counter easy hit

شادی دفتر والوں سے درخواست!

لاہور میں گولی بھٹو دور میں بھی چلی تھی لیکن تب نجی ٹی وی چینلز کے کیمرے نہیں تھے۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا نواز شریف بینظیر کو بحیرہ عرب میں ڈبونے کی بات کیا کرتے تھے، چھانگا مانگا آباد کیا کرتے تھے اور سپریم کورٹ پر حملہ کیا کرتے تھے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت والے وزیرِاعظم پاکستان کی اسی زبان میں کردارکشی کیا کرتے تھے جو آج شیخ رشید اور عابد شیر علی جیسے لوگوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ لیکن تب نجی ٹی وی چینلز کے کیمرے نہیں تھے۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ لیکن ماڈل ٹاؤن لاہور اور قصور میں گولیاں چلانے والوں کو یہ بات شاید سمجھ نہیں آئی تھی کہ اب وقت بدل گیا ہے۔ یہ سمجھ انہیں جلد آ جائے گی۔ کچھ کچھ آنا شروع ہو بھی گئی ہے۔ نہ سمجھے تو کب تک بھاگیں گے؟ آخر پکڑے جائیں گے۔

کچھ ہفتے قبل کراچی پریس کلب میں ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کی شادی کرائی گئی۔ یہ زبردستی کی شادی تھی، 24 گھنٹے بھی نہ چل سکی۔ دوسرے، مصطفیٰ کمال بولے، اسٹیبلشمنٹ نے بات چیت کرائی تھی۔ فاروق ستار بولے، صبر نہ آزمائیں ورنہ اب تک تو خاموش ہوں، مزید نہیں رہوں گا۔ لیکن شادی کرانے والوں کو پھر بھی سمجھ نہیں آئی کہ وقت بدل گیا ہے۔ آج شاید کوئی کسی کے اشاروں پر ناچ دکھانے پر تو راضی ہو جائے لیکن کسی کی پائل بننے پر کوئی راضی نہیں ہوتا، بالکل نہیں ہوتا۔

عامر سہیل سے معذرت کے ساتھ:

تیرے کہنے پہ میں ناچ رہا ہوں

لیکن

رقص میرا اپنا ہو گا

زندگی تیرے پیر کی پائل تو نہیں ہو سکتی۔۔۔۔

یہ سادہ اصول سب کو سمجھ لینا چاہئے۔

مال روڈ پر متحدہ اپوزیشن کا جلسہ دیکھا تو ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ بادشاہ نے ایک بڑا سا تالاب بنوایا اور رعایا کو حکم دیا کہ فلاں دن سب لوگ رات کو اس کنویں میں ایک ایک بالٹی دودھ ڈالیں گے۔ اگلے روز دیکھا تو تالاب پانی سے بھرا تھا۔ سب نے سوچا، دوسرے دودھ ڈالیں گے ناں، ہم پانی ڈال دیتے ہیں، خوامخوا اپنا دودھ کسی کو کیوں دیں!

شاید سب جماعتیں دل سے شریک نہیں تھیں۔ سب نے سوچا دوسرے مجمع لے آئیں گے، ہم خالی ہاتھ چلتے ہیں۔۔۔۔۔ ہاہا!

سوادِ زندگانی میں

اِک ایسی شام آتی ہے

کہ جس کے سرمئی آنچل میں

کوئی پھول ہوتا ہے

نہ ہاتھوں میں کوئی تارہ

جو آ کر بازوؤں میں تھام لے

پھر بھی رگ و پے میں کوئی آہٹ نہیں ہوتی

کسی کی یاد آتی ہے

نہ کوئی بھول پاتا ہے

نہ کوئی غم سُلگتا ہے

نہ کوئی زخم سلتا

نہ گلے ملتا ہے کوئی خواب

نہ کوئی تمنّا ہاتھ ملتی ہے

سوادِ زندگانی میں

اِک ایسی شام آتی ہے

جو خالی ہاتھ آتی ہے

جو خالی ہاتھ آتی ہے

ایک تاثر وہ تھا جو اپوزیشن نے دیا یا جو وہ دینا چاہتی تھی کہ ہم ماڈل ٹاؤن اور قصور کے سانحات کے سلسلے میں حصول انصاف کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر اکٹھے ہیں۔ لیکن ایک تاثر وہ ہے جو حکومت نے لیا اور جسے اب وہ سوشل میڈیا پر پروجیکٹ کرے گی اور بہت تیزی سے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں شاید کامیاب بھی ہو جائے گی کہ 8 جماعتیں مل کر بھی نون لیگ کے خلاف کوئی بڑا پاور شو نہ کر سکیں۔

زبردستی کی شادی اور اس کی بیچ نکاح ناکامی کا تاثر پھیلے گا۔ اسی لئے کہتے ہیں اپنا جیون ساتھی سوچ کر چننا چاہئے ورنہ بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ نجی ٹی وی چینلز کے کیمرے سب کچھ ایکسپوز کر دیتے ہیں۔ لوگ آپ کی باتوں کو نہیں اپنی ٹی وی سکرین پر چلنے والی ویڈیو کو دیکھتے ہیں۔

شادی دفتر والوں سے التماس ہے کہ یا تو شادی کا اعلان نہ کیا کریں یا اچھی طرح چیک کر لیا کریں کہ دولہا دلہن والوں نے تیاری بھی کی ہے یا نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اتحاد کی شروعات ہوئی ہے۔ آج لیڈر مل بیٹھے ہیں تو کل عوام بھی مل بیٹھیں گے۔ تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔ جلد یا بدیر شاید آ بھی جائے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ فرسٹ امپریشن متحدہ اپوزیشن کا لاسٹ امپریشن بن جائے اور پنجاب حکومت مزید ایزی اور مزید ریلیکس ہو جائے جیسے وہ 2014ء کے دھرنے کے پہلے چند ہفتوں کے بعد بالکل ریلیکس ہو گئی تھی اور الٹا اپنی مقبولیت اور پی ٹی آئی کی عدم مقبولیت کے گھمنڈ میں مبتلاء ہو گئی تھی۔ پی پی اور پاکستان عوامی تحریک کو تو زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ سب کو پتہ ہے ان کی لاہور میں بڑی فالونگ نہیں لیکن پی ٹی آئی والوں کو چاہئے کہ اب اگر متحدہ اپوزیشن کے کسی احتجاج میں شریک ہوں تو سوچ سمجھ کر تیاری کرکے شریک ہوں ورنہ الیکشن سے چند ماہ قبل خوامخوا اپنی عدم مقبولیت کا ڈھنڈورا نہ پٹوائیں۔