counter easy hit

قائد کا فرمان۔ اردو سرکای زبان

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

تحریر: ابنِ نیاز
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے ٢١ مارچ ١٩٤٨ء کو اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ لیکن قسمت سے کون لڑ سکتا ہے سوائے دعا کے ۔ ١١ ستمبر ١٩٤٨ ء کو قائد ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ تب تک ١٩٣٧ء انڈیا ایکٹ ضروری ترامیم کے ساتھ پاکستان کا گویا آئین تھا۔ اب قائدِ اعظم کا فرمان کوئی قرآنی آیت تو تھی نہیں کہ اُدھر زبان سے نکلی ، اِدھر اس پر عمل ہو گیا۔

اگرچہ ہم پھر بھی نہ کرتے اگر چہ وہ قرآن کا حکم بھی ہوتا کیونکہ اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے مؤمن ہونا ضروری ہے، اور ہم صرف مسلمان ہیں۔ مؤمن اور مسلمان میں فرق صرف اتنا ہے کہ مؤمن اللہ کی مانتا ہے اور مسلمان اللہ کو مانتا ہے۔یہ تو ایک ثانوی بات بیچ میں آگئی۔ بات ہو رہی تھی قائد کے فرمان کی۔ تو ہوا یوں کہ پھر ١٢ مارچ ١٩٤٩ء کو قراردادِ مقاصد کی منظوری دی گئی لیکن اردو کے سرکاری طور پر نفاذ کا ذکر کہیں نہیں تھا۔ اس کے بعد ١٩٥٦ ء کا آئین، پھر ١٩٦٣ ء آئین۔ بے شک اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا، لیکن ہنوز کام کاج سب کے سب انگریزی میں ہی سرزد ہو رہے تھے۔کیونکہ حکمرانی ، اصل حکمرانی ان لوگوں کی تھی جو انگریزوں سے زمین، جائیداد ، جاگیر بطورِ انعام یا بطورِ خلعتِ فاخرہ حاصل کر چکے تھے، یا پھر انڈین سول سروسز کے پروردہ تھے۔ تو وہ کیسے اپنے زمینی آقا کی شان میں گستاخی کر سکتے تھے۔

وقت گاگزرتا گیا۔ ١٩٧٣ء کا آئین منظور ہوا۔ اس میں ایک شق رکھی گئی، شق نمبر ٢٥١۔ کہ پندرہ سال کے اندر اندر اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے گااور اسکے لیے متعلقہ انتظامات کیے جائیں گے ۔ لیکن آئین کی بالادستی کو کوئی تسلیم کرے تو بات بنے۔ اردو کو سرکاری زبان بننا تھا نہ بنی۔١٩٨٨ ء میں پندرہ سال پورنے ہونے تھے جو آج تک نہ ہو سکے۔ اگر تب سے اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوتی تو اوکاڑہ کے نواحی گائوں نہرانوالی کا رہنے والا نوجوان نوید آصف جس نے لاہور بورڈ میں دسویں کے امتحان میں ٩١٩ نمبر حاصل کرکے دوسری پوزیشن لی، اپنا میڈل وصول کرنے سے پہلے یا بعد میں ہال میں موجود کرسیوں کے درمیان خالی سیڑھیوں پر ہرگز نہ بیٹھتا بلکہ وہ بھی فخر سے کسی کرسی پر کسی آکسفورڈ کے حمایت یافتہ سکول سے پڑھے ہوئے طالب علم کے ساتھ بیٹھا اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا ہوتا۔اور کیا ممکن تھا کہ اگلے دس سال بعد وہ اسی اوکاڑہ ضلع کا اسسٹنٹ کمشنر ہو۔

جی جناب عالی! یہ عین ممکن ہے کہ اگر اس پاک وطن میں اردو اسکی روح کے مطابق نافذ ہوجاتی ہے تو شاید ہی کوئی آکسفورڈ، کیمبرج میں پڑھنے والا نوجوان پاکستان کے کسی بھی گورنمنٹ سکول میں پڑھنے والے سے آگے نکل سکے۔ہمارے اس اردو پڑھنے والے نوجوان کے پاس علم ہے،حالات وواقعات سے مکمل آگاہی رکھتا ہے۔ حالاتِ حاضرہ سے پوری واقفیت ہوتی ہے۔دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کہاں کونسی ایجاد کس کے خلاف یا حق میں ہو رہی ہے، کس ملک کی سیاست کس کروٹ بیٹھ رہی ہے۔ کونسا ملک اپنی خارجہ یا داخلہ پالیسی بدلتے وقت کے مطابق تبدیل کر رہا ہے۔ یہ سب ہمارے اس اردو میڈیم میں پڑھنے والے نوجوان کے دل و دماغ میں بھرپور جزئیات کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ لیکن ہائے رے موئی انگریزی کی وجہ سے وہ مقابلہ کے امتحان میں شریک نہیں ہو سکتا۔ وہ جیسے تیسے کر کے چودھویں یا سولہویں تو کر لیتا ہے لیکن انگریزی میں اتنا لائق نہیں ہوتا کہ اپنا مافی الضمیر فر فر بیان کر سکے۔ آپ اردو نافذ کریں اور پھر پاکستان کے جوانوں کی کریم کو آگے بڑھتا دیکھیں۔ ان کے آگے آنے کی وجہ سے پھر پاکستان کو بھی ترقی کرتا دیکھیں۔
مذہب کے بعد یہ زبان ہی ہوتی ہے جو کسی وطن کے افراد کو یکجا کرتی ہے۔ان میں اتحاد و یگانگت پیدا کرتی ہے۔

مذہب کی بنیاد پر تو تمام انسانیت یکجا ہوتی ہے لیکن ایک ملک میں زبان یہ کام بہ احسن طور پر سر انجام دیتی ہے۔ دنیا کے دوسو پچاس کے قریب ممالک میں سے تقریباً ایک سو بیالیس ممالک کی قومی زبان ہی انکی سرکاری زبان ہے۔ ان ممالک کو اپنے کے کسی حصے میں بھی سرکاری خط و کتابت کی ترجمہ کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ کیونکہ ہر فرد چاہے وہ اپنے دارالحکومت سے ہزاروں میل دور ہے ، بہ آسانی سمجھ لیتا ہے۔پاکستان و اسلام دشمن ملک اسرائیل کو جب آباد کیا گیا تو وہ بھی مذہب کی بنیاد پر آباد ہوا۔ لیکن مکین چونکہ مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے، تو ان کی زبان بھی مختلف تھی۔وہاں آپس میں رابطے کا مسلہ پیدا ہو گیا۔ اسکا حل انھوں نے یہ نکالا کہ عبرانی زبان کو اسرائیل کی سرکاری و قومی زبان قرار دیا گیا۔ اور صدیوں بعد اسرائیل کو اسکی زبان واپس ملی۔ شاید تاریخ میں بھی یہ پہلی بار ہوا کہ والدین نے ، بزرگوں نے اپنے بچوں سے عبرانی زبان سیکھی کہ بچوں کو سکول کی سطح سے عبرانی پڑھائی جانے لگی۔

ہم اردو کیوں نہیں لکھ اور پڑھ سکتے، سرکاری طور پر؟ اکثر ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں طلباء اپنی تعلیم کو ادھورا کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ جسکا جواب زیادہ تر یہی دیا جاتا ہے کہ غربت کی وجہ سے۔ لیکن یہ جواب درست نہیں ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے بیالیس فیصدطلباء انگریزی کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے بعد تیس فیصدغربت اور اٹھارہ فیصد مناسب طور پر رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے۔ چاہے وہ تعلیم کی کوئی بھی سطح ہو۔ پرائمری، دسویں یا کالج کی سطح پر۔ مجھے غالب یقین ہے کہ ذریعہ تعلیم اردو ہونے کی وجہ سے ایک تو یہ تعلیم درمیان میں چھوڑ دینا بہت کم ہو جائے گا ۔ کم از کم وہ بیالیس فیصد تعداد تو نہیں چھوڑے گی۔

دوسرا پاکستان میں خواندگی کا تناسب چھپن فیصد ہے ، جس میں اردو میں پڑھنے والے شامل ہیں، کم از کم بھی آرام سے ٧٥ فیصد سے بڑھ جائے گا۔ اردو کے نفاذ سے کسی کو بھی کوئی مسلہ نہیں ہو گا۔ بلکہ وہ لوگ جو انگریزی میں بات کرنا فخر سمجھتے ہیں، اردو کی ٹانگیں توڑنا اپنا غرور جانتے ہیں، وہ اس بات پر بھی فخر کریں گے کہ پاکستان بھی گونگا نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہو گی کہ پارلیمنٹ میں موجود ہمارے نمائندے جنکی اکثریت صرف اردو ہی پڑھنا لکھنا جانتی ہے، کسی نہ کسی مقام پر ان کو مجبوراً انگریزی میں بات کرنا پڑ جاتی ہے تو انکے لیے بہت مشکل پیش آتی ہے، وہ بھی بہ آسانی اپنا مدعا بیان کر سکیں گے۔ بلکہ بہت ہی بہتر طور پر مخالف کو دبائو میں لے سکیں گے۔ بشرطیکہ وہ بھی پاکستانی نہ ہو۔ امریکہ سے مذاکرات ہورہے ہیں، روس سے بات چیت ہو رہی ہے، یا چین سے باہمی تعاون کے مذاکرات ہوں، بہت بہترین طریقے سے اور بھرپور اعتماد سے اپنا کیس پیش کر سکیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔

Ibn e Niaz

Ibn e Niaz

تحریر: ابنِ نیاز