counter easy hit

رشتوں کے ریشم

Family

Family

تحریر: عارف جتوئی
رشتوں میں پیدا ہونے والی امید نے جب ایک دھوکے پر دم توڑا تو اس کمزور جان لڑکی کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ اس آواز میں اس قدر تاثیر تھی کہ اس سے وابستہ ہرشخص کو یکساں سنائی دی۔ پھر کئی روز تک وہ ایسی چُپ ہوئی کہ اس کے جاننے والوں کی قطار لگ گئی۔ مگر وہ کسی سے کیا کہتی کہ آج اُسے اُس رشتے نے تکلیف دی جو ہمیشہ اُس کی تکلیفوں کو دور کیا کرتا تھا‘‘۔ اِس قسم کے بے شمار واقعات روزانہ کی بنیادوں پر ہمارے ارد گرد رونما ہورہے ہیں۔ رشتے بنتے ہیں سنورتے ہیں کچھ آگے چلتے ہیں اور پھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ رشتے بننے میں جتنی دیر لگتی ہے اس سے کہیں کم وقت اُن کے بکھرنے میں لگتا ہے۔ رشتوں کو سنبھال کر رکھنا بہت مشکل اور کٹھن کام ہے۔ ہم جتنا جس رشتے کی موجودگی پر خوش ہوتے ہیں اُس کے دیے گئے غم پر اتنی ہی تکلیف پہنچتی ہے۔ کبھی کبھار جذبات میں کیے گئے فیصلے ہمارے جان سے عزیزتر رشتوں کو ہم سے جدا کردیتے ہیں۔ وہ وجوہات جو رشتوں کو کمزور کرنے یا توڑنے کا سبب بنتی ہیں ان میں طنز و بحث، دھوکا، غلط فہمی اور نہ جانے کیا کچھ شامل ہے۔

طنز اور بحث سے رشتے کمزور ہوجاتے ہیں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ لڑائی تو جیت لیتے ہیں مگر اس بحث میں اپنوں کو ہار بیٹھتے ہیں۔ اس لئے طنز و بحث کو ایسے طریقے سے لے کر چلا جائے جہاں رشتوں کے کناروں پر آنچ نہ آنے پائے۔ رشتوں میں دراڑیں ڈالنے والی ایک بڑی وجہ غلط فہمی ہوتی ہے۔ غلط فہمی کبھی حقیقی غلطی سے شروع ہوتی ہے اور پھر اندر ہی اندر پھولتی بڑھتی رہتی ہے اور پھر ایک دوسرے سے معاملہ افہام و تفہیم سے سلجھانے کی بھی نوبت نہیں آنے دیتی اور یوں یہ مضبوط رشتہ ایک چھوٹی سی پیدا کی گئی غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں رشتوں کی رسی کمزور تب ہوتی ہے جب انسان غلط فہمی میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب بھی خود بنا لیتا ہے۔

کبھی اِس رشتے کے ٹوٹنے کی وجہ وہ حقیقی غلطی بنتی ہے جو ہم سے جانے یا انجانے میں سرزد ہوجاتی ہے۔ غلطی ہونے کے بعد ندامت ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے بڑھ کر اس غلطی کا ازالہ کوئی اور چیز نہیں کرسکتی۔ اِس ندامت کا احساس کبھی دلانا پڑتا اور کبھی خود بخود ہوجاتا ہے۔ رشتہ تو تب منقطع کیا جانا چاہیے جب ندامت کا احساس دلانے کے بعد بھی کوئی نادم نہ ہو۔ مگر یہاں تو ندامت کا ہزار بار احساس ہوجانے کے بعد بھی رشتوں میں انقطاع آجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی غلطی ہوتی ہے جو غلطی کے بعد سرزد ہونے کے بعد بھی کی جارہی ہوتی ہے۔ رشتوں کی مضبوطی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ رشتے بننے میں ناجانے کن کن چیزوں کا پایا جانا پرکھا جاتا ہے اور جب رشتے جُڑ جاتے ہیں تو انہیں ایک سرزد ہونے والی غلطی کی نظر کردیا جانا انصاف کے منافی ہے۔ غلطی ہوئی تو اس پر ندامت اس کا ازالہ بھی تو ہوا ہوتا ہے، مگر غلطی کے بعد ندامت کو نہیں دیکھا جاتا۔

کبھی غلطی کرنے والے کو سزا کے طور پر اتنا خود سے دور کیا جاتا ہے کہ وہ دور رہنا ہی سیکھ جاتا ہے اور یوں ایک رشتہ خود ہی اپنے ہاتھ سے توڑ دیا جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور وہ اپنی غلطی کا ازالہ بھی کرچکا ہو تب بھی اسے سزا دی جاتی ہے، یہ سزا ایسی ہوتی ہے جو ایک اچھائی کی طرف بڑھنے والے قدموں کو روک کر اُلٹے قدموں پر چلا دیتی ہے۔ یوں نہ صرف رشتہ ٹوٹتا ہے بلکہ ایک باغی بھی جنم لیتا اور پھر اس باغی کی سرکشی نہ جانے مزید کتنے رشتوں کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو اُسے احساس دلایا جائے، ندامت کی صورت میں اسے اپنے قریب کیا جائے، پہلے سے بڑھ کر اُسے محبت اور پیار دیا جائے تاکہ وہ جس اچھائی کی طرف لوٹا ہے وہ ہمیشہ کے لئے اس پر گامزن رہے۔ خوامخواہ کسی کو پریشان کرتے رہنے سے رشتہ تو برقرار نہیں رہتا ساتھ میں متعلقہ فرد سے اچھائی کی اُمید بھی نہیں رکھی جا سکتی۔

ایک بات یاد رکھیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اچھے شخص سے بھی ناقابل معافی غلطی ہوجاتی ہے اور کبھی بُرے شخص سے قابل تعریف اچھائی ہوجاتی ہے۔ فرق صرف آپ کو کرنا ہے کیا ایک اچھے شخص کو معاف کرکے دوبارہ اسے اچھائی کی طرف لانا ہے یا پھر اسے معاف نہ کر کے ہمیشہ کے لئے بُرائی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ اگر آپ نے آج اُس کا ہاتھ نہ تھاما تو یقیناً پھر وہ کچھ دن بعد اُس کا شمار اچھوں میں ہونے کے بجائے ہمیشہ سے دھوکا دینے والوں میں ہونے لگے گا جس میں آپ بھی برابر کے حصہ دار ہوں گے۔

Arif Jatoi

Arif Jatoi

تحریر: عارف جتوئی