counter easy hit

نجکاری یا قومی ملکیت

Privatization

Privatization

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
قومی وقار اور وطن کی آن کوٹھیس پہنچے یا ملک کے اہم اداروں کوبیچ کر مال اِدھراُدھر ہوتا ہے تومحب وطن افراد خون کے آنسو روتے ہیں مگر ان بدبخت وڈیروں ، بد طینت و بد کردار جاگیرداروں، سود خور صنعتکاروں ،مزدروں کا خون شرابوں میں ملا کر پی جانے والے ناجائز منا فع خور نو دولتیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکنے پر کیا کیا جائے۔

خدائے لم یزل تو سیلابوں ،زلزلوں ،طوفانوں کے ذریعے تنبیہ فرما رہے ہیں ۔مگر موجودہ و سابقہ حکمرانوںاور نام نہاد مک مکائی اپوزیشن کے راہنمائوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔مغلیہ خاندان کے رنگیلا بادشاہ کی طرح رنگ رنگیلیوں خُمر و شباب میں بد حال و بد مست ہیں ۔ایسے ضمیر فروش ،دین و وطن فروش ، کر پٹ افراد کی اصل جگہ تو چو کوں پر لگائی گئی ٹکٹکیاں اوران کے لیے رنگین گلوبند پھندے ہی ہیںمگر عوام چیخ و پکار کرتے رہ جاتے ہیں ۔مفاد پرستوں کے گلے میں رسی ڈال کر کھینچنے والے ابھی شاید مائوں نے جنے ہی نہیں ۔اپنے معمولی کاروبار،دکان میں تھوڑا سا نقصان یا ایک مرلہ زمین کا ہیر پھیر ہم برداشت نہیں کرتے اور تھانوں کچہریوںمیں ہم دہائیاں دیتے دیتے سپریم کورٹ تک ہی نہیں پہنچ جاتے بلکہ عملاًمرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ،مگر سرکاری اداروں کی اونے پونے داموں فروختگی اوران سودوں میں کک بیکس لینے والے لٹیرے دندناتے پھر رہے ہیں۔

بہر حال مظلوم و مقہور محنت کش عوام کے کھردرے نوکیلے ہاتھ بر چھیوں کی طرح ان کے گریبانوں تک ہی نہیں بلکہ موٹی گردنوں اور بیلون نماموٹی توندوںتک پہنچیں گے اور ووٹ کے ذریعے بھی اِن کودفع دورکرنے کو تیار ہیں۔سرکاری سکول کباڑ خانے اورزمینداروں کی بھینسوں کے بھانے بن چکے ہیں ۔ود ہولڈنگ ٹیکس کا بھوت کاروباری حضرات کے سر پر سوارکرڈالا گیا ہے تو وہ خود چیخ و پکارکر رہے ہیں اور چیزوں کی قیمتیں دگنی تگنی کرکے عوام کی چیخیں نکلوا رہے ہیں۔ حکمران زرداری ہو ،شریف برادران یا عمران،یا کٹھ ملائیت کے علمبردار ملاں اور الطاف حسین سبھی ٹک ٹک دیدم کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں کہ سب کا”نیک مقصد” مال بنانے اور بیرون ملک جمع کروانے کے علاوہ کچھ اور نہ ہے ۔اعلیٰ کرپٹ بیورو کریٹس پر ہاتھ ڈالنے کی ان میں بھی ہمت نہ ہے ڈرتے ہیں کہ کہیں ووٹ ہی خراب نہ ہو جائیں ۔سیاست تقریباً 2ہزارفراڈیوں ،رسہ گیروں تمن داروں اور جاگیرداروں کی گھر کی لونڈی ہی نہیں بلکہ خوبصورت طوائف سمجھیں۔شورش کاشمیری نے درست ہی کہا تھا۔

میرے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

نجکار جو بھی آئے گاوہ ملازمین مزدوروں کی چھانٹی کرواکے انھیں بھوکوں مرنے پر مجبور کرڈالے گا۔آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔بیروزگاری اس سے دگنی تگنی رفتار سے”ترقی پذیر”ہے۔کرپٹ فراڈی موجودہ سیاستدانوں کے پاس نہ ان کا حل ہے اور نہ وقت وہ تو سارا دن مال کمائو اور بھول جائو کے فنکشن میںمصروف رہتے ہیں اور یہ نظریہ ان کے ذہنوں کی گہرائیوں میں جاگزین ہو چکا ہے اگر زیادہ مال ہو گا تو ووٹوں کی خریدو فروخت اور بندر بانٹ آسان ہو گی۔اس طرح سیٹ پکی تو آئندہ مزید ڈھیر سارا مال بھی جمع ہو گااسی لیے جن کو پی پی یا ن لیگ نے دھتکارا یا ان کی نائو(کشتی)ڈوبتی دیکھ کرچھلانگ لگائی ۔وہ “انصاف”کرنے کروانے کے لیے پی ٹی آئی کی طرف بگٹٹ دوڑتے گھوڑوں ،گدھوں کی طرح آرہے ہیں۔

بھگدڑ مچی ہوئی ہے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ نہیں بلکہ توڑ مروڑ رہے ہیں۔دشمن بنے خشمگیں آنکھوں سے دوسرے کو گھورنے اور لتاڑڈالنے کا سیاسی کیمیائی عمل تیز تر ہو چکا ہے ۔تمام لُچے بدمعاش غنڈے جواُدھر سے مال متال ہڑپ کرچکے اب ادھر کا رخ کیے ہوئے ہیں۔جعلی کاروباروں حتیٰ کہ جعلی موبل آئل بنانے والے بھی شامل ہو کر راہنما بن بیٹھے ہیں اور آئندہ ٹکٹوں کے امیدوار اور اقتدار کی لیلیٰ کو چومنے چاٹنے کا پختہ ارادہ لے کر آئے ہیں ۔مگر اس دفعہ ناکامی سبھی جغادری سیاستدانوں کامنہ چڑا رہی ہے کہ خدائے عز و جل نے اپنی نام کی پارٹی اللہ اکبر تحریک کو جنم دے ڈالا ہے۔ جس گائے کو ہندو بنیاذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے والوں پر تشدد حتیٰ کہ قتل و غارت گری کر رہا ہے اسی گائے کے انتخابی نشان پرپاکستانی عوام آئندہ ملک گیر انتخابات میں مہریں لگا کرملک کی تقدیر بدل ڈالنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے ہے۔

پرانے بوڑھے زمین کو دھرتی ماں کہا کرتے تھے اور اسے بیچنے کوماں کو بیچنا سمجھتے تھے مگر سامراجیوں کے پروردہ آجکل کے حکمران یا جو پہلے تھے پاکستان بنتے تک کیچوئوں،سنپولیوںکے روپ میں تھے اور آج وہ مال ہڑپ کرکے سانپ بلکہ اژدھے بن کرپاکستانی خزانوں پر بیٹھے ہی نہیں بلکہ اسے لوٹ فوٹ کر بیرون ملک پلازے ،فلیٹس ،فیکٹریاںاور صنعتیں بنا رہے ہیں۔کوئی پو چھے تو کیسے اور کیوں کر۔کہ آوے کا آوا ہی بگڑاہو ا ہے ۔نیب دسواں حصہ لے کر ملزمان کو چھوڑ رہی ہے کھایا کروڑ دیا دس لاکھ بقیہ 90لاکھ ہضم ہوا۔یا مولا!اندھیر نگری چوپٹ راج اورکیا ہوتا ہے۔نجکاری کالفظ دھوکا دہی کے لیے استعمال کر رہے ہیںمگر یہ فروختگی ہے۔

دھرتی ماں کو ہی نہیں بلکہ اس پر کھڑی عمارتیں اور مشینری تک اونے پونے داموں بک رہی ہے کہ سود خور مافیائوںآئی ایم ایف ،ورلڈ بنک کا حکم ہے کہ جو قرضہ دیتے وقت53 فیصد سے زائداعلان کردہ رقوم سے کاٹ لیتے ہیں۔آسمان کیوں نہیں گرتا زمین کیوں نہیں پھٹتی قیامت کیوں نہیں آجاتی اے مولا جب تیری پروردہ غریب مخلوق کی جائداداونے پونے داموں سامراجی گماشتے خرید لیتے ہیں آخر دو صدی قبل ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی یہی کارنامہ انجام دیاتھا نہ؟اب بھی پھر انہی کے ٹوڈیوں کی اولادیں مقتدر ہوکر وہی عمل نہ کریں تو کیا کریں کہ ایسے تمام سودوں میں اربوں روپے مقتدر افراد کے بیرون ممالک اکائونٹس میں بھی تو جمع ہو جاتے ہیں سیاست بھی نجکاری کی طرح آجکل بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ھینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چو کھا آوے کے مصداق معمولی خرچ سے اربوں کھربوں مل جائیں تو اس سے بہتر کاروبار اور کیا ہو سکتا ہے؟مقتدر ڈکیتو!ڈرو اس وقت سے کہ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا۔

جب لاد چلے گا بنجارا ،کی طرح دفن کے وقت پہنائے گئے کفن کی جیبیں نہیں ہوتیں ۔جس میں مال تمہارے ساتھ دفن ہو سکے آخر محکمہ فون بیچا کیا ملاعمارتیں بھوت بنگلہ بنی ہوئی ہیں اور نئے مالکان اربوں کما کرباہر بھجوارہے ہیںحکمرانو!عقل کے ناخن لوکسی نئے ادارے کی نجکاری یعنی فروختگی مت کرنا اور واپڈا کو بیچنے کا تصور بھی کیا تو پھر ملک میں اندھیروں کا راج ہی ہو جائے گا کہ ماں کو بیچو گے تو اس کی بد دعائیں دہائیاں دیتی ہوئیںآ سمانوں سے ٹکرا جائیں گی عرش خداوندی ہلاتو تم قعر مذلت میںجا گرو گے نہ رہے گا اقتداراور نہ ہی رہے گی تمہاری اکڑی مغرور گردنیں کہ جرم عظیم کے نتیجہ میں کسی چوک پرقانون تمہیں ضرور الٹا لٹکاڈالے گا۔

غیرت ایمانی کا تقاضا تو یہی ہے کہ خود اقتدار سے الگ ہو کر آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کا فوراً اعلان کرو غیر جانب دار حکومت بن جائے جس میں پانچ ایکڑ سے زائد زمین رکھنے والوںاور10 لاکھ سے زائد جمع پونجی رکھنے والوں پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہو۔ووٹوں کی خریدو فروخت نہ ہوسکے امیدواروں کا پبلسٹی میٹریل،منشور،جلسے جلوس ھکومت خود کروائے تاکہ جاگیرداری ،سرمایہ داری اور نام نہاد کرپٹ جمہوریت دفن ہو جائے ۔متناسب نمائندگی کے تحت اسلامی جمہوریت کے ذریعے باکردارقابل اہل افرادمنتخب ہو کرکاروبار مملکت سنبھال سکیں اور ملک مزید جھکنے اور اس کے اثاثے مزید بکنے سے بچ جائیں اور بیرونی ممالک کی تابعداری سے نجات پاکرصحیح معنوں میں فلاحی مملکت بن سکے۔

Dr.Ihsan Bari

Dr.Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری