counter easy hit

بدحال عوام اور لٹیرے حکمران

Poor Peoples

Poor Peoples

تحریر: مسز جمشید خاکوانی
آج سے دس پندرہ سال پہلے لوگ پوچھا کرتے تھے کہ پانچ سات ہزار ماہانہ کمانے والے کس طرح گذارا کرتے ہوں گے لیکن آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہوار کمانے والے چار پانچ افراد پر مشتمل گھرانے کے لوگ غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ رشوت اب ایک لعنت نہیں بلکہ ضرورت بنتی جا رہی ہے حالت یہ ہو چکی ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری اس وقت تک گھر کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا جب تک اپنی آمدنی میں کم از کم پچاس فیصد مزید اضافہ نہ کر لے۔

گھر کے اخراجات کی جب بات کی جاتی ہے تو لوگ اسے کھانے پینے تک ہی محدود کرتے ہیں لیکن اس فہرست میں مکان کا کرایہ، سردیوں اور گرمیوں میں جسم ڈھانپنے کیلئے کپڑے، پائوں کیلئے جوتا، بچوں کے تعلیمی اداروں کی فیسیں، نصابی کتابیں اور کاپیاں اور تدریسی ضروریات کے دوسرے سامان، ڈاکٹروں کی فیسیں اور اسپتالوں کے اخراجات میں ہونے والے بے تحاشا اضافہ کو مد نظر رکھنا ہو گا اب سوال یہ ہے کہ کتنے پاکستانی ہیں جو اس عرصے میں اپنی آمدنی کو دگنا کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟۔ منشیات فروشی، اسمگلنگ اور دوسرے ناجائز ذرائع آمدنی کی بات الگ ہے جائز ذرائع سے تو موجودہ حالات میں شائد کسی کیلئے بھی اپنی آمدنی میں یہ اضافہ ممکن نہیں اب جو لوگ پہلے ہی اپنی ضروریات سے زیادہ کما رہے ہیں ان کیلئے تو معیار زندگی بر قرا رکھنا ممکن ہے لیکن وہ ملازمت پیشہ افراد جن کو رشوت کا موقع میسر نہیں ، شہروں اور بڑے قصبوں میں سڑکوں کے کنارے کام کی تلاش میں بیٹھے ہوئے لاکھوں دیہاڑی دار مزدور، فیکٹریوں اور کارخانوں میں ماہانہ اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے ورکر کس حال میں ہیں اس کا ایک ہلکا سا اندازہ کرنا ہو تو ان کے چہروں کو غور سے دیکھنے کی کوشش کریں ۔۔۔۔ پانی بجلی گیس کے بلوں میں ان کی ماہانہ تنخواہ ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔

سرکاری ہسپتالوں میں دھکے اور نا قص ادویات ان کی بیماریوں کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔اب تو یہ ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ ان بے چاروں سے ہر الیکشن میں سوائے ووٹ لینے کے ان کا کوئی تشخص ہی نہیں ہے۔

آج عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے والی مرکزی اور صوبائی حکومتیںانہیں زندگی سے ہی نجات دلانے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں لیکن اس سب کے با وجود انہیں عوام کے کسی طبقے کی طرف سے کسی موثر مزاحمت کا سامنا نہیں ہاں عمران خان نے کوششیں ضرور کیں لیکن اندر خانے ملے ہوئے حکومت اور نام نہاد اپوزیشن نے بر وقت ایکدوسرے کا ہاتھ تھام لیاآج لوگ بھوک سے بیماری سے بچوں کے تعلیمی اخراجات کی وجہ سے مایوس ہو کر ہر روز خود کشیاں کر رہے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی سوائے اپنے سیا سی مفا دکے کوئی لانگ مارچ نہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو مسائل کی چکی میں پستے پستے وہ ایسے بے حال اور نیم جاں ہو چکے ہیں کہ ان میں سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں اپنی عزتوں کا سودا کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور جس قوم کے فرد اپنی عزتوں کا سودا کرنے لگ جائیں اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں رہتا وہ ایک دن ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مہنگائی اس تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے کیا یہ کوئی فطری عمل ہے یا عالمی صورت حال کا نتیجہ ہے یا ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیاں، نا اہلیاں اور شاہ خرچیاں اس کا اصل سبب ہیں؟۔ حکمران مہنگائی کے اس عفریت کا جو بھی جواز دیں اس کا اصل سبب ہماری حکومتوں کی غلط پالیسیاں ہی ہیں ایوب خان کا دور حکومت بے شک معاشی استحکام کا دور تھا لیکن وہ چار آنے کے عظیم جرم کی نذر ہو کر رہ گیا۔ ملک میں طوفان کی طرح بڑھنے والی اس روز افزوں گرانی کا ایک اثر معاشرے پر یہ بھی ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز بڑی حد تک اٹھ چکی ہے اور معاشرے میں ہر طرح کے ناجائز ذرائع آمدنی کو فروغ حاصل ہورہا ہے رشوت ایک فیشن کی صورت میں وبا بنتی جا رہی ہے بلکہ اب تو ہو یہ رہا ہے کہ رشوت خوروں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ اب ان کی شرح بھی بڑھ رہی ہے پہلے رشوت کے نوٹ چھپ کر لیئے جاتے تھے اب گن کر لیئے جارہے ہیں۔

مہنگائی، رشوت اور لاقانونیت کی وجہ سے ڈکیتیوں نے بھی ایک اب باقاعدہ ایک پیشے کی شکل اختیار کر لی ہے اور بے روزگار نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب اس پیشے سے با قاعدہ منسلک ہو کر رہ گئی ہے معاشرے میں تشدد کا ایک بڑا سبب بے روزگاری اور مہنگائی کی بنا پر لاحق ہونے والی معاشی پریشانیاں ہیں پیشہ ور قاتل اب با قاعدہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور دنیا نیوز میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اپنے مخصوص مقاصد کیلئے دہشت گردی کرانے والی طاقتیں بھی اب ان سے یہ کام لے رہی ہیں پہلے کہا جاتا تھا کہ لاہور میں لوگ اپنے گھروں اور دوکانوں میں محفوظ نہیں ہیں لیکن اب یہ عذاب پورے پنجاب میں پھیل چکا ہے ملتان بہاولپور جیسے شہروں میں روزانہ پچاس کے قریب راہزنی کی وارداتیں ہو رہی ہیں او رکوئی انہیں روکنے والا نہیں۔ خاندان کے خاندان لٹ رہے ہیں چاہے وہ گاڑی میں ہوں یا پید ل خو اتین سے ان کے زیور چھیننے کی وارداتیں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں ۔ گھروں کے گیراج اور آبادیوں کی اندرونی سڑکیں تو ایک طرف رہیں اب تو کوئی ملک کی ایک شاہراہ بھی محفوظ نہیں رہی۔

اس تمام ابتری کے نتیجے میں جو ذہنی بے سکونی جنم لیتی ہے بہت سے لوگ اس کا علاج منشیات میں ڈھونڈتے ہیں جس کی بنا پر ہیروئن اور دوسرے نشوں کے عادی افراد کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہو چکی ہے او ر اس میں اضافہ کی شرح بھی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مہنگائی اور اقتصادی بحران کا حل کیا ہو؟۔اس کیلئے ایک ایسی اہل قیادت کی ضرورت ہے جو جرائت مند اور محب وطن ہو جس کے دامن پر بد عنوانی کا ایک بھی داغ نہ ہو جو عوام کو اپنے ساتھ لے کر چلے جو عالمی مالیاتی اداروں کا محتاج ہونے کی بجائے خم ٹھونک کر ان سے کہہ سکے پاکستان آپ کے کسی حکم کا پابند نہیں آپ کو اپنے دیئے گئے قرض کا مطالبہ کرنے کا تو پورا حق ہے لیکن یہ قرض ہم کہاں سے اور کیسے ادا کریں یہ فیصلہ کرنا ہمارا اپنا کام ہے اس معاملے آپ کی ڈکٹیشن کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد عوام اور نجی شعبے کی بھر پور شرکت کے ساتھ اپنی جدو جہد کا آغاز کرے اپنے اقدامات سے پوری قوم میں بیرونی معاشی تسلط سے آزادی کا ایک مجاہدانہ جذبہ پروان چڑھائے اربوں کھربوں کے غیر پیداواری اخراجات کا خاتمہ کرے غیر ضروری بر آمدات بلا تاخیر بند کر دی جائیں اور فنی تعلیم اور ہنر کو ہر نو جوان تک اس کی ضرورت کے مطا بق پہنچایا جائے بد دیانتی اور بد دیانت لوگوں کاایسا کڑا اور سخت بے لاگ احتساب ہو کہ کرپشن کرنا تو دور کی بات ہے لوگ سوچتے ہوئے بھی تھر تھر کانپنے لگیں ….اور حکمران اور حاکم رہنے ، پہننے اور کھانے میں اپنی ذاتی زندگی کو اتنا سادہ بنائیں کہ پوری قوم بڑے شوق سے ایک نئے فیشن کی طرح ان کی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے۔لیکن یہ چیز ہم نے دشمنوں پہ چھوڑ رکھی ہے کہ وہ ہمارے بچوں اور ہماری نوجوان نسل کو جس طرح چاہیں استعمال کریں شائد مسلمانوں کے بچوں کا صرف ایک ہی مصرف رہ گیا ہے جو بہت خوفناک ہے میں پچھلے دنوں ایک رپورٹ دیکھ رہی تھی یہ ترکمانستان کے بارڈر کی ایک تصویر تھی جو پانچ سال سے کم عمر تھے انکے ارد گرد جدید قسم کے خوفناک گنیں رکھی تھیں یہ وہ بچے تھے جن کو انٹرنیشنل ایجنسیز اغوا کرتی ہیں پھر ان کو اپنے بنائے سنی اور شیعہ مدرسوں میں ٹریننگ دی جاتی۔

سنی مدرسے میں شیعہ کے خلاف اور شیعہ مدرسے میں سنیوں کے خلاف جہاد اور قتل کرنا سکھایا جاتا ہے ان مدرسہ نما نرسریوں کو امریکہ ،اسرائیل ،اور انڈیا مل کر چلاتے ہیں اور اس طریقے سے خودکش بمبار تیار کرتے ہیں جب یہ بچے آٹھ دس سال کے ہو جاتے ہیں تو ایک نوجوان نرسری تیار ہو جاتی ہے وہ انتہائی تربیت یافتہ ان کے اشاروں پر چلتے ہیں ان میں جو بچیاں ہوتی ہیں خوبصورت نوجوان بچیوں کو مہنگی ترین گاڑیاں دی جاتی ہیں انکی پرسنالٹی کو نکھارا جاتا ہے وہ نوجوانوں کو پھانستی ہیں اور ان سے جرائم کرائے جاتے ہیں پھر وہ کہیں کے نہیں رہتے یہ ان کو یورپ بھی لے جاتی ہیں اور انسے وارداتیں کرانے کے بعد اس کا سارا ملبہ مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں پہ گرایا جاتا ہے (لال مسجد سے غالباً یہی کام لیا جا رہا ہے )جس کو حکومت بھی بند کرنے سے ڈرتی ہے ویسے اسی قسم کی ایک تنظیم امریکہ نے پاکستان میں لانچ کی ہے جس کا نام ”زی ایکس ” ہے۔

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر: مسز جمشید خاکوانی