counter easy hit

سیاسی ورکربمقابلہ سیاسی کھلاڑی

کسی منظم اور مستحکم سیاسی جماعت میں اس کے ورکر اس سیاسی جماعت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، ان سیاسی ورکروں کی بدولت وہ سیاسی جماعت اپنے آپ کو اور زیادہ مستحکم، طاقتور اور منظم کرکے اقتدار میں آنے کے بعد ریاست کو بہترین بناکر اس ملک کی تقدیر اور اس کی عوام کا مستقبل بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ملک میں ایک عجیب سی کیفیت اور صورتحال درپیش ہے جس کو شاید ہم سمجھنے سے آج تک قاصرہیں۔ کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ضرورت سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا رجسٹرڈ ہونا، چاہے وہ جماعت کروڑوں لوگوں کی آواز ہو یا پھر کسی ایک شخص کی، ایک کمرے کی جماعت ہو؛ اس کو بھی رجسٹر کر کے پاکستان میں ووٹ اور ووٹ کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔

لیکن بات اب اس سے کہیں آگے جا چکی ہے۔ اگر ہم ذرا غور کریں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ان سیاسی جماعتوں سے منسلک لوگوں کو کبھی سیاسی ورکر تو کبھی جیالا، اور کبھی کھلاڑی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میرے خیال کے مطابق ان ناموں نے ہماری سیاست پر ایک بہت گہرا اثر چھوڑا، کیونکہ کہا جاتا ہے کے نام شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ان سیاسی ناموں نے جہاں سیاست میں اپنی جگہ بنائی، وہیں ان جماعتوں کے لاکھوں اور کروڑوں سیاسی فالورز کو ایک عجیب سیاسی شناخت دی، اس سیاسی شناخت نے انفرادیت کو ختم کرکے اجتماعیت پر زور دیا۔

میرے تصورات کے مطابق ایک سیاسی ورکر وہ ہوتا ہے جو دل و جان سے کام کرے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ جس کےلیے کام کر رہا ہے اس کے بارے میں ’’ذمہ دار لوگ‘‘ کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس کھلاڑی کا کام صرف میچ میں اپنی پرفارمنس دکھانا ہے۔ اگر اس دن اس کی پرفارمنس اچھی ہوئی تو اس کی تعریف، اور بری ہوئی تو کہا جائے گا کہ یہ اس کے سیاسی حریفوں کی چال ہے۔

دوسری جانب ایک بڑی تعداد جیالوں کی ہے جو صرف ایسی سیاست اور سوچ پر یقین رکھتے ہیں، جس کا محور صرف اور صرف طاقت کا حصول ہے۔ کیونکہ یہ جیالے اگر کسی سیاسی محاذ پر جنگ لڑ رہے ہوں اور مارے جائیں تو شہید کہلاتے ہیں، بچ جائیں تو غازی اور بھاگ جائیں تو نیازی کہلاتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ عمران خان نیازی میں چاروں طرح کے لوگ موجود ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے آپ کو اپنی ہی سیاسی جماعت کا ورکر تصور کرتا ہے، جبکہ دوسری جانب اپنے آپ کو اپنی ہی جماعت کا جیالا بن کر اپنی کامیابی کا یقین دلاتا ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں کو اب اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان سے پیار کرنے والے، ان کو چاہنے والے، ان کو ووٹ دے کر ایوانوں تک پہنچانے والے نہ تو ورکر ہیں، نہ ہی جیالے اور نہ ہی کھلاڑی۔ یہ سب انسان ہیں جو انسانوں کے سمندر سے سیاستدانوں کو اپنی جان کی بازی لگا کر اس ملک کا نگہبان اور عوام کا سائبان بناتے ہیں۔ مگر یہ لوگ نہ نگہبان بنتے ہیں اور نہ ہی سائبان، بلکہ ان کی جماعت کے ورکروں، جیالوں اور کھلاڑیوں کے نصیب میں صرف پچھتاوا اور اس بات کا انتظار رہتا ہے کے کب پانچ سال پورے ہوں اور کب ہم ایک بریانی کی پلیٹ پر پھر کسی سیاسی جماعت کے ورکر جیالے اور کھلاڑی بن کر اپنا مقصد حاصل کرسکیں۔