counter easy hit

سیاسی بلی، بد ذائقہ کباب اور لایعنی بیانات

Politics

Politics

تحریر: مبشر حسن شاہ
”سیاسی بلی ” یہ دو الفاظ سزا وار ہیں ہم سے زیر نظر کالم لکھوانے کے۔ بعض الفاظ اتنے دلچسپ اور معصوم ہوتے ہیں کہ ان کو پڑھ کر یا سن کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ سیاسی بلی ہمارے ذخیرہ الفاظ میں تازہ ترین اضافہ ہے جو کافی دن سے ہمارے اعصاب پر سوار ہے اور کچھ لکھنے کا مطالبہ کیے جارہا ہے۔ بلی اچھا جانور ہے محاروں میں بلی کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا ہے۔ کبھی سے شیر کی خالہ بتایا گیا تو کبھی نو سو چوہے کھا کر بلی کا حج پر جانا تنقید کی زد میں آیا۔ کھسیانی بلی کے کھمبا نوچنے کو بھی تمسخر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ چوہے ۔بلی کا کھیل کرکٹ کی طرح بدنام ہوا ۔ راستہ کاٹ جانے پر کالی بلی کے لتے لیے گئے ۔ بلی کو بھگو کر بزدلی کے سمبل کو واضح کیا گیا غرض یہ کہ بلی کو کہیں جان کی امان نہیں ملی۔ بلی کو خواب میں چھیچھڑے دیکھنے پر بھی لعنت ملامت کی گئی ۔

اب ذکر ہو جائے سیاسی بلی کا جس کے وجود کا ہمیں تب علم ہوا جب ایک ڈومیسٹیک سیاست دان نے صوبائی اسمبلی کے ممبر کے بارے بیان دیتے ہوئے کہا کہ موصوف اپنی سیاسی بلی تھیلے سے باہر آتے دیکھ کر شور مچا رہے ہیں۔ یہ بیان راقم کے دل میں اتر گیا ۔طنز کا بہترین اور باوقار نمونہ ،شستہ الفاظ، جامع بات و اللہ مزہ آگیا ۔ بہرحال بلی ہمارے اعصاب پر سوار ہو گئی کہ مجھے کالم میں بھی متعارف کرائو۔ بہت سمجھایا کہ ایک بیان پر پورا کالم نہیں لکھا جاسکتا لیکن بلی تھی کہ جان ہی نہیں چھوڑتی تھی ۔خیر اچانک آج اخبار پڑھتے پڑھتے ایک خبر پر نظر پڑی تو حیرت اور خوشی سے دل بلیوں اچھلنے لگا۔ خبر تھی کہ فیصل آباد سے پی ٹی آئی کی خاتون کارکن کی چوری شدہ بلی پنجاب پولیس کے لیے امتحان بن گئی۔ خاتون کا نام امتیاز آصف ہے اور ان کی بلی چوری کر لی گئی جس پر وہ سیخ پا ہیں ۔ پولیس نے ایک عدد بلی گرفتار کر کے ان کو دی لیکن موصوفہ نے کہا کہ یہ میری بلی نہیں کوئی آوارہ بلی ہے لہذا تلاش جاری رکھی جائے۔ مزید براں یہ کہ پولیس نے بلی چوری کرنے کے شبہ میں3ملزمان کو گرفتار بھی کر رکھا ہے۔ یہ خبر پڑھ کر میرأعصاب پر سوار بلی ایک دم شیر کی طرح غرائی اور طنزیہ انداز میں مجھے دیکھا گویا کہہ رہی ہو دیکھا ہماری ویلیو ؟ اس خبر نے مجبور کیا کہ آ ج کا کالم بلہ کے نام ۔

پہلی بلی جو سیاسی تھی اس کا تعلق ن لیگ سے ہے اور جو گمشدہ بلی ہے وہ پی ٹی آئی کی ہے ۔ یعنی سیاسی بلیوں کے چرچے ہو رہے ہیں۔ خیر سے پولیس بھی کمال کرتی ہے یہاں بندہ اغوا ہو جائے تو ملزمان کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھتے اور وہاں بلی کے مبینہ چوروں کو گرفتار کر رکھا ہے۔ایک نامعقول شخص کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس چاہے تو کسی بھی جونور سے اعتراف کروا سکتی ہے کہ وہ بلی ہے اسی طرح گرفتار شدگان جن کی تعداد تین ہے وہ302بلیاں بھی لا کر دینے پر تیار ہوں گے ۔ میڈیا کو چاہیئے کہ وہ بلی کی مالکہ خاتون کا انٹرویو نشر کرے اور اگر گرفتار شدہ ملزمان میں سے کسی ایک سے یا تینوں سے بلی برامد ہو جاتی ہے تو ان کو کڑی سزا دی جائے اور اگر ان عا قبت نا اندیشوں نے فارسی محاورے پر عمل کرتے ہو ئے گربہ کشتن روزِ اول جیسا ناپاک، اور نیچ فعل کیا ہے تو ان کو انسداد ِ دہشتگردی کی خصوصی عدالت سے ٹرائل کرانا ہو گا۔ سارا کام میڈیا کا ہے جیسے چاہے ہینڈل کر لے ۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اور محکمہ انسداد ِ بے رحمی حیوانات کو بھی میدان میں آنا ہو گا ۔

خاتون جو کہ بلی کی ما لکہ ہیں وہ بہت پریشان ہیں ان کی تشفی کے لیے عرض ہے کہ بلی اگر پہلے روز نہ ماری جائے تو پھر نہیں مرتی۔ زندہ ہے بلی زندہ ہے۔اب ذکر ہو جائے ان بد ذائقہ کبابوں کا جن کی غلطی کی وجہ سے 4افراد زخمی ہوئے اور5 گرفتار ہو گئے۔ راولپنڈی کے علاقے چاہ سلطان سے ایک شخص نے مردان کباب ہائوس نامی دکان سے کباب خریدے ۔ جب وہ گھر پہنچا اور اس نے کباب کھانے کے میز پر رکھے تو اس کے بھائی نے کہا کہ کباب بد مزہ ہیں۔ سب لوگ تلملا اٹھے اور کبابوں کو دوبارہ سے شاپر میں مقید کر دیا گیا اس کے بعد دونوں بھائی مذکورہ دکان پر پہنچے اور دکان دار سے کبابوں کے بد مزہ اور بے ذائقہ ہونے کی شکائت کی جس پر دکان دار نے طیش میں آکر کبابوں پر چھری سے حملہ کر دیا اب کیونکہ کباب شاپر میں محفوظ تھے لہذا چھر ی اس شخص کو جالگی جس نے کباب اٹھا رکھے تھے۔ کبابوں کے یوں صاف بچ نکلنے پر دکاندار کے مالک سمیت اس کے دوست بھی غصے سے پاگل ہو گئے اور انہوں نے ڈنڈوں، چاقوئوں اور لاٹھیوں سے حملہ کر کے کباب لیکر واپس آنے والے دونوں بھائیوں کو بری طرح ز خمی کر دیا جس کے بعد وہ کبا ب سے بھرا شاپر زمین پر گرا اور اپنے انجام کو پہنچا لیکن ہمیں سخت اعتراض ہے کبابوں پر کہ ان کے بے زائقہ اور بد مزہ ہونے کی وجہ سے دو گروہ آپس میں متصادم ہوئے ،زخمی ہوئے اور کوئی ہسپتال پہنچا تو بعض کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

اگر وہ اپنا ذائقہ درست رکھتے تو یہ سارا فساد نہ ہوا ہوتا۔ بہرحال ہم کبابوں کی مذمت کرتے ہیں ۔ اب بات ہوجائے ان بیانات کی جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر لیکن وہ سیاسی بلیوں اور بد مزہ کباب کی طرح انسان کو ذہنی اذیت پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ اخبار میں بعض لوگ جن کو پتا تک نہیں کہ امریکہ ہے کس جانب وہ اپنے بیان میں فرما رہے ہوتے ہیں کہ روس کو امریک پر حملہ کر دینا چائیے۔ سیاست کی الف بے سے نا واقف لیکن بذعم ِخود ماہر سیاست ایک شخص نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت 2016 کے آخر تک چلتی نظر نہیں آتی۔ یونین کونسل 000 سے منتخب کونسلر نے اخباری بیان میں کہا کہ لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے۔ حلقہ NA333 سے ایم بی اے صاحب نے کہا کہ ہماری حکومت آنے پر سب کا احتساب ہو گا۔ مشیر برائے خصوصی امور نے کہا ہے کہ مودی کا دورہ پاکستان ایک سازش تھی جس کی کڑیاں کر گل سے ملتی ہیں۔ وقت آنے پر ثبوت فراہم کروں گا۔ (تمام بیان فرضی ہیں اور مثال دینے کی غرض سے لکھے گئے ہیں ) اس قسم کے لایعنی اور بے تکے بیانات دینے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ بندے کا نام تو بہرحا ل نکلتا ہے لیکن اخبار نویسوں سے پوچھا جائے کہ آج کل کے دور میں خبروں کی کوئی کمی ہے جو آپ لو گ ہر روز ایسے15,20بے ڈھنگے اور بے سر و پا بیان لگا دیتے ہیں؟؟؟؟؟

Mubashir Hasan Shah

Mubashir Hasan Shah

تحریر: مبشر حسن شاہ