counter easy hit

آزاد مملکت کے پابند اصول

حیات انسانی کی تکمیل کے لئے اشیا کی ہم آہنگی لازمی شر ط ہو تی ہے۔ اگر چیزوں کے درمیان توازن نہیں ہوگا تو نامکمل ہو نے سے قبل اس کا احساس ہی جان لیوا ہوگا۔ ادب کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ درپیش ہے۔ اگر ادب کے اجزائے ترکیبی میں کسی شئےکی مقدار زیادہ ہو تو ادب شاید نعرہ بن کر رہ جائے۔ حالیہ ادوار میں بھی ادب اور نعرے کے درمیان بہت ہی مبہم سی لکیر دکھائی دیتی ہے۔

نجانے کس نے کہا تھا کہ اچھا ادب نظریاتی وابستگی سے بالاتر ہوتا ہے، جملہ معترضہ درمیان میں نہ آتا تو بات کہاں سے کہاں نکل جاتی۔

کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور بھارت کی چیرہ دستیوں سے کون واقف نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان چیرہ دستیوں کو ادب کے قالب میں ڈھال کر بیان کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

کشمیر کی تزویراتی گہرائی کا سبق پڑھے تو مدت ہوئی، اب بھارت کی تازہ ہندوتوا کی لہر کو کشمیر کے حالات سے جو ڑ کر بیان کرنا بہرحال خاصے کا کام تھا، جس کا بیڑا ارون دھتی رائے نے اٹھایا اور اپنی مدت سے انتظار کی جانے والی تخلیق کو تحقیق سے جوڑتے ہوئے ایک ایسی خیالی مملکت کا خاکہ کھنچنے کی کوشش کی، جو افلاطو ن کی مملکت سے مختلف ہے مگر اس کا تانا بانا خیالوں میں کہیں نہ کہیں انتشار پسند حکومت سے ملتا ہے کیونکہ، مودی کا ہندوستان بہر حال گاندھی اور واجپائی کے ہندوستان سے جدا ہے۔

رائے کے ناول میں جہاں گجرات کاللا ہندوستان کا حکمران بنتا ہے، وہیں ایک انوکھا قبرستان اور گیسٹ ہاؤس بھی فکشن کے روایتی قاری کے لئےاچھنبے کا باعث ہے۔ تیسری جنس کا معاشرہ شاید خدا بھی تخلیق نہیں کر پایا، اسی لئے ارون دھتی رائے نے انکا اپنا گھر اور ایک نظام بنانے کی کوشش کی ہے کیونکہ شاید بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے باسی ایک تیسرے اور مسترد کردہ سماج کے طو ر پر جانے جاتے ہیں، جس کی وجہ انکی پاکستان کی طرف بڑھتی وابستگی یا آزادی کی طلب ہے۔ ریاستی حراستی مرکز کا اس سے بہتر نقشہ کھینچنا شاید ممکن نہ ہو جو شیراز سینما میں بنے مرکز کا سماں اس ناول میں نظر آتا ہے، گویا کشمیر کا لہو رنگ دریا فکشن کے بیانیے کے ساتھ ٹھاٹیں مارتا اپنی پوری آ ب و تاب دکھلا رہا ہے۔

ٹالسٹائی نے لکھا تھا کہ ہر خوشیوں بھرے گھر کی کہانی یکساں ہوتی ہے، مگر دکھ ہر گھر کے مختلف ہوتے ہیں۔ کشمیر میں موجود تقریباً ہر گھر کا دکھ الگ نظر آتا ہے کیونکہ کہیں سے کوئی غا ئب ہے تو کہیں کوئی زیادتی کا نشانہ بنا ہے۔ یہ اساطیری روایت بالکل درست نظر آتی ہے کہ جب شہر میں قتل عام ہو رہا تھا تو لوگ اپنی جان بچانے کے لئے جلاد بن گئے تھے۔ کشمیر کے لوگ بھی قابض فوجیوں سے دوستی جان بچانے کے لئے نہیں کرتے، بلکہ انھیں شبہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ کہیں اگلا نمبر انکا نہ ہو، جس کی وجہ سے ہم وطنوں کی مخالفت کا بھی سامنا رہتا ہے۔

بے پناہ شا دما نی کی مملکت میں کرداروں کا حیرت کدہ بھی ہے اور مغربی ادب کی ایک پراسرار حویلی بھی، جس میں موجود بھول بھلیاں قاری کو لمحہ بہ لمحہ جکڑے رکھتی ہیں۔ اگر فکشن نظریات کی ترسیل کا ذریعہ ہوتا تو دنیا بھر میں کسی بھی مخصوص نظریے کا پھیلاؤ بہت آسا نی سے ممکن ہوتا، کیونکہ دنیا میں جہاں جہاں ظلم و ستم ہوگا، وہاں کشمیر اور اس سے جڑے مظالم لوگو ں کو محض اس ناول کی وجہ سے یاد آ ئیں گے کہ اس ناول نے الفا ط کے معنی تک بد ل ڈالے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ نے ایک انٹرویو میں جہاں یہ کہہ کر بہت سے خوشہ چینوں کو ایک نیا موقع فراہم کیا کہ اس ناول کو کسی پاکستانی ادیب کو لکھنا چاہیئے تھا، وہیں یہ بحث بھی چھیڑ دی کہ کیا اچھا ادب نظریاتی وابستگی سے بالاتر ہوتا ہے، جس کا فیصلہ ہونا تو ہنوز باقی ہے