counter easy hit

رمضان اور تقوی

Ramza ul Mubarak

Ramza ul Mubarak

تحریر : شاہ بانو میر
آج فرانس کے شہر پئیرفیت ٹاؤن میں استاذہ عفت مقبول صاحبہ کے ویلکم رمضان فرانس کے سلسلے کا آخری درس تھا ۔ درس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے نصرت صاحبہ نے کیا ۔ تلاوت میں کلام پاک سے ماہ رمضان کی حرمت اہمیت کی حامل آیات کو پیش کیا گیا ۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد نے درس میں شرکت کر کے اپنے باشعور ہونے اور قرآن پاک اور اسلام سے اپنی محبت کا ثبوت دیا ۔ فرانس میں گھر گھر بڑہتا ہوا قرآن پاک کا شعور استاذہ کے تمام دروس میں موجود خواتین کی بہت بڑی تعداد سے ظاہر ہو رہا ہے واٹس آپ پر جاری تفیسر و ترجمہ کی بے پناہ مقبولیت نے آسانی پیدا کر دی ہے کہ گھروں میں موجود رہ کر خواتین جب چاہیں جتنی بار چاہیں قرآن پاک سے فیضیاب ہو سکتی ہیں ۔ خواتین کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی خوشی کی بات وہ نوجوان بچیاں ہیں جو اب درس قرآن کا فرنچ میں سلسلہ شروع کرنے جا رہی ہیں اسی ضمن میں 5 جون کو انشأاللہ سیرت النبی کانفرنس ﷺ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

اسی پروگرام میں انشأاللہ استاذہ عفت مقبول صاحبہ کا ریکارڈڈ پیغام بھی بہنوں بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے سنایا جائے گا انشاء اللہ گزشتہ دو روز سے سیکڑوں کی تعداد میں خواتین نے مختلف شہروں میں تقویٰ سیریز میں شرکت کر کے بلاشبہ پیرس کے ماحول میں واضح تبدیلی کا اشارہ دیا ہے جو مستقبل کیلئے خوش آئیند ہے استاذہ محترمہ کے تمام دروس میں خواتین کا ڈسپلن اور قرآن پاک کا مکمل احترام خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن پاک کی باتیں سیرت النبی ﷺ کی باتیں سننے کیلئے سمجھنے کیلئے مؤدبانہ انداز جان چکی ہیں۔ استاذہ کا کہنا تھا کہ رمضان کے تزکرے کے ساتھ ہی لگتا ہے کہ رمضان کا آغاز ہو گیا تقویٰ بنیاد ہے اعمال صالحہ کیلئے ۔ تقویٰ ہماری ذات میں بس جائے اس کیلئے اللہ سے ہم اپنے لئے دعا کریں گے کہ ہمیں اللہ متقیوں کے ساتھ چن لے۔

درس میں بیان کی جانے والی تمام تمام باتوں کو اپنے لئے صدقہ جاریہ سمجھتے ہوئے غور سے سنیں اور آگے بڑہائیں 104 سورة البقرہ اور اگر (کاش) وہ (سبھی ) اللہ کی پسند کیا ہے ہم نہیں پیچھے جاتے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کر لیتے آج انسان اور انسانیت پریشان ہے انسان اگر تقویٰ اختیار کر لیتا تو اعمال صالح ہو جاتے تقویٰ اختیار کر کے صبر شکر کرنے والوں کی محنت رائیگاں نہیں جاتی بلکہ انہیں اپنی قربانی اور صبر کا اجر اللہ سے مل جاتا کاش وہ علم رکھتے اللہ پاک نے اس آیت میں رغبت دلائی بیٹھو نہ بلکہ دین کو پھیلاؤ عمل کو تقویٰ کو عام کرو اللہ کی بڑائی کو بیان کرو عمل کرو تقویٰ کو امت مسلمہ اپنا لے تو ایسی عزت ملے گی جو کوئی اور نہیں دے سکتا۔

Piety

Piety

تقویٰ اختیار کرنے والے اخلاص کے راستے پے چلتے ہیں تو وہ نہیں سمیٹ سکتے جتنی شہرت عزت نام انہیں اللہ کی طرف سے بطور انعام ملتا ہے ۔ اسکی وجہ ہے کہ اللہ کے وعدے سچ ہیں تقویٰ کے فوائد 1 انسان کو اللہ کے ہاں عزت ملتی ہے سچی عزت اللہ کے ہاں ہے 2 دوسرا فائدہ اللہ کی دوستی ملتی ہے جسے اللہ کی دوستی مل جائے اسے کسی اور کی ضرورت نہیں 3 ہر مشکل میں اللہ کو پکاریں دنیا میں ہمارے دوستوں میں کوئئ چار پیسوں والا ہو تو ہم اس ذات کو بھول جاتے ہیں جو عرش بریں کا مالک ہے 4 تقویٰ سے اللہ کے بعد آپﷺ کی دوستی نصیب ہوتی ہے صحابہ کرام بہت تڑپ رکھتے تھے کہ ان کی دوستی کی تڑپ تھی ایک بار مدینہ میں پانی کی کمی کی کمی کی وجہ سے آپﷺ کے پاس درخواست کی کہ کوئی چشمہ نکل آئے آپ ﷺ کو جب علم ہوا کہ اس غرض سے صحابہ کرام تشریف لا رہے ہیں تو ان کی آمد کا مقصد سن کر بھی کھلے دل سے کہا کہ ساتھیو آج جو آپکو چاہئے وہ اللہ سے مانگوں گا وہ سب اس فراخدلانہ پکار پر پانی بھول گئے اور کہا وقت دیجئے کہ کچھ سوچ لیں دوسرے دن وہ آئے اور کہا کہ ہمیں آپ کا ساتھ چاہیے 5 محبوب الہٰی بن جاتا ہے۔

انسان ذرا سوچئے کہ زمیں و آسمان کا مالک عرش بریں کا مالک آپ سے محبت کرے دنیا م کوئئ انسان آپ سے محبت کا اظہار کرتا ہے تو ہم پھولے نہیں سماتے اللہ پاک کی معیت ملتی ہے تو معاملات آسان ہو جاتے ہیں اللہ پاک کاموں میں بہترین آسانیاں پیدا کر دیتا ہے 6عام رحمت اور خاص رحمت ہے اور انسان کو عام رحمتیں مل جاتی ہیں ہمارے اوپر جو گناہوں کا بوجھ ہے اس کو ہم محسوس کریں تو انسان عاجز ہو کر معافی مانگتے ہیں اجر کی باری آتی ہے تو ہمیں کیونکہ شعور نہیں ہے تو ہم کم اجر مانگ لیتے ہیں اجر کبھی کم نہ مانگیں بلکہ اصرار کر کے گڑگڑا کر بہت زیادہ مانگیں وہ غفور ارحیم ہے بے شمار عطا کرنے والا ہے اجر عظیم مانگیں کبھی کم پے راضی نہ ہوں 7 فرقان ملتا ہے فرقان وہ نعمت ہے جو آپ کو توازن اختیار کیسے کیا جائے اس کا شعور دیتا ہے۔

انسان فرقان نہ ہونے سے دھوکہ کھا جاتا ہے مگر تقویٰ انسان کو محتاط بنا دیتا ہے پہچان پرکھ کی نظر عطا کر دیتا ہے ۔ حق و باطل کے سامنے وہ حق بات کوسمجھ جاتا ہے ۔ حق کیلئے صدا بلند کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ آج ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پے پریشان ہوتے ہیں اگر ہم پہلے والے لوگوں کی طرح خالص اللہ سے ڈرنے والے بن جائیں تو آج بھی ذلت کا دور پزیر ہو جائے اور بظاہر طاقتور ان دشمنوں پے ہماری دھاک بیٹھ جائے اسلام پے قرآن پے سیرت النبی پے عمل آج بھی ہمیں انسانیت کی اخلاقیات کی رواداری کی بہترین مثال بنا کر دوسرے لوگوں پر ہمارے اعمال سے بہترین تاثر پیدا کر سکتا ہے۔

ALLAH

ALLAH

آج افسوس کا مقام ہے کہ ہم عمل نہیں کرتے بلکہ باتیں بہت کرتے ہیں جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے آپ انسان دوست لوگ ہیں اس کے لئے اپنے ہمسائیوں سے بہترین مراسم رکھیں انہیں کھانے بھیجیں انکی خیریت دریافت کریں اچھا حسن سلوک رکھیں یہی تقویٰ ہے 8 غم سے نجات ہے تقویٰ انسان کی فطرت میں شامل ہو جاتا ہے تو طبیعت میں اضحلال مایوسی نہیں پیدا ہوتی تقویٰ ہر آزمائش پر صبر اور شکر سے کیسے سکون سے گزرنا ہے اس کی تربیت کرتا ہے 9ایسی جگہہ سے رزق ملتا ہے جہاں انسان کا گمان بھی نہیں ہوتا (متقی سوچ کی عملی مثال ) ایک خاتون کی مثال استاذہ نے بیان کی کہ وہ اتنی غیور ہیں کہ ضرورت کے وقت ہاتھ نہیں پھیلاتیں صرف اللہ سے اپنی ضرورت بیان کر کے مطمئین ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کی ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پیسوں کی بہت ضرورت تھی تو اللہ سے دعا کی ایسے ہی انہیں سوچ آئی کہ تو الماریاں صاف کریں تو شائد کہیں کچھ رکھے پیسے مل جائیں انہیں بہت پہلے رکھا ہوا ایک لفافہ مل گیا جس میں اتنے ہی پیسے تھے جتنی ضرورت تھی سبحان اللہ توکل اور تقویٰ انسان کو انعامات سے ہمکنار کرتا ہے ۔ ہم لوگ چھوٹی پریشانیوں سے گھبرا جاتے ہیں۔

حالانکہ ضرورت صرف اللہ پے بھروسے کی ہے جو چیز آپکو چاہیے وہ ہو سکتا ہے آپکو دعا کے بعد کسی اور انداز سے کہیں سے مل جائے 10 تقویٰ کی وجہ سے انسان کے کام سدھر جاتے ہیں ہم ہر وقت پریشان رہتے ہیں تقویٰ انسان کو مثبت سوچ کے ساتھ ہمیشہ روشن سوچ کے ساتھ بہادر سوچ عطا کرتا ہے ۔ محنت اور تقویٰ سےانسان کے معاملات ٹھیک ہونے لگتے ہیں چھوٹے چھوٹے معاملے بھی ہیں کبھی ہم رشتوں کیلئے پریشان ہیں تو کبھی ہم ضروریات کے پورا نہ ہونے سے پریشان ہیں جب آپ سوچتی ہیں کہ نہیں مجھے اللہ کے حکم کے مطابق کام کرنے ہیں تو آپکو خوشگوار حیرت ہوگی کہ اللہ سبحان و تعالیٰ کیسے آپ کے ناممکنات کو ممکن بنا کر اپنے ہونے کا کامل یقین دلاتا ہے۔ مثال سود و قرضہ کیلئے ایک سسٹر نے قرض کے مسائل میں شئیر کیا کہ جس دن انہوں نے درس سنا کہ جو بھی انسان سود لیتا ہے یہ سود اللہ سے کھلی جنگ ہے ان کے کانوں تک پہلی بار یہ حکم پہنچا تو انہیں بہت ندامت اور بیچینی ہوئی۔

انہوں نے کہا میں نے نیت کی کہ میں نے فلاں وقت تک سارا قرضہ ادا کرنا ہے گھر جا کر شوہر سے بات کی کہ سود کیلئے قرآن پاک میں یہ حکم ہے بات سن کر ان کے شوہر نے کہا کہ یہ کیا فضول بات ہے آجکل ایسا ہی ہوتا ہے یہی نظام ہے ہم اچانک کیسے اس سے نکل سکتے ہیں؟ان کا کہناتھا تھا کہ میں اللہ سے دعا پر مکمل یقین دوسری سس کا دیکھ چکی تھی اس لئے پختہ ارادہ ذہن میں رکھا ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں دماغ لڑایا کہ کیسے کہاں سے بندوبست کیا جا سکتا ہے ؟ سوچا کہ پاکستان کی پراپرٹی بیچ دیتے ہیں کہ اچانک پاکستان سے فون آیا کہ کوئی آپکا پلاٹ خریدنا چاہتا ہے منہ مانگے دام دینے کو تیار ہے اسے پلاٹ بہت پسند آیا ہے۔

Pakistan

Pakistan

فورا ہاں کی یوں پاکستان میں موجود ایک پلاٹ اتنی رقم میں سیل ہوگیا جتنے پیسے یہاں ادائیگی کیلئے چاہئے تھے ۔ مزید واقعہ نیکسٹ فرائیڈے ایک ایڈمن نے آکر شئیرنگ کی تو اس وقت ان کی باتیں سن کر میرے دل میں جنگ چل رہی تھی کہ اگر یہ کر سکتی ہیں تو میں کیوں نہیں ؟ وہ کہنے لگیں ان سسٹر کی بات سن کر دل میں اللہ پاک سے دعا کی کہ مجھے نیکسٹ ویک تک یہ قرضہ ادا کرنا ہے گھر گئیں جا کر ہسبنڈ سے کہا کہ میں نے آج یہ سب سنا ہے ہمیں اس سے باہر نکلنا ہے ان کا کہنا تھا پاگل ہو ایک ہفتے میں کہاں سے اٹھارہ ہزار ڈالر آئے گا جمعے کو انہیں فون آیا تو آکر استاذہ کے گلے لگ کر رونے لگیں تو پھر انہوں نے بتایا کہ پچھلے ہفتے یہ اللہ پاک سےدعا کی تھی اور ابھی شوہر کا فون آیا ہے کہ ٹیکس والوں کی جانب سے لیٹر آیا ہے کہ اتنے پیسے ہمارے پاس آپ اضافی موجود ہیں ۔ سبحان اللہ توکل بااللہ ہمارے بگڑے ہوئے مشکل کام ہم نہیں کر سکتے لیکن وہ تمام اللہ پاک درست کر دیتے ہیں یاد کیجئے کہ کبھی بچہ ضد کرتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ کام کروں گی آپ سوچتے ہیں کہ آدھا کھائے گی آدھا گرائے گی دعا کیا کریں۔

اس ذات کے سامنے ہمارا بھی یہی بچگانہ حال ہے کہ ہم اس زندگی کو اس پختگی شعور کے ساتھ نہیں گزارتے جس کیلئے اللہ نے ہمیں تخلیق کیا ۔ 10 اے اللہ میرے تمام کام سنوار دے 70 71 الاحزاب اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو سیدھی بات کیا کرو جو اللہ کیا اطاعت کو خوشنودی سے کرے گا وہ اللہ کو پا گیا اللہ ایمان والوں کو حکم دیتے ہیں کہ جو اللہ سے ڈرے گا اور بات سیدھی کرے گا تو اللہ پاک نے ان کے کام خود سنوارنے ہیں ہم اپنے پاؤں پے خود کلہاڑیاں مار کرپھر خود روتے ہیں آج عمومی طور پے انسانیت پریشان ہے پچھلے گناہوں پے اللہ سے معافی مانگیں اور آئیندہ کیلئے ہدایت کی دعا سچے دل سے کریں ۔ 11 اللہ پاک نے پوشیدہ ظاہری حالت میں یعنی ہر حال میں تقویٰ کا حکم دیا ہے

ذرا غور کیجئے ہم مشرق میں ہوں تو ہمارے رویے اور ہوتے ہیں اور مغرب میں ہو ں تو اور ہوتے ہیں ۔ زندگی میں موت ہو یا شادی بیاہ ۔ عید ہو یا چاند رات ہم کچھ اور دکھائی دیتے ہیں عید کی پارٹی میں تقویٰ گر جاتا ہے ۔ اللہ پاک کو 24 گھنٹوں کا اور 7 دنوں کا مسلمان چاہئے چند گھنٹے درس سن کر متقی ہونے والا نہیں ۔ ہم اپنا گھر چاہتے ہیں ہم یہاں سے کوئئ نکالے گا نہیں ہم اپنی گاڑی چاہتے ہیں کسی کی لینی اچھی نہیں لگتی اسلام پھر ہم کیوں ادھورا چاہتے ہیں؟ کیوں ہم تقویٰ ادھورا چاہتے ہیں؟ ہمارا معیار بدل جاتا ہے نعمتیں ملتے ہی ہم اکڑ جاتے ہیں رشتوں کی دعائیں مانگ مانگ کر جب رشتے ملتے ہیں تو گردن اکڑ جاتی ہے ہم بھول جاتے ہیں کہ کس طرح پہلے روتے تھے اور نعمت ملنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا آبائی حق تھا۔

Blessed

Blessed

گناہوں کی چاشنی نیکی کو کڑوا بنا دیتی ہیں تقویٰ چاشنی کو گہرا اور مزید میٹھا کرتا ہے۔ بچے کے منہ کو دنیا کی لذتیں نہ لگی ہوں تو ماں کا دودھ ہی سب سے بڑی نعمت لگتی ہے زندگی کا نیچرل ٹیسٹ رکھیں پھر انجوائے کیجئے اللہ کی خوشنودی والی زندگی پُر لذت ہے دنیاوی کامیابیاں رونقیں مصنوعی اور دھوکہ ہیں بے اطمینانی ہے ۔ حقیقی سکون اللہ کی یاد میں اور اطاعت اور تقویٰ میں پوشیدہ ہے ۔ انسان کے نیک اعمال دعا کی قبولیت کا ذریعہ بنتے ہیں ذرا سوچیں سخت گرمی میں بھوکے پیاسے اتنے گھنٹے گزارنے کے بعد یہ پتہ چلے کہ خدانخواستہ آپ کے روزے قبول نہیں ہوئے آپ کہیں گی کہ کیسے ہوگیا میں نے تو اتنا خیال کیا تھا؟ پھر کیوں قبول نہیں ہوئے ؟ جواب ملتا ہے کہ آپ کے کسی عمل میں تقویٰ نہیں ہے سورت 27 المائدہ رمضان سے پہلے یہ آیت سوچنے پر مجبور کرتی ہے ھابیل قابیل کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حسد کی بنیاد پر ایک نے دوسرے کو مار دیا ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی کیونکہ اس کی قربانی کی نیت میں تقویٰ نہیں تھا۔

درس کو سننے والے چھپے ہوئے سپورٹرز ہوتے ہیں یہ ان کا صدقہ جاریہ بن جاتا ہے کیونکہ جس درس میں بھی خواتین آتی ہیں وہ درس نجانے کہاں کہاں سنا جاتا ہے کہاں کہاں اس کو بار بار دہرایا جاتا ہے تو اس میں شامل خواتین کا وہ صدقہ جاریہ بن جاتا ہے استاذہ کا کہنا ہے کہ میری آواز ضرور پہنچ رہی لیکن اس کی وجہ سامنے بیٹھے جو سننے والے ہیں اللہ پاک ہمارے اعمال میں تقویٰ رکھے اور قبول کر لے تقویٰ الطلاق 4 جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے کاموں کو آسان کر دے گا یہ آسانی کیسے ہوتی ہے تقویٰ اختیار کرنے میں جو تنگی پیش آتی ہے اس کی وجہ سے ان کے کام آسان ہو جاتے ہیں ۔ قرآن پاک میں اگر پردے کا حکم ہے تو متقی کو یہ حکم آسان لگتا ہے کیونکہ وہ دنیاوی لغویات سے پہلے ہی پرہیز کر رہی ہے ۔ اس کی ذات اللہ کی خوشنودی اور رضا کیلئے اس کے احکامات کو کھوج کر اپنی زندگی کو اس کے عین مطابق ڈھال کر گزار رہی ہے ۔ وہ متوازن ہے مثبت سوچ کے ساتھ درست سمت میں ہے یعنی اُس انسان کی طرح جو صحت مند ہے اور 10 کلو وزنی بیگ بھی لے کر توازن سے ہموار انداز میں چل رہا ہے۔

متقی صحتمند ہے پردہ اسکو پریشان نہیں کرتا غیر متقی عورت غیر صحتمند ہے اس کے لئے ایسے احکامات بار گراں ہیں جنہیں اپنانا اسکے لئے مشکل ہیں۔ چند اونس کا کپڑا سر پر غیر متقی کو بوجھل لگتا ہے سوچیں اپنا محاسبہ کریں کیا مجھے اللہ کا حکم ماننا آسان لگتا ہے یا مشکل ؟ حضرت ابراہیم کا سوچئے کہ نمرود کہ رہا ہے کہ آج آگ میں ڈال دوں گا کیا وہ اسی وقت ڈر کر سوچنا شروع کر دیتے کہ اب کیا کروں کیسے بچوں؟ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق ایک لمحہ سوچے بغیر تقویٰ رکھتے تھے لہٰذاکود پڑے اسے محبت کہتے ہیں ایسی مشکل آزمائش ہماری زندگی میں آئے تو ہم کیا عمل کرتے ؟ یہ نبی بھی انسان تھے جسم تھا گوشت تھا تکلیف ہوتی جب انہیں ستایا جاتا تھا حضرت بلال کے جسم کو درد نہیں ہوتی تھی؟ ایک دور سے حجاب اور پردہ کی باتیں سن کر کانپ رہی ہیں کہ آپ نے اتنی گرمی میں اتنا موٹا حجاب کیسے اوڑھا ہے مانگئے وہ علم جو تقویٰ لے کر آئےوہ علم جو خشیعت الہیٰ لائے ہر پارے کی تکمیل کے بعد سوچا کریں کہ اے عقل بتا تو اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکاتی ہے یا نہیں اگر تو جھکاؤ ہے تو آپکو مبارک ہو ورنہ علم بغیر عمل کے مزید سختی لے تا ہے علم ملے گا عمل کی کھاد ڈلے گی تو دل عاجز ہو جائے گا ورنہ دل سخت بنجر مٹی پتھر کا پتھر جس کے پاس تقویٰ ہےاُسے توفیق مانگنی ہے علم نہ مانگیں توفیق خیر مانگیں۔

Hazrat Mohammad PBUH

Hazrat Mohammad PBUH

ایک انسان پوچھتا رہے پڑھتا رہے سوچ و بچار نہ ہو تو پھر صرف سوال ہی سوال رہ جاتے ہیں کیونکہ جو پڑھا اس پے غور نہیں کیا اور عمل نہیں کیا تو کوئی فائدہ نہیں ۔ حیرت ہوتی ہے بڑی عمر کے لوگ جب سوال پے سوال کرتے ہیں کہ ان کی عمر کا آخر ہے اور ابھی تک شعور نہیں حاصل کر سکے تو کب کریں گے؟ کیونکہ انہیں توفیق نہیں ملی ۔ دنیا کے کام متقی لوگوں کیلئے آسان ہو جاتے ہیں عجیب سانحہ ہے اس دور کا خصوصا دیار غیر میں بسنے والوں کا بیٹے والے تلاش کرتے ہیں تو کہتےہیں کہ لڑکیاں اچھی نہیں ہیں ہماری قریب کی نظریں خراب ہیں معیار کھوکھلے بے معنی ہیں کوئی مانگتا ہے تو ہم دس باتوں میں الجھتے ہیں جیسے آج یہاں درس کیلئے آنا تھا تو نیوی گیٹرنے آپکو کئی راستے بتائے ہوں گے چننا آپ نے ہے کہ کس راستے سے آسانی ہے پہنچنے میں ؟ اسلام کے رائج ہوتے وقت میں شادی بیاہ تنا مشکل نہیں تھا تب معیار لڑکی کی شکل و صورت اسکے باپ کا پیسہ تعلیم نوکری نہیں تھا بلکہمعیار ملاحذہ کیجئے صحابہ کرام آکرآپﷺ سے کہتے کہ شادی کی حاجت ہے آپﷺ کہتے اچھا ذرا تصور کیجئے ایک غلام ہیں وہ آپکو نکاح کیلئے کہتے ہیں رنگ سیاہ کالا قومیت بھی وہاں کی نہیں مال و دولت بھی نہیں ہے۔

آپ سن کر کہتے ہیں کہ فلاں گھر جا کر سوال کرو بتانا کہ میں نے بھیجا ہے وہ وہاں جا کر سوال کرتے تو والدین سوچ میں ڈوب گئے بیٹی سیانی تھی اس نے کہا کہ آپ اس رشتے کو قبول کرنے میں پس و پیش کر رہے ہیں آپ اسکی رنگت دیکھ کر سوچ میں ہیں مگر جن کی وساطت سے یہ رشتہ آیا ہے انہیں سوچیں وہ چودھیوں کا چاند نہیں ؟ آپکو اعتراض ہے کہ وہ قریشی نہیں مگر جنہوں نے بھیجا وہ قریشی ہے ماں باپ متعرض ہوئے تو بیٹی نے کہا کہ آپ ﷺ کو سوچ کر قبول کر لیں کہ ان کی جانب سے رشتہ آیا ہے۔ بعد میں وہ شخص اور اسکی بیوی علاقے کیلئے قابل مثال جوڑی بن گئے حضرت عمر کا دور ہے حضرت عمر گھر کے باہر کھڑے ماں بیٹی کی گفتگو سن رہے ہیں ماں کہتی ہے بیٹی دودھ میں پانی ڈال دو کہ دودھ بڑھ جائے اور کچھ رقم زیادہ مل جائے بیٹی نے کہا عمر فاروق نے کہا ہے کہ فروخت کرتے ہوئے دودھ میں پانی نہ ڈالو ماں کہتی کہ عمر کونسا سن رہے ہیں مگر ماں اس کا رب تو سن رہا ہے بیٹی جواب دیتی ہے۔

دوسرے روز حضرت عمر نے انہیں طلب کرتے ہیں تمام لوگ ڈر گئے کہ نجانے کیا جرم سرزد ہوگیا ماں بیٹی سے ؟عمر نے اس عورت کو کہا کہ میں اپنے بیٹے کا رشتہ مانگتا ہوں لوگوں نے پوچھا ایسا کیا خاص دیکھا ؟ عمر کا جواب تھا جو لڑکی رات کو متقی ہے وہ لڑکی بہترین متقی ہے یہ لڑکی تاریخ میں عمر بن عبدل العزیز کی دادی بنی اللہ پاک تقویٰ سے ہمیشہ کام آسان کر دیتا ہے سورت الکھف جب وہ دیوار کھینچ رہے تو کہ رہے تھے اے اللہ ہمارا کام آسان کر دے دولت آج بھی معیار نہیں ہے کسی کامیابی کا اللہ پے بھروسہ اور تقویٰ ناممکن کام آسان کر دیتا ہے ۔ جس عمر میں لڑکیوں کی بیٹیاں پڑھ رہی ہوتی ہیں غریب بیوہ ماں کی تمام بچیاں گھروں میں بس جاتی ہیں اللہ پے توکل کر کے کام کر کے دیکھیں کام آسان ہوتے ہیں متقیوں کا قابل تعریف انجام ہوتا ہے خاتمہ بالخیر جس کے بعد انسان اس دنیا سے کامیاب ہو کر جاتا ہے وہی کام اچھا ہے جس کا آخری انجام اچھا ہو آپ سارا دن کام کرتی رہی ہوں کھانے بنا بنا کر آپ ہلکان ہو جائیں مگر لوگ کیا جانیں کہ آپ نے کتنا کام کیا اورکتنے گھنٹے ؟ وہ ذائقہ دیکھ کر آپکو جانتے ہیں ذائقہ نہ ہوا تو گھنٹوں کی محنت اکارت ہو جاتی ہے اس لئے کام ایسا کریں کہ خاتمہ ہمیشہ اچھا ہو۔

Holy Quran

Holy Quran

سورت 49 ھود بلاشبہ انجام کار متقیوں کیلئے ہے انسان کی صحبت اچھی ہوتو ہم اکثر کہتے ہیں ہمارا خاتمہ بالخیر کرنا اور آخری انجام تو تقویٰ والوں کا اچھا ہے یہ اشارہ قارون کی طرف تھا اکثر لوگ کوئی بھی اچھا کام کریں تو بچوں کی طرح اسے جتلاتے ہیں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں نیکی کا ٹائیٹل اپنے کاندھوں پر لگانا چاہیں گے تو یاد رکھیں کہ پھر اجر غائب ہو جائے گا۔ جو اچھا کام کر لیا اس کو دہرائیں نہ بھول جائیں اور آگے مزید بڑھ چڑھ کر تلاش کریں کہ کونسا کام آپ اور کر سکتی ہیں ۔ آج دین والے دنیا والوں کی طرح کمزور کیوں ہو گئے کیوں لڑتے جھگڑتے ہیں؟ کیونکہ اندر ایک خواہش ہے کہ مجھے جانو مجھے مانو پہلے اسلام میں صدارتوں کا وزارتوں کا کوئی دستور نہیں تھا دنیا داری دینداروں میں آئی تو لڑائیاں جھگڑے فرقہ واریت پھیلتی گئی اور دین کمزور ہوتا گیا ۔یہ مختلف مسلک آپس میں کیوں نہیں ملتے ؟ اتحاد وحدت امت کی بات سب کرتے ہیں مگر عملی طور پے خود ایک ساتھ کھڑے ہو کر یہ امت کو ساتھ کیوں نہیں کھڑا ہونے دیتے؟ ہر کوئی اپنی بات منوانا چاہتا ہے اپنی تعریف سننا چاہتا ہے۔

حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابقت بڑائی کبریائی صرف اللہ کی صفت ہے اور اسی کو سجتی ہے اور کسی کو حق نہیں بڑائی کا سورت الاعراف 128 مدد مانگو اللہ سے زمین اللہ کی ہے اور جس کو چاہتا ہے اسے وارث بنا دیتا ہے آخری انجام تقویٰ والوں کا اچھا ہے اکثر ہم سنتے ہیں لوگ بے مقصد کھیل تماشوں میں مصروف ہیں یہ تو بے وزن جھاگ ہے سورت بنی اسرائیل میں ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپﷺ زبان پے یہی کلمات تھے حق جیت گیا یہ خوشخبری ہے یہ غلط نہیں ہو سکتی اپنی نصرت اور اپنی رحمت کا ذکر ہے اللہ پاک ہمیں رسوا نہ کرے اللہ پاک ہمارا انجام اچھا کرے جہنم سے نجات پہلے دنیاوی فوائد تھے اب آخرت کے فوائد دلائل مریم 71 72 پل صراط کا ذکر تم میں سے ہر ایک اس پر سے ضرور گزرے گا آپ کے رب کا حتمی فیصلہ ہے پھر نجات دیں گے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا جہنم ﷺمیں گرنے سے بچا لیں گے ظالموں کو گھٹنے کے بل گرا دیں گے۔

کافر اور گناہ گار گر گر جائیں گے متقی بچ جائیں گے جو دنیا میں بھاگ بھاگ کر نیکیاں کر رہا تھا ا سی سرعت کے ساتھ صراط سے گزر جائے گا ارشاد مبارک ہے کہ روز قیامت جن جن کی جو عبادت کرتا تھے ان کے ساتھ بلائیں گے وہ کہیں گے ہم اپنے رب کو دیکھ رہے ہیں اللہ پاک جواب دیں گے میں تمہارا رب ہوں وہ ستر ہزار ہوں گے ان کا حساب نہیں ہوگا یہ جنتی ہوں گے دنیا میں جتنی نیکیاں ہیں قیامت کے روز اتنا ہی نور چہروں پر ہوگا ۔ قیامت والے دن حسب عمل تقویٰ نور بن جائے گا جہنم کے اوپر سے گزرنے والے نیچے دیکھیں گے 18 جنت کے وارث سوچئے طویل سفر ہے اور بہت اسٹاپ ہیں 24 گھنٹے سفر کریں۔

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر