counter easy hit

قائداعظم کا پاکستان، اسلام کی تجربہ گاہ

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر : امتیاز علی شاکر
25دسمبر2013ء کو تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن’ممتاز صحافی اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مجید نظامی(مرحوم) نے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے 137ویں یوم ولادت کے موقع پر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیرانتظام منعقدہ خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سے زیادہ مبارک دن اور کوئی نہیں ہے،آج ہم اُس عظیم شخصیت کی سالگرہ منا رہے ہیں جس نے ہمیں آزادی جیسی عظیم الشان نعمت دلوائی۔برصغیر کے مسلمانوں کیلئے آزاداورخودمختاراسلامی جمہوریہ پاکستان اللہ تعالیٰ کے تحفے سے کم نہیں’ قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو قائداعظم،علامہ محمد اقبال اور مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا پاکستان بنا دے۔ قائداعظم نے ہندو اور انگریز سے لڑ کر مسلمانوںکیلئے علیحدہ آزادملک حاصل کیا۔ ہندو اور انگریز بھارت ماتا کی تقسیم سخت کیخلاف تھے۔پنڈت نہرو کا لیڈی مائونٹ بیٹن کے ساتھ معاشقہ چل رہا تھااور مائونٹ بیٹن اتنے بے غیرت تھے کہ وہ نہرو کا پورا ساتھ دے رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل یہاں ہندو اور مسلم پانی کی الگ الگ صدائیں لگتی تھیں۔میں ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ پڑھا ہوا ہوں،میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اگر ان کے گھروں میں چلے جاتے تو ہمیں ان کے باورچی خانے میں جانے کی اجازت نہیں تھی

ہم غلطی سے وہاں چلے جاتے تو وہ اسکی اچھی طرح صفائی کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک ہمارے جانے سے باورچی خانہ ناپاک ہو جاتا۔ آج کا پاکستان ویسا پاکستان نہیں ہے جس کا نظریہ ہمیں علامہ محمد اقبال نے دیا اور قائداعظم و مادرملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی وقف کر کے اسے حقیقت بنایا۔علامہ محمد اقبال نے ہی اْ س مردِ مومن کا انتخاب کیا جس نے پاکستان بنانا تھا۔ مادرملت محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی دن رات تیمارداری کی اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ پاکستان بنا سکیں۔ پاکستان نہ بنتا تو آج ہمیں جو خوشحالی نظر آ رہی ہے یہ نہیں ہونی تھی۔ہم ایوان اقبال کے بعد اب ایوان قائداعظم بھی بنا رہے ہیں،پاکستان نہ ہوتا تو یہ عمارتیں بھی قائم نہ ہوتیں۔ ہم نے اپنی نالائقی سے ایک سے دو پاکستان بنا دیے۔

آج بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی ملاّ عبدالقادر کو پھانسی دے چکی ہے جبکہ اس نے پاکستان کے حامیوں کی فہرست بھی بنا رکھی ہے۔انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمن یہاں گرفتار ی کے بعد رہا ہوکر واپس جا رہے تھے اور بنگلہ دیش بنانے پر تلے ہوئے تھے’وہ اس وقت ملک غلام جیلانی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے تو میری وہاں ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ مجیب صاحب’پاکستان کی مخالفت نہ کریں، الیکشن ہونیوالے ہیں آپ کی اکثریت ہوئی تو آپ حکومت کریں۔ انہوں نے مجھ سے کہا مجید بھائی، یہ فوجی مجھے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ (تمام بنگالی بھائی مجید بھائی کا لفظ استعمال کرتے تھے)۔ میں نے کہا آپ ایک کی بجائے دو دارالحکومت بنالیں اور ڈھاکہ سے بیٹھ کر حکومت کریںلیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی کیونکہ وہ بنگلہ دیش بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا امن کی آشا کے پجاریوں نے یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ قائداعظم سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر ملک بنانا چاہتے ہیں۔یہ سو فیصد بکواس ہے۔

قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے پرزندگی نے انہیں موقع نہ دیا۔ انہیں موقع ملتا تو وہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایسا پاکستان بناتے جیسا علامہ محمد اقبال چاہتے تھے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو قائداعظم ،علامہ محمد اقبال اور مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا پاکستان بنا دے۔اس عظیم اجتماع کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم زندہ ہیں اور انشاء اللہ پاکستان قائدعظم کا پاکستان بن کر رہے گا۔قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کی شخصیت پرتاریخ نگاروں نے بے شمار کتب مقالے اور مضامین لکھے ہیں جن میں قاری کو اُن کی شخصیت بارے میں اہم معلومات اوردیگرکارناموں کے معلق کافی موادملتا ہے۔ قائداعظم کی سوانح عمری اُن کے افکار، اُن کی تقاریر پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بلا شبہ وہ انیس ویں صدی کے عظیم ترین لیڈر تھے۔انیس ویں صدی برصغیر کی تاریخ میں حصوصی اہمیت کی حامل رہی ۔اس صدی میں چند ایسی مسلم ہستیوں نے اپنا لوہا منوایا جنہوں نے خطے کے مسلمانوں میں یگانت اور بھائی چارے کی نئی روح پھونک کر انہیں ایک وحدت میں منسلک کردیا۔ان عظیم ہستیوں میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال ،مولانا ظفر علی خاں،ڈاکٹر ضیائ،مولانا شوکت علی،سرسید احمد خاں ، مولانا محمد علی جوہر اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نام نمایاں ہیں۔

ان رہنمائوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی پستی سے نکال کر صیحح اور روشن منزل کاپتا دیا ۔وہ منزل قائد اعظم محمد علی جناح کی مدبرانہ اور ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے 14اگست1947ء کے دن پاکستان کی صورت میں حاصل کی ۔بانی پاکستان قائداعظم نے چالیس سالہ جہد مسلسل سے بتدریج مختلف ارتقائی منازل اور بے شمار مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی معجزاتی و کرشماتی شخصیت کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی۔ہم ہر سال 25دسمبرکے بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کایوم ولادت قومی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں ۔اس دن ہم اپنے قائد کی یاد تازہ کرنے کیلئے اُن کے اقوال اور پاکیزہ جذبے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔قائداعظم سمجھتے تھے کہ مسلمان مذہب کی رو سے ہندوئوں اور انگریزوںسے الگ قوم ہیںاس لیے ان کی آزادی اور خود مختاری کے لیے ایک علیحدہ ا سلامی ریاست کی ضرورت ہے۔

نظریہ اسلام کی بنیادآزادہونے والے پاکستان کو سیکولرثابت کرنے کیلئے جس اندازمیں بانی پاکستان کوسیکولرقراردینے کی کوشش ہورہی ہیںاُن کے پیچھے گہری سازشوں کی بوآتی ہے۔قائداعظم نے مسلمانوں کیلئے جسطرح علیحد ہ آزاد اسلامی ریاست کی جدوجہد کی اسکی مثال نہ توماضی میں ملتی ہے نہ مستقبل میں ملنے کی اُمیدہے۔سیکولرنظریہ کامقابلہ کرنے کیلئے قائد اعظم کے اسلامی نظریات کے بارے میں ابھی تک بہت کم لوگوںنے قلم اٹھایا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ سیکولرذہنیت رکھنے والے دانشور حضرات مسلسل قائداعظم کو سیکولر قرار دینے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ قائد اعظم نے تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں متعدد بار یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائیگی اور پاکستان کے نظام آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائیگا۔

قائداعظم سیکولرہوتے توپھروہ برصغیرکے مسلمانوں کی قیادت کرنے کی بجائے ہندوبنئے کے ساتھ مل کرمسلمانوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کوشش کرتے جبکہ انہوں نے ایسا نہیں کیااورمسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری اپنے سرلیتے ہوئے اس انداز میں دوقومی نظریہ کواجاگر کیاکہ پاکستان ایک آزادملک بن کردنیا کے نقشے میں شامل ہوگیا۔ قائد اعظم کا تعلق کسی سیکولرگھرانے سے نہیں بلکہ ایک مذہبی خاندان کے ساتھ تھاجب انہوںنے ہوش سنبھالا تو ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کیلئے ان کے والد پونجا جناح نے سندھ مدرستہ الاسلام کا انتخاب کیا۔ معروف مصنف رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائد اعظم کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی ہے ان کے مطابق قائداعظم کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا ۔ جسطرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا۔ انکی ہمشیرہ شریں بائی کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں ”قائداعظم محمد علی جناح” کے والد پونجا جناح مشن سکول کے معلم تھے بیٹے کو سکول میں داخل کرنے کا وقت آیا تو اسے مشن سکول کی بجائے ”سندھ مدرستہ السلام” میں داخل کروایا۔

پونجا جناح صرف تاجر ہی نہ تھے معلم بھی تھے بچپن کی تعلیم اور اسکے اثرات سے آگاہ تھے وہ جانتے تھے کہ ایک بچے کی ذہنی ساخت اور کردار سازی میں کون کون سے چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ان لوگوں کا ہاتھ بٹانے والے بھی تھے جنہوں نے سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کی ضرورت محسوس کی اور اسے قائم کیا۔ وہ خود گھر پر بچوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے اور ماں بچوں کو مذہبی تاریخی کہانیاں سنایا کرتی تھیں”۔

قائد اعظم حقیقی مسلمان اورمحبت رسول للہۖ سے سرشار تھے جس ثبوت یہ ہے کہ جب وہ انگلستان سے واپس بمبئی پہنے نوجوانی کی عمرمیں قائداعظم نے پہلی بار جس تقریب میں شرکت کی وہ عید میلاد النبی ۖکی تقریب تھی اس وقت کوئی محمد علی جناح کو جانتا بھی نہ تھا۔ اگلے سال بھی وہ اس تقریب میں موجود تھے۔ کیا یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بظاہر ولایتی سوٹ پہننے والے جناح کے باطن میں رسولۖ کی محبت کی روشنی موجود تھی جو انہیں ان تقریبات میں کھینچ لائی تھی۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر :امتیاز علی شاکر
e.mail.imtiazali470@gmail.com