counter easy hit

پڑھیے قیام پاکستان کی ایک انوکھی داستان

Read a unique story of Pakistan

یہ 1945ء کا واقعہ ہے، قیامِ پاکستان سے قبل ہمارا آبائی گائوں، ساہو چک، تحصیل پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور،دریائے راوی کے کنارے آباد تھا۔ برسہا برس سے ایک ساتھ رہنے والے یہاں کے لوگ ایک کنبے کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ گائوں کا نمبردار نہایت سادہ، اَن پڑھ اور منکسرالمزاج آدمی تھا۔ اس کی بیوی ذہین اور سمجھ دار ہونے کے ساتھ انتظامی امور سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی تھی، زمینوں کا سارا نظام اسی نے سنبھالا ہوا تھا۔ گائوں میں صرف میرے والد، چوہدری عبدالوہاب پڑھے لکھے آدمی تھے، وہ اسکول ٹیچر تھے، اکثر کسی کام سے جب سرکاری اہل کار وہاں آتے، تو سب سے پہلے والد صاحب ہی سے ملاقات کرتے، اور ان کے مشوروں سے اقدامات کرتے ۔ موسمِ برسات ہمارے لیے خاصا تکلیف دہ ہوتا تھا، لگاتار بارشوں سے جہاں ایک طرف فصلوں کے نقصان کا اندیشہ لاحق رہتا، وہیں دریا کے بپھرنے اور کٹائو کے باعث سیلاب کا خطرہ بھی سر پر سوار رہتا۔ غریب لوگ دعائیں مانگ مانگ کر وقت گزارتے تھے۔ ہمارے گائوں سے چندگائوں چھوڑ کر پیر سیّد محفوظ علی شاہ کا ڈیرہ تھا۔ وہ اپنے علاقے میں ’’ڈھاواں والے پیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ہمارے والد صاحب ایک دو بار اپنے کسی کام کے سلسلے میں ان کے پاس گئے، تو ان کی شخصیت سے اتنے مرعوب ہوئے کہ ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے۔ پیر ڈھاواں والے، عورتوں کو بیعت نہیں کرتے تھے، نہ عورتوں کو آستانے پر آنے کی اجازت تھی۔ اس پس منظر کے بیان کے بعد، اب مَیں اس واقعے کی طرف آتا ہوں، جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے،ان دنوں موسمِ برسات نے زور پکڑا، تو بارشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ گائوں سے دنیا پور جانے والی سڑک کے کنارے، دو ایکڑ رقبے پرہمارا امردو اور سنگتروں کا باغ تھا۔ چند فرلانگ دور نارائن پور نامی گائوں واقع تھا۔ اس گائوں کے قریب دریائے راوی کی موجوں کے کٹائو کے باعث ایک راستہ بن گیا، تو پانی دھیرے دھیرے گائوں کی طرف بڑھنے لگا۔ لوگوں نے خوف زدہ ہوکر گھر خالی کرنے شروع کردیے۔ آسمان سے چھاجوں پانی برس رہا تھا اور ہمارا گائوں کسی بھی وقت شدید نوعیت کے سیلاب کی زد میں آسکتا تھا۔ مشرقی حصّے میں واقع تقریباً سب گھر یکے بعد دیگرے خالی ہوچکے تھے۔ والد صاحب بھی بہت پریشانی کے عالم میں تھے، جب کہ گائوں والے میرے والد صاحب کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ ان کے مسائل کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ڈھونڈ نکالیںگے۔ کھانے کے وقت والد صاحب گھر آئے، تو چند نوالے ہی کھاکر اٹھ گئے۔ یہی ہم سب کا حال تھا، اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ والد صاحب باہر چلے گئے، چند منٹوں بعد واپس آئے، تو کافی پرجوش دکھائی دیے اور کہیں جانے کی تیاری کرنے لگے۔ مجھ سے کہا ’’بیٹا تو بھی تیار ہوجا، پیر شاہ سے ملنے جانا ہے۔‘‘ پہلے بھی اکثر والد صاحب مجھے ان کے پاس لے جاتے رہے تھے۔ ایسے وقت میں جب سیلاب کا پانی گائوں کے قریب آتا جارہا تھا، والد صاحب کا پیر صاحب سے ملنے اتنی دور جانا مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ میں پوچھ بیٹھا کہ ’’ہم اتنی دور کیسے جائیں گے۔ سواری کی بھی کوئی سہولت میسّر نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’پیر صاحب کے ایک مرید نے آکر خبر دی ہے کہ وہ نزدیکی گائوں، نارائن پور آئے ہوئے ہیں۔‘‘ میں بھی پرجوش ہوگیا۔ ہم فوراً روانہ ہوگئے۔ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضری دے کر مجھے ہمیشہ خوشی ہوا کرتی تھی۔ ہم دونوں ہانپتے کانپتے نارائن پور پہنچے۔ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔ والد صاحب نے انہیں بتایا کہ ’’سیلاب نے ہمارے گائوں کا رخ کرلیا ہے اور آج یا کل کسی وقت گائوں سیلاب کے ہاتھوں نیست و نابود ہوسکتا ہے، شاید یہ آپ سے آخری ملاقات ہو۔‘‘ شاہ صاحب نےمسکرا کر والد صاحب کی طرف دیکھا اور کہا ’’اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اچھی امید رکھیں، میں کل آپ کے گائوں آئوں گا، آپ لوگ کل سڑک کے کنارے میٹھے چاولوں کی دیگ پکوائیں اور گائوں کے تمام بچّوں کو اس جگہ جمع کرکے بٹھادیں۔ کوئی بچّہ گھر پر نہ رہے۔‘‘والد صاحب نے جواب دیا ’’شاہ جی! اگر رات کو سیلاب سر پر آپہنچا تب؟‘‘ شاہ جی نے کہا ’’اب گھر جائیں اور دیگ کا سامان خریدیں۔ دیگ بہت بڑی ہو، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھلایا جاسکے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے خوب پیار کیا۔ والد صاحب گھر آگئے اور گائوں والوں کو اکٹھا کرکے ہدایت کی کہ کل گائوں کے سب بچّے سڑک کنارے جمع ہوجائیں۔ رات بھر حضرات جاگتے رہے۔ صبح سویرے سڑک کے کنارے دیگ پکانے کے لیے لوگ تیاریاں کرنے لگے۔ دھیرے دھیرے سب بچّے وہاں جمع ہوگئے۔ دوپہر کو ظہر سے پہلے شاہ جی تشریف لائے۔ ان کے ساتھ تقریباً چالیس مریدین بھی تھے۔ انہوں نے اپنی گھوڑی کو ایک درخت سے باندھا اور باغ کے ایک حصّے میں کیمپ لگواکر اپنے مریدوں کو وہاں قیام کے لیے بھیج دیا اور کہا کہ اپنے لیے کھانا خود پکائیں، گائوں والوں سے کچھ نہ لیں۔ مریدین اپنے کھانے پینے کا سامان شاہ صاحب کے حکم پر اپنے ساتھ لائے تھے۔ تمام مریدوں کو کیمپ کی طرف روانہ کرنے کے بعد انہوں نے بچّوں میں سے پندرہ بچّوں کو الگ کرکے باقی بچّوں سے کہا کہ ٹھیکریاں چن چن کر لائیں اور ایک ڈھیر بنادیں۔ بچّے بھاگ بھاگ کر جوش و خروش سے اس مشغلے میں لگ گئے اور ذرا سی دیر میں ٹھیکریوں کا ایک بڑا سا ڈھیر لگ گیا۔ اس دوران شاہ صاحب نے اپنے ساتھ لائے ہوئے کاغذات نکال کر ان کی پرچیاں بنائیں اور ان پر کچھ لکھ کرایک ایک کاغذ کو ٹھیکری میں لپیٹ کر اپنے چنے ہوئے ان پندرہ بچّوں کو تھماتے ہوئے کہا ’’ان ٹھیکریوں کو دریا میں پھینکتے جائو اور جتنی دور تک جاسکتے ہو، جائو۔ راستے میں اللہ پاک سے یہ دعا اونچی آواز میں مانگتے جانا کہ’دریا ہمارے گائوں کو چھوڑ دے۔‘‘ ان بچّوں میں، مَیں بھی شامل تھا، ہم پندرہ سولہ بچّے آگے پیچھے دریا کی طرف روانہ ہوئے اور اس کے کنارے پہنچ کر کاغذ میں لپٹی ٹھیکریاں ہاتھ بڑھا کر پانی میں دور تک پھینکتے رہے اور شاہ صاحب کی ہدایت پر اونچی آواز میں دعائیں مانگتے رہے۔ گائوں کے دوسرے بچّوں کو بھی شاہ صاحب نے یہی دعا دہراتے رہنے کی ہدایت کی۔ گائوں کے اتنے سارے معصوم بچّوں کے ایک ساتھ بلند آواز سے دعائیں پڑھنے سے سارا علاقہ گونج رہا تھا۔ شاہ صاحب اور بچّے جہاں بیٹھے یہ دعائیں پڑھ رہے تھے، وہاں گائوں کے کسی مرد کو آنے سے منع کردیا گیا تھا، اس دوران انہوں نے کچھ دیر کے لیے یہ عمل روکا اور بچّوں سے کہا ’’اب آئو میرے ساتھ چاول کھائو، کھانے کے بعد یہ کام ہم دوبارہ شروع کریں گے۔‘‘ ایک نائی، جس نے چاول پکائے تھے، اسے وہیں ٹھہرالیا گیا اور اسے دیگ پر رکھی پرات میں چاول ڈال کر لانے کو کہاگیا۔ نائی پرات میں چاول بھر کر لایا، تو سب بچّوں کو اس چاول سے بھری پرات کے پاس بٹھا کر شاہ صاحب انہیں اپنے ساتھ کھانے کو کہا، وہ خود بھی اسی پرات سے چاول کھا رہے تھے۔ کھانا ختم کر کے دریا میں ٹھیکریاں پھینکنے کا عمل دوبارہ شروع ہوا جو عصر تک جاری رہا۔ عمل مکمل ہوگیا، تو انہوں نے بچّوں کو رخصت کیا اور خود باغ میں چلے گئے، جہاں مریدین ان کا انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے تھوڑا سا کھانا ان کے ساتھ بھی کھایا اور مغرب سے ذرا پہلے نمبردار کی حویلی پر چلے گئے اور اپنے مریدوں اور گائوں والوں سے کہا کہ بے فکر ہوکر اپنے اپنے گھر چلے جائیں۔ عشاء کی نماز کے بعد شاہ صاحب حویلی کی چھت پر چلے گئے اور وہاں ساری رات عبادت کرتے رہے۔ صبح سویرے جب لوگ جاگے، تو دریائے راوی اپنی رواں چال میں بہہ رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ رات کی طغیانی اور شوریدہ سر پانی نے جیسے ہتھیار ڈال دئیے ہوں۔ گائوں کے اس حصّے میں جہاں سے دریا کے کٹائو کے بعد پانی کا ریلا آرہا تھا، وہ گائوں سے کچھ فاصلے سے پلٹ گیا تھا اور اپنی آمد اور لوٹ جانے کے ثبوت کے طور پر پہاڑوں سے اپنے ساتھ لائے اَن گنت درخت وہاں چھوڑ گیا تھا۔ شاہ صاحب تہجد کے وقت چھت سے اتر کر باغ میں آچکے تھے، وہیں اپنے مریدوں کے ساتھ ناشتا کرکے جمعے کی نماز کی تیاری کی۔ اس وقت دور اور نزدیک کے کئی دیہات سے لوگ باغ میں جمع ہوگئے۔ شاہ صاحب نے جمعے کی نماز کے بعد اپنے خطبے میں کہا کہ ’’جو درخت دریا نے تحفے میں دیے ہیں، انہیں فروخت کرکے غریبوں میں بانٹ دیئے جائیں اور ہر صاحبِ حیثیت گھرانہ ایک ایکڑ فصل کی آمدنی اپنے گائوں کے غریبوں میں باقاعدگی سے تقسیم کرے۔‘‘ انہوں نے صاحبِ حیثیت لوگوں کو خود چن کراپنی ایک ایک ایکڑ زمین کی فصل غریب گھروں میں پہنچانے کے لیے کہا، جن میں ہمارا گھرانا بھی شامل تھا۔ اس کے بعد دریا نے پھر کبھی ہمارے گائوں کا رخ نہیں کیا۔ سیلاب نے جس جگہ سے واپس رخ موڑتے ہوئے سیکڑوں لکڑیاں چھوڑی تھیں، انہیں بیچنے کے بعد ان کی رقم بھی غریبوں میں بانٹ دی گئی۔ یہ تھے اس زمانے کے سیدھے سچّے لوگ اور اس درجے کے ان کی راہ نمائی کرنے والے پیر۔ میں اگر ان کی کرامت اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا، تو شاید سنے سنائے اس قصّے پر یقین ہی نہ کرتا، مگر اب جھٹلا نہیں سکتا کہ ایمان دار اور سچّے لوگوں کو پیر بھی ایسے ہی ملتے تھے۔ اب تو’’ جیسی روح، ویسے فرشتے‘‘ والا زمانہ آگیا ہے۔ آزادی کے بعد شاہ صاحب کا کنبہ بھی ہجرت کرکے بھلیر شریف آباد ہوا، تو وہاں کے لوگوں نے بھی ان سے کافی فیض حاصل کیا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website