counter easy hit

محکمہ پولیس زندہ باد

Police live

Police live

انتہائی شریف النفس انسان بھی پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد پولیس والا بن جاتا ہے کسی کے برے سلوک کی بات کرنے کیلئے پولیس والوں کی مثال دی جاتی ہے کہ فلاں نے فلاں کے ساتھ تھانیداروں جیسا سلوک کیا پولیس والے باوردی جوان کو دیکھتے ہی بے ایمانی ،لالچ اور ناانصافی کی علامتیں ذہن میں جنم لینا شروع ہو جاتی ہیں ایم این اے ،ایم پی اے دور کی بات ان کے تعلق والا تھانے چلا جائے تو پولیس والے کہتے ہیں سر آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی فون پر ہی کام بتا دیا ہوتا جبکہ ایک عام آدمی کریکٹر سرٹیفیکیٹ یا شناختی کارڈ کی گمشدگی کی رپٹ درج کرانے چلا جائے تو رپٹ درج نہیں ہوتی مجھ جیسے سادہ طبیعت والے چکر پہ چکر لگاتے ہیں جبکہ تھوڑے سمجھدار لوگ مٹھی گرم کر کے اپنا کام کروا لیتے ہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات ایسے ہیں کہ شرم سے سر جھک جائے پولیس کرپٹ سیاستدانوں کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تو بدلے میں سیاستدان ان کے سیاہ سفید پر انگلی نہیں اٹھاتے انگریز کے ہوتے ہوئے ان کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل درآمد تھا مگر اب حسن عمل یہ ہے کہ بس کسی طرح ان کے آقا خوش ہوجائیں آقاؤں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان کی تعیناتی میں سنگ میل ثابت ہوتے ہیں پولیس جب چندایک جھوٹے سچے لوگوں کو پکڑ کر چوکوں چوراہوں میں منہ کالا کر کے گھماتی ہے تو مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ عوام پر دبدبہ ہو اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پولیس کتنی طاقتور ہے یہی بات ہے کہ شریف آدمی تھانے جانے سے کنی کتراتا ہے حالانکہ اسکا کام بھی جائز ہوتا ہے جب چوکوں اور سڑکوں پر کھڑے اہلکار عوام سے بیس پچاس روپے بھی نہیں چھوڑیں گے تو حالات ایسے ہی ہونگے یہی وجہ ہے کہ تھانہ انصاف کی دہلیز ہوتے ہوئے بھی شریف انسان اس دہلیز کے اندر پاؤں رکھنے سے گھبراتا ہے کئی شہروں میں تھانوں کی عالی شان عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں مگر کمی ہے تو شخصیت کی تعمیر کی ،پولیس کی ابتدائی تربیت کے دوران اچھا انسان اچھا مسلمان اور رزق کی تقسیم مالک کے ذمہ جیسی تربیت فراہم کی جائے پولیس والا دل میں خوف خدا لے کر نکلے گا تو اسکی سوچ بھی اچھی ہوگی مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایوانوں میں بیٹھے سیاستدان محکموں میں اصلاح چاہتے ہی نہیں کیونکہ ایسا ہونے سے انکے لا محدود اختیارات محدود ہونے کا خدشہ ہے تھانوں میں تفتیش میرٹ اور انصاف پر کی جائے بے گناہ کو بے گناہ اور گناہ گار کو گناہ گار لکھا جائے ،اگر کوئی خود اپنے کپڑے پھاڑ کر رونا شروع کر دے اور مظلوم ہونے کا ڈھونگ رچائے تو اس معاملے میں پولیس افسران کی ہمدردیا ں سچ کے ساتھ ہونی چاہئیں ،افسر اور جج کی طاقت قلم ہوتی ہے اگر کوئی فرد کسی افسر کے سامنے سراسر جھوٹ بول رہا ہو اور اس کے اس جھوٹ کو افسر تحمل مزاجی سے سنے اپنے دماغ کا صحیح استعمال کرے ذرائع سے معلومات اکٹھی کرکے ایمانداری اور محنت سے تفتیش کرے اور فیصلہ میرٹ پر کرے ۔افسر اپنی نوکری کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھے جو عزت وردی سے ملی ہے اس کا پاس رکھے جس رزق سے اس کے بیوی بچے پلتے ہیں اس کا عوام پر قرض ہے اور اس قرض کا اتارنا پولیس افسران پر فرض ہے کہ وہ کتنی دیانتداری سے اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہیں،وردی سے ملنے والے اختیارات ریاست اور ملک کے عوام کی امانت ہیں انہیں لوگوں کی بہتری کے لئے استعمال ہونا چاہئے ناانصافی اور اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں تھانے کا ایسا نظام ہونا چاہئے جس میں ٹاؤٹوں کی رکاوٹی دیوار توڑ دی جائے ،ٹاؤٹوں کے تمام رابطہ پل گرا دیئے جائیں ٹاؤٹ مولوی صحافی یا سفید پوش کسی بھی روپ میں ہوں انہیں نکال باہر پھینکنا ہوگا تاکہ کوئی بھی کسی کے دکھو ں سے اپنی دکاندار ی نہ چمکا سکے ، تھانوں میں پولیس افسران کی جانب سے ہونے والی ناانصافیوں اور میرٹ پر تفتیش نہ ہونے پر ضلعی پولیس افسر اپنے اختیارات میں رہتے ہوئے محکمانہ سزائیں دے ،کوشش کی جائے کہ انصاف کے سبھی تقاضے پورے کئے جائیں تھانے میں تفتیشی حقائق اور سچ پر تفتیش کرے اچھا کام کرنے والے کو شاباش دی جائے اور غلط کام پر سزا ہو قانون بھی یہی تقاضا کرتا ہے گاؤں میں روزانہ سو جھگڑے ہوتے ہوں گے پولیس کسی فریق کا ساتھ نہ دے،البتہ قانون توڑنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے ،پولیس کا کام چوروں ڈاکوؤں کو پکڑنا ہے نہ کہ لین دین کے معاملات میں الجھنا ،پولیس کا لین دین کے معاملات میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے عوام الناس کیلئے ضلعی پولیس افسروں کی جانب سے تھانوں میں کھلی کچہریاں لگائی جائیں، کھلی کچہری کا مقصد یہی ہے کہ لوگ تھانوں سے متعلق اپنی شکایات براہ راست ضلعی افسر تک پہنچائیں کھلی کچہری میں دو چار لوگوں کی شکایا ت سن کر اگر ایک پر بھی عمل درآمد ہوجائے تو کھلی کچہری کا مقصد پورا ہو جاتا ہے،معاشرے میں سبھی لوگ ہی معزز ہوتے ہیں خواہ ایم ۔این ۔اے ہو یا ایم پی اے ،صحافی ،کسان ہو یا مزدور سبھی کو اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانا ہوگی ،جب معاشرے میں مولوی امام قاضی عزت اور ایماندار ی سے رہنمائی کریں گے جھوٹی سچی کہانیاں سنا کر لوگوں کو ورغلائیں گے نہیں تبھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ،حق اور سچ کا فیصلہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے طاقت ور وہی ہے جو حق پر ہے جو سچا ہے، کمزور سے کمزور شخص بھی جو حق پر ہے دنیا کا طاقت ور ترین انسان ہے ، محکمہ پولیس میں بہتری آجائے تو لوگوں کے دکھوں کا مداوا ہوسکتا ہے ،پولیس کا کام مدعی کو خوش کرنا یا ملزم کو خوش کرنا ہوتا ہے اگر یہی کام خالصتاً خدا کی خوشنودی اور مالک کائنات کو خوش کرنے کے لئے کیا جائے تو محکمہ پولیس زندہ باد کے نعرے لگ جائیں۔