counter easy hit

عوامی ورکرز پارٹی کا سیمینار

پچھلے دنوں عوامی ورکرز پارٹی کے زیر اہتمام زرعی اصلاحات کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا ،ہمیں بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور زرعی اصلاحات کے موضوع پر تقریرکا بھی کہا گیا۔ زرعی اصلاحات کی ناگزیریت پر ہم ہمیشہ ہی لکھتے رہے ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں یہ ا قومی مسئلہ ہے لیکن ہم اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اس اہم سیمینار میں شرکت نہ کرسکے۔

سیمینار میں کئی دوستوں نے زرعی اصلاحات پر ااظہار خیال کیا۔ ان مقررین میں پیپلزپارٹی کے سینیٹر تاج حیدر بھی شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے مزدورکسان راج کا نعرہ لگاکر  ہمدردیاں حاصل کی تھیں اور پیپلزپارٹی کا منشوربنانے والوں میں درمیانے طبقے کے رہنما شامل تھے۔ معراج محمد خان، جے اے رحیم وغیرہ نے نہ صرف پیپلزپارٹی کا منشور بنایا بلکہ وہ نعرے بھی دیے جو پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا باعث بنے۔

تاج حیدر کا شمار پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس سیمینار میں دوسرے دوستوں کے ساتھ تاج حیدر نے بھی زرعی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا اور ایک ایسی پارٹی میں جہاں وڈیروں کی بالادستی قائم ہے زرعی اصلاحات کی بات کو جرأت انداز ہی کہا جاسکتا ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عابد حسین منٹو کا شمار چوٹی کے ورکرز میں ہوتا ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے منشور میں زرعی اصلاحات بھی شامل ہیں اور منٹو صاحب نے اس حوالے سے غالباً اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا لیکن  زرعی اصلاحات کے خلاف فیصلہ آیا تو عابد حسین منٹو نے سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ایک پٹیشن داخل کی جو بد قسمتی سے برسوں سے زیر سماعت ہے۔

سپریم کورٹ کے فاضل جج بعض اہم ترین مسئلوں میں جرأت مندانہ فیصلے کررہے ہیں ان فیصلوں میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمیٰ ممبر قومی اسمبلی اور پارٹی قیادت سے نا اہلی کا تازہ ترین فیصلہ آیا ہے۔ نواز شریف کا تعلق صنعتی اشرافیہ سے ہے جو زرعی اشرافیہ کے تعاون سے اقتدار کی گاڑی چلارہے تھے نواز شریف کی نا اہلی بلاشبہ ایک بڑا کام ہے لیکن زرعی اشرافیہ پر اس کا کوئی اثر نہ پڑسکا کہ اس کی جڑیں بہت مضبوط بھی ہیں اور سیاست اور اقتدار پر یہ طبقہ امر بیل کی طرح چھٹا ہوا ہے۔ اسے زرعی اصلاحات کے بغیر بے دست و پا نہیں کیا جاسکتا۔

اس طبقے کی سیاسی طاقت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایوب خان اور بھٹو کی زرعی اصلاحات کو اس نے ناکام بنادیا۔ آج بھی یہ طبقہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں طاقت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ زرعی اصلاحات کے مطالبے، قیام پاکستان کے ساتھ ہی کیے جاتے رہے ہیں اور سندھ میں حیدر بخش جتوئی، پنجاب میں سی آر اسلم اور ان کے ساتھیوں نے اور  خیبر پختونخوا  میں مرحوم میجر اسحاق نے ملک کی زرعی اصلاحات لانے اور جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔لیکن پاکستان کے عوام کی جان اس عفریت سے آزاد نہ ہوسکی۔ 2005 میں عوامی ورکرز پارٹی کے زیر اہتمام ہونے والی کسان کانفرنس میں ہم بیماری کے باوجود شریک ہوئے تھے اس قسم کی کانفرنسیں زرعی اصلاحات کے حوالے سے اگرچہ مفید ثابت ہوتی ہیں لیکن ان کا اثر وقتی ہوتا ہے۔

اس حقیقت کے پیش نظر ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس سے پہلے ہم نے لاہور عابد حسین منٹو کو فون کرکے تجویز دی تھی کہ کانفرنس میں چونکہ چاروں صوبوں کے رہنما شرکت کررہے ہیں لہٰذا کانفرنس کے بعد ایک اجلاس کیا جائے جس میں کانفرنس کے فالو اپ کی پالیسی بنائی جائے۔ عابد حسین منٹو نے ہماری تجویز پر کانفرنس کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک ہوٹل میں اجلاس کا اہتمام کیا جس میں چاروں صوبوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

اس اجلاس میں ایک کمیٹی بنائی گئی ‘یہ کمیٹی بھی چند میٹنگز کے بعد ایسی لاپتا ہوگئی کہ آج تک اس کا سراغ نہ مل سکا، عوامی ورکرز پارٹی کا سیمینار قابل تعریف کے ساتھ قابل تقلید بھی ہے کہ ان تقاریب سے کم از کم زرعی اصلاحات کی خبریں عوام تک میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہیں لیکن ہمارے دوستوں کو بجا طور پر یہ شکایت ہے کہ میڈیا خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا ایسی اہم کانفرنسوں کی کوریج نہیں کرتا۔

اس قسم کے اہم قومی مسائل پر عموماً بایاں بازو ہی متحرک رہتا ہے لیکن اسے بائیں بازو کی نا اہلی کہیں یا اس ملک کے عوام کی بد قسمتی کہ بایاں بازو عشروں سے سخت بے عملی کا شکار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں بایاں بازو کسی حد تک متحرک ہے لیکن دیگر صوبوں میں اس کا حال ’’ہر چند کہ ہیں نہیں ہیں‘‘ جیسا ہے۔ اس وقت ملک میں بائیں بازو کے حوالے سے بڑی پارٹی عوامی ورکرز پارٹی ہی نظر آتی ہے۔ پارٹی کے اراکین کو یہ شکایت ہے کہ پارٹی کے رہنما عابد حسین منٹو پارٹی کو وقت نہیں دے پا رہے ہیں۔ عابد حسین منٹو اپنی مجبوریاںیہ بتاتے ہیں کہ اب وہ بوڑھے ہوچکے ہیں لہٰذا اب وہ اس قابل نہیں رہے کہ پارٹی میں فعال کردار ادا کرسکیں۔ بلاشبہ جب انسانی اعضا کمزور ہوجاتے ہیں تو انسان فعال نہیں رہ سکتا لیکن کہاجاتا ہے کہ اعلیٰ مقاصد رکھنے والوں کی راہ میں بوڑھاپا حائل نہیں ہوسکتا۔

بہر حال حالات کا تقاضا ہے کہ عوامی ورکرز پارٹی خود بھی فعال ہو اور دوسری چھوٹی پارٹیوں کو بھی اپنے ساتھ ملاکر فعال کرے۔ پچھلے دنوں حیدرآباد سے ایک ترقی پسند رہنما اور ان کے ساتھی ہمارے پاس آئے طویل گفتگو کے بعد انھوں نے کہاکہ زرعی اصلاحات اور عوام کے اہم مسائل پر ایک اتحاد بنایاجانا چاہیے اگر ایسا اتحاد بن سکتا ہے تو ہم بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ برادرم عابد حسین منٹو کو ابھی کچھ عرصے تک پارٹی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے اس سے پارٹی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر وہ متحرک ہونے سے بالکل معذور ہیں تو پھر انھیں قیادت سے مستعفی ہوکرکسی جاندار دوست کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website