counter easy hit

گرہ مٹ میں سرِعام دوشیزہ کی آبرو ریزی

آپ ﷺ کی تشریف آوری سے قبل عورت کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا لیکن جب آپﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو اس قبیح عمل کو ختم کیا۔ جس قدر اسلام میں عورت کو حقوق دیئے گئے اس کی باقی مذاہب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج مسلم امت عورتوں کے ان سب حقوق کو بھال چکی ہے۔ آج مسلم معاشرے میں عورت پر جو مظالم ہوتے ہیں ان کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔

ایسا ہی کچھ واقع چند روز قبل خیبر پختونخوا کے ایک دامانی علاقہ گائوں گرہ مٹ (مٹیں) کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن میں ہوا۔ یہ علاقہ میرے گاوں سے کم وبیش 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس علاقے کے کچھ با اثر، بےضمیر افراد نے پرانی دشمنی کی بنیاد پر پندرہ سالہ نوجوان لڑکی کواس وقت گھیر لیا جب وہ قریبی تالاب سے سر پر مٹکی اٹھائے پانی لینے جا رہی تھی۔ اس بے چاری کو بے لباس کر کے علاقے میں گھومایا گیا۔

تفصیلات کے مطابق لڑکی کک بھائی سجاد سیال کومب برادری کی ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا۔ یہ محبت کی آگ یکطرفہ نہیں تھی بلکہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، اور چھپ چھپ کر موبائل پر گفتگو کرتے تھے۔ ایک روز لڑکی کو اس کے گھر والوں نے موبائل فون پر بات کرتے دیکھ لیا۔ انہوں نے اس کو مارا پیٹا تو پتاچلا کہ وہ سجاد سے بات کرتی تھی اور یہ موبائل بھی اسی نے دےرکھا تھا۔

بالآخر مختلف برادریوں کے تعاون اور مداخلت پر کم و بیش تین لاکھ روپے جو بعد میں کم بھی کردیئے گئے، کے معاوضے کی ادائیگی کیساتھ فیصلہ ہوگیا۔ سجاد سیال انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف کومب برادری کافی بااثر اور اثرورسوخ والی تھی۔ یہ بھی آپ کو بتاتا چلوں کہ ایسے دور دراز علاقوں میں اس طرح کے واقعات میں بھاری جرمانے سمیت ونی کی سزا بھی سنائی جاتی ہے۔ لوگ چپ چاپ ایسے فیصلوں کو مانتے ہیں۔  یہاں کے لوگ اپنی غربت و بےبسی کے سبب  مجبور ہو کر وڈیرے کے خلاف اپنا منہ بندرکھتے ہیں اور غلاموں والی زندگی گزارتے ہیں۔ وڈیروں کے بھائی، بیٹے ان غریب لوگوں کے گھر میں گھس کر انکی چادر و چاردیواری کی عزت تک پامال کردیتے ہیں پھر بھی یہ مجبور و لاچار سرِعام بےعزتی کے ڈر سے خاموشی میں ہی آفیت سمجھتے ہیں۔

اگر کوئی مجھ جیسا سرپھرا کسی وڈیرے کے آگے سر اٹھاتا بھی ہے تو ایک پلان کے تحت اپنے غنڈوں سے ڈکیتیاں کروا کر گھر میں کتے بیٹھوا دیئے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظروں میں اسے چور ثابت کرکے جیل بھجوا دیا جائے۔ ایسے ہزاروں پسماندہ علاقوں میں وڈیروں کا ہی راج ہے۔ تھانہ بھی اس کا، قانون بھی اس کا اور علاقہ بھی اس کا۔ جو غلامی کرتا ہے وہی سکون کی زندگی گزارتا ہے بشرطیہ کہ اپنے علاقہ کے وڈیرے کے سامنے انکی ہاں میں ہاں آنکھیں بند کرکے ملائے۔

سجاول سیھڑہ جو ان غنڈہ صفت لوگوں کا دست راست ہے، نے یہ واقعہ کروانے سے پہلے ایک پلان تیار کیا اور کومب برادری کی ایک عورت کے خودساختہ طور پر کپڑے پھاڑ کر شریفاں بی بی کے بھائی سجاد سیال کے خلاف مقامی تھانہ میں ایس ایچ او دوست کو پیسہ دےکر پرچہ بھی کٹوایا۔ تاکہ بعد میں اگر کوئی انکے خلاف کارروائی کروائے تو پرچہ کراس ہوجائے۔ جب یہ پرچہ ہوگیا تو سجاول نے گھس پیٹوں کو ٹیلی فون کے ذریعے اشارہ کردیا۔ اشارے کی دیر تھی کہ ایک بے بس، نہتی پندرہ سالہ خاتون شریفاں بی بی پر قیامت ڈھا دی گئی۔ پانچ سے دس افراد پر مشتمل ایک گروہ جو پہلے سے تاک لگا کے بیٹھا تھا، موقع پر پہنچا اور لڑکی کو پکڑ کر بھری محفل میں اس کے کپڑے پھاڑنا شروع کردیئے۔ وہ مدد کو چلائی مگر بندوق برداروں کے خوف سے کوئی آگے نہ بڑھا۔

خوف سے سہمی حواء کی بیٹی جسم کو چھپانے کی خاطر بھاگ کر قریبی گھر میں داخل ہوئی مگر ظالموں کا گروہ اسکے پیچھے پہنچ گیا۔ ظالموں کے ڈر سے گھر والوں نے شریفاں بی بی کو اپنے گھر سے باہر نکال دیا۔ اگر بستی والے چاہتے تو ان ظالموں کے سامنے دیوار بن سکتے تھے لیکن شائد ہمیں بھی غلامی کی عادت ہو گئی ہے۔ ایک نوجوان نے شریفاں کو بچانے کی کوشش کی تو اس پر کلاشنکوف تان کر اس کی پٹائی گئی۔ ظالم درندے کئی گھنٹے تک نہتی لڑکی کو برہنہ حالت میں گاؤں کی گلیوں میں گھماتے رہے اور اپنے موبائل فونز پر اس درندگی کی ویڈیوز بھی بناتے رہے۔

شریفاں بی بی اپنے خاندان کے ساتھ رپورٹ کرنے چودھوان تھانہ پہنچی تو تھانہ میں مخالفین کے کرتا دھرتا پہلے سے ہی موجود تھے۔ مظلومہ نے متعلقہ ایس ایچ او کو پرچہ کاٹنے کا کہا تو موصوف آپے سے باہر ہوگئے۔ لڑکی اور اسکے گھر والوں کو دھوکہ باز کہتے ہوئے فرمانے لگے تمہارے بھائی سجاد سیال نے عزت دار کومب برادری کی ایک عورت کے کپڑے پھاڑے اور سرعام برہنہ کیا۔ الٹا تم ان ہی کے خلاف جھوٹی رپورٹ کروانے آگئے ہو؟ اس کے بعد ایس ایچ او صاحب نے مظلوم خاندان کو تھانہ سے یہ کہہ کر نکال دیا کے اسکی ڈیوٹی کا وقت ختم ہوگیا۔ لہذا صبح تشریف لائیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اس اندوہناک واقعہ میں ایس ایچ او بھی اتنا ہی مجرم ہے جتنا کہ باقی وڈیرے۔

اس واقعہ کی خبر اسی روز ”دنیاء نیوز”  پر چلنے کے بعد نا صرف ایس ایچ او نے مذکورہ لڑکی کا پرچہ رجسٹرڈ کیا بلکہ اسکے بھائی سجاد کے خلاف کیا گیا جھوٹا پرچہ بھی ختم کردیا۔ میڈیا پر خبریں چلنے کے بعد مرکزی ملزمان کو بھی پکڑ لیا گیا مگر مجرموں کا دستِ راست سجاول سیھڑ پولیس کی گرفت میں نہ آسکا۔ شرم کا مقام ہے ہمارے اقتدارِ اعلیٰ پر فائز ان لوگوں کیلئے جو نئے پاکستان اور روشن پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اگر صوبائی و وفاقی حکومت نے اس مظلوم خاندان کی مدد نہ کی تو یہ غریب اور بے بس خاندان چند روپوں کے عوض ان وڈیروں کو معاف کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ ایسے دور آفتادہ علاقوں میں جہاں جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون چلتا ہے، طاقتور مظلوموں کی ساتھ اس قسم کا ظلم رواں رکھنے میں بے باک ہوتے ہیں۔

وڈیرہ ازم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے حکومت کو چاہیئے کہ ان درندوں کو عبرت ناک سزا دلوائیں تاکہ آئیندہ کسی کو مجبور لوگوں پر ظلم کرنے کی ہمت نہ ہو۔