۔ آئی ٹی کے انقلاب نے صدیوں سے ایک دوسرے سے لاتعلق عوام کو ایک دوسرے کے قریب ترکردیا۔ دنیا کے مفکرین اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ رنگ، نسل، ذات پات، دین دھرم کے بھید بھاؤ سے دنیا کے عوام کو آزاد کرکے ان میں محبت اور بھائی چارے کے کلچر کو فروغ دیں اور دنیا کو جنگوں کے کلچر سے نجات دلائیں لیکن دنیا کا حکمران طبقہ اپنے محدود وژن تنگ نظری اور قومی مفادات کی سیاست کی وجہ سے اہل دانش کی کوششوں پر پانی پھیر رہا ہے۔

کشمیر کے حوالے سے 70 سالوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے دونوں غریب ترین ملک تین بھرپور جنگیں لڑ چکے ہیں۔ بھارت کی اس حوالے سے بھی ترجیح انسانوں کے بجائے زمین ہے۔

المیہ یہ ہے کہ غیر جانبداری کے حوالے سے دنیا میں احترام سے دیکھا جانے والا ملک بھارت آج امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے۔ امریکا ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اسے اس علاقے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طاقتور ملک کی تلاش رہی ہے اور بھارت کی احمقانہ سیاسی قیادت نے امریکا کی اس خواہش کو پورا کرتے ہوئے اپنے ملک کو دفاعی معاہدے میں جکڑ لیا ہے چین کے گلوبل ٹائمز کے مطابق بھارتی قیادت امریکا کے گریٹ پاور گیم کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔

پاکستان اور چین بھارت کے دو قریبی پڑوسی ملک ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان دونوں پڑوسی ملکوں سے بھارت کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔ بھارت کا حکمران طبقہ کشمیر میں ہونے والی لڑائی کو ہمیشہ گھس بیٹھیوں کی کارستانی بتاتا رہا ہے لیکن اب یہ لڑائی اتنی پھیل گئی ہے کہ سارا کشمیر اس کی لپیٹ میں آگیا ہے اور اب اس کے لیے اس لڑائی کو گھس بیٹھیوں کی کارستانی کہنا مشکل ہوگیا ہے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ بھارت کا حکمران طبقہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کو بھارتی سیکولرازم کے لیے خطرہ کہتا آیا ہے۔ حالانکہ پورے جنوبی ایشیا میں سیکولر ازم کو سب سے زیادہ نقصان مسئلہ کشمیر کی وجہ ہی سے پہنچا ہے یہی نہیں بلکہ اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فروغ میں بھی مسئلہ کشمیر کا بہت بڑا دخل ہے۔ کیا بھارت کا حکمران طبقہ اس المناک حقیقت کا ادراک رکھتا ہے؟

جنگیں لڑنے والے سیاستدان نہیں فوجی جوان ہوتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے کسی دین دھرم سے ہو، ہر حال میں نقصان غریب فوجی جوانوں کا ہی ہوتا ہے۔ عراق اور افغانستان کی طویل جنگوں میں جہاں فوجوں کا جانی نقصان ہوا وہیں وہ سنگین نفسیاتی امراض کا شکار بھی ہوئے اور امریکی عوام نے اس نقصان کے خلاف آواز بھی اٹھائی۔ ایک تازہ خبر کے مطابق بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ذہنی تناؤ کی وجہ سے ہر سال 100 سے زیادہ بھارتی فوجی ہلاک ہورہے ہیں۔

بھارتی وزیر دفاع سبھاش بھامرے نے راجیا سبھا میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ذہنی تناؤ کی وجہ سے بھارتی فوج میں ہر سال خودکشیوں اور اپنے ساتھی فوجیوں کو قتل کرنے کے 100سے زیادہ واقعات پیش آرہے ہیں ۔ وزیر دفاع کی رپورٹ کے مطابق رواں سال میں اب تک 44 بھارتی فوجیوں نے خودکشی کی اور ایک دوسرے کو قتل کیا۔ رپورٹ کے مطابق 2014 سے اب تک 3109 اعلیٰ افسران سمیت عام فوجیوں نے خودکشی کرلی ہے۔ کیا یہ رپورٹس حکمران طبقے اور اہل سیاست کے لیے باعث شرم نہیں ہیں؟

بھارت کا شمار بھی پاکستان کی طرح دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے عوام کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ بھارت ایک ارب سے زیادہ آبادی والا ایک بڑا ملک ہے اگر بھارت کا حکمران طبقہ ماضی کے شاہوں، شہنشاہوں، راجوں، مہاراجوں کی طرح زمین کے ٹکڑوں کو اہمیت دینے کے بجائے انسانوں کو اہمیت دے تو پاکستان اور چین کے ساتھ اس کے تنازعات ختم ہوسکتے ہیں اور جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کا یہ علاقہ جنگوں، عداوتوں کی لعنتوں سے آزاد ہوکر اس خطے کے غریب عوام کا معیار زندگی بلند کرنے میں اہم کرار ادا کرسکتا ہے اس کے لیے بھارت کے اہل علم اہل فکر اور میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website