counter easy hit

امریکہ ہمارا اتحادی بھی تھا اور ہم پر حملے بھی کرتا تھا یہ تھی اصل شرم کی بات ، شرم کہتے کسے ہیں؟ وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں آکر اپوزیشن کو سمجھا دیا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) امریکہ ہمارا اتحادی بھی تھا اور ہم پر حملے بھی کرتا تھا یہ تھی اصل شرم کی بات ، شرم کہتے کسے ہیں؟ وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں آکر اپوزیشن کو سمجھا دیا وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ایک واقعہ ہواامریکن نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں آکر شہید کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اتحادی امریکا پاکستان میں آخر اسامہ کو مارتا بھی ہے اور ہم پرتنقید بھی کرتا ہے، دوسری شرمندگی پاکستان میں ڈرون حملے تھے، یہ پاکستان کی تاریخ میں شرمساری کے 2

یہ ویڈیو ان دوستوں کی نذر جو کہتے ہیں فوج پیسا کھا گئی بجٹ سے صرف فوج کا فائدہ ہوتا ہے میں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف ٹرا سفیوژن گیا جہاں ایک مریض کیلیے خون کا عطیہ جمع کرنے والوں کے ساتھ کچھ دیر تبادلہ خیال کا موقع ملتا ہے۔ جو کہ انسانیت کو بچانے کے لیے تشریف لائے۔ان کا یہ امر سب سے بڑی نیکی ہے۔ مریض کون ہے میں نہیں جانتا مگر وہاں بے شمار لوگ تھے جو فی سبیل اللہ لوگوں کیلیے خون کا عطیہ دینے آئے ۔مجھے آج کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان آرمی وہ واحد ادارہ ہے چاہے اس پر سترفیصد بجٹ لگے یا اسی فیصد وہ سب حلال کیا جارہا ہے۔ اس قدر انسانیت اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ساتھ پروفیشنلزم ملاحظہ فرمائیں کہ ہر عطیہ کرنے والے کو آرمڈ فورسز کی طرف سے تعریفی سرٹیفکیٹ اور خوراک کے علاوہ نقد رقم بطور اعزازیہ بھی دی جارہی ہے جو کہ مریضوں یا خاندان کی طرف سے نہیں بلکہ آرمڈ فورسز کی طرف سے ہے یہ پیسے جو ہم نے عطیہ خون کے وقت حاصل کیے ہیں ہماری زندگی کی بہترین کرنسی ہیں اور میں یہ تازندگی سنبھال کر رکھوں گا۔ میں سمجھتا ہوں یہ کرنسی نہیں نشان حیدر ہے آرمڈ فورسز کی طرف سے ایسی سروسز ہمیں بغیر مانگے مل رہی ہیں اور جن سیاسی جونکوں کو ہم ووٹ دیتے ہیں ذرا ان کو ملاحظہ کریں کہ ہمارے ٹیکسوں ، ہمارے ووٹوں کے محتاج ہیں پھر بھی غریب سے ہاتھ ملانے سے عاجز ہی ۔ہماری بنیادی ضروریات آٹا اور چینی پر بھی اپنی تصویر ایسے لگا کر سستے بازاروں میں بکواتے ہیں جیسے ان کے باپ کی کمائی سے یہ آٹا اور چینی آئے ہوں۔ جیسے یہ پل ان کے خاندان نے بنوائے ہوں۔ آج یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ پاکستان آرمی بیسٹ ہے چاہے میڈیکل کا شعبہ ہو، انجینئرنگ ہو، یا پھر بارڈر اور انفارمیشن ہو ہر سطح پر صرف آرمی ہی کام کر رہی ہے ۔ بھل صفائی بھی آرمی سے کرانی ہے، پولیو مہم، مردم شماری بھی آرمی کرے، سیکورٹی کانوائے بھی آرمی فراہم کرے، الیکشن آرمی کروائے اور یہ یاجوج ماجوج اس کے بعد آکر چوڑے ہو کر سیٹوں پر بیٹھ جائیں۔ جیسے الو دن کے وقت بیٹھتے ہیں۔ اس کے بعد یہ سیاسی بونے تقریروں میں فرماتے ہیں ہم انہیں بیرکوں میں بند کریں گے۔ جاہلو پہلے ان سے تھوڑا کام کرنے کا طریقہ سیکھ لو پہلے وہ فارمولا سیکھ لو ان سے جس کی وجہ سے لوگ ان کو ہر دفعہ تم سے تنگ آکر بلاتے ہیںwww.yesurdu.com

Publiée par Pakistani Journalists Beyond the Borders sur Lundi 15 juin 2020

واقعات ہوئے، لیکن آج ہم کسی کی جنگ نہیں لڑ رہے۔انہوں نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کی صورتحال بہت مختلف تھی۔ سماجی فاصلے کی مثال دی جاتی ہے، وہاں ویسے ہی سماجی فاصلہ ہے، لیکن پاکستان میں کچی آبادیاں، چھابڑی والے ہیں، ہم باقی ممالک سے مختلف ہیں۔ ہم نے ایک طرف لوگوں کو کورونا سے بچانا ہے اور دوسری طرف غربت سے بچانا ہے، جس طرح کا لاک ڈاؤن مودی نے کیا اس طرح کے لاک ڈاؤن کیلئے ہمارے اوپربڑا پریشر تھاہر ملک نے اپنی اسٹریٹجی بنائی ہوئی تھی۔ کسی ملک کو اندازہ نہیں تھا، میں کہنا چاہتا ہوں بار بار کہا جاتاہے کہ کنفیوژن تھی، لیکن اگر کسی حکومت میں کنفیوژن نہیں تھی، وہ ہماری حکومت تھی۔میں 13مارچ کو جو کہا وہی آج ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ اگر سنگاپور کی آبادی ہے، 50فی کس آمدنی ہے، تو کرفیو لگا دیں، لیکن میں یہ بھی کہا ہمارے ملک کی جو صورتحال ہے، اس میں غریب طبقات پر کیا بنے گا، میرے بیانات دیکھ لیں کہیں تضاد نہیں، کہیں کنفیوژن نہیں ہے۔میں اپنی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔پہلے ہمارے کوئی ڈیٹاتک نہیں تھا۔ ہندوستان میں 34فیصد لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، اتنا سخت لاک ڈاؤن لگایا ہے، ویسا ہی لاک ڈاؤن ہمیں کہا جا رہا تھا کہ لگائیں۔ آج ہندوستان اور ہمارا ریٹ ریٹ دیکھیں۔ آج ساری دنیا کہہ رہی ہے، کہ کورونا کا نقصان زیادہ ہے، نیویارک کو دیکھ لیں، وہاں 23ریاستوں میں کورونا بڑھ رہا ہے لیکن لاک ڈاؤن بھی کھول رہے ہیں۔دنیا کا امیرترین ملک بھی اپنی معیشت کو بند نہیں کررہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا ہم پر بڑا کرم ہے، ہم ابھی تک اس میں نکل گئے ہیں، اگلا مرحلہ مشکل مرحلہ ہے، عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ایس اوپیز پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے، لوگوں کو روزگار دینا بہت ضروری ہے، اسی لیے فیکٹریاں کھولی گئیں ، کاربار کھولے گئے۔ ہمیں اپنے طور پر لوگوں کو بتانا ہوگا کہ بلڈ پریشر، ذیابیطس کے مریضوں کو اور بزرگوں کو کیسے اس بیماری سے بچانا ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا سے جن چارہزار اموات ہوچکی ہیں، ان لوگوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ اگر ہم نے اگلے مرحلے میں احتیاط کی تو ہمارے پاس اتنی سہولتیں ہیں کہ ہم دباؤ برداشت کرلیں گے، لیکن اگر بے احتیاطی کی تو پھر بڑا مشکل ہوجائے گا۔اگر ہم نے ایک مہینہ احتیاط سے گزار لیا تو ہم برے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم کورونا کے پیچھے چھپ رہے ہیں، میں بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی معیشت کو12ٹریلین ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔انگلینڈ کی 20فیصد معیشت نیچے چلی گئی ہے۔جتنی دیر لاک ڈاؤن کریں گے، معیشت کو بند رکھیں گے تو معیشت نیچے جائے گی، آج کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ کتنی دیر معیشت کی بحالی کو لگے گی۔ ہمیں سوئٹزرلینڈ کی معیشت نہیں ملی تھی، ہمارے پاس 20ارب ڈالر کا خسارہ تھا۔دنیا میں معیشت کو دیکھاجاتا ہے، ڈالر باہر سے آرہے ہیں یا باہر جارہے ہیں۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں بڑا تضاد تھا۔جب ہمیں ملا تو روپیہ 104روپے تھا، جب ہماری باری آئی تو روپیہ گرگیا، جس سے مہنگائی ہوئی۔ پھر ہم نے اقدامات سے روپے کو مستحکم کیا۔ڈالر مہنگا ہونے سے تیل مہنگا ہوا۔2013ء میں 16ہزار ارب کا قرضہ تھا۔ جب ہماری باری آئی تو 30 ہزار ارب تک پہنچ گئی، پہلے سال جو ٹیکس اکٹھا کیا اس میں آدھا ماضی کے قرضوں کی قسطیں دیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 20 سے کم ہوکر 10ارب رہ گئے۔پھر ہم دنیا کے پاس اور دوست ممالک کے پاس پیسے اکٹھے کرنے کیلئے گئے۔میں 30 سالوں سے پیسے اکٹھے کررہا ہوں، مجھے کبھی شرم نہیں آئی جب میں شوکت خانم،یونیورسٹیز،سیلاب، زلزلہ زدگان اور اپنے لوگوں کیلئے پاکستانیوں سے پیسے اکٹھے کرتا ہوں۔ لیکن مجھے شرم آئی جب دوسرے ملکوں سے اپنے لوگوں کیلئے پیسے مانگے۔آپ کا جتنا مرضی وہ خیرخواہ ہو، دوست ہو، لیکن جب ہاتھ پھیلاتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں ایک لک آتی ہے، یہ میرے لیے نہیں ملک کیلئے شرم کی بات تھی، ہم پہلے تین مہینے تو کبھی ایک کبھی دوسرے ملک کے پاس پیسے مانگنے جا رہے تھے۔یہ سارا ہمارا لیڈرشپ کی وجہ سے تھا۔ ملک کا وزیراعظم ایک باپ کی طرح ہوتا ہے، لیکن اگر بچے بھوکے ہوں، علاج نہ کروا سکوں ، تو کیا میں بادشا ہ کی طرح رہوں اور میرے بچے بھوکے ہوں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website