counter easy hit

سول ملٹری روابط کو متنازعہ ثابت کرنے سے گریز کیجئے!

7جنوری 2017ء کو سپیشل ملٹری کورٹس کی وہ دو سالہ مدت ختم ہو گئی جو 7جنوری 2015ء کو آئین میں ترمیم کرکے دی گئی تھی۔جونہی یہ مدت ختم ہوئی اور ملٹری کورٹس کے خاتمے کا اعلان ہوا،ای میڈیا نے اس خبر کو جس طمطراق سے شائع اور نشر کیا اور جو شہ سرخیاں اور سرخیاں پرنٹ میڈیا کی زینت بنائی گئیں ان کو پڑھ کر یہ گمان گزرا جیسے ایک بڑا بوجھ تھا جو قوم کے سر سے اتر گیا، ایک غیر جمہوری اقدام تھا جس کا خاتمہ بالخیر ہو گیا اور ایک بے جواز فیصلہ تھا جو انجام کوپہنچا اور جسے قانون سازوں کونہ چاہتے ہوئے بھی طوعاً و کرہاً قبول کرنا پڑا تھا۔ پنجاب کے وزیر قانون فوراً میڈیا پر نمودار ہوئے اور بیان داغا کہ ملٹری کورٹس کی کارکردگی ویسی تسلی بخش نہ تھی جیسی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن پھر اسی شام وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب کا بیان آیا کہ حکومت، ملٹری کورٹس کے قیام میں دو سال کی توسیع کرنے کا سوچ رہی ہے اور اس سلسلے میں دوسری سیاسی جماعتوں اور جمہوری اداروں (سینیٹ)سے بھی مشورہ کیا جائے گا۔جب بی بی مریم کی توجہ پنجاب کے وزیرقانون کے بیان کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے کہاکہ رانا صاحب کو اصل حقائق کا علم نہیں۔ اس کے بعد سینیٹ کے اجلاس میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا اور تمام پارلیمانی جماعتوں نے حکومت کے اس نئے اقدام میں اپنے اوزان شامل نہ کرنے کا عندیہ دیا۔ عام حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ اس مسئلے کو یہیں ختم ہوجانا چاہیے تھا۔آج بھی حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں وہ اکثریت موجود ہے جس کی بناء پر وہ اپنے ارادے کو قانونی اور آئینی شکل دے سکتی ہے۔ ماضی میں کئی کیس اسی آئینی قاعدے کے تحت بھگتائے اور نمٹائے گئے۔

لیکن افسوس کہ یہ سوال یہاں ختم نہ ہوا۔ آج بھی بعض میڈیا ہاؤس اس سوال کو لے کر ٹاک شو منعقد کر رہے ہیں۔ اگلے روز آرمی چیف نے کھاریاں گیریژن کا دورہ کیا جس میں ینگ آفیسرز نے اپنے چیف سے دو سوال پوچھے۔ اول یہ کہ پنجاب کے وزیر قانون کا یہ کہنا کہ ملٹری کورٹس کی کارکردگی تسلی بخش نہ تھی، اس کا موقع اور جواز کیا تھا؟۔۔۔ اور دوسرے ڈان لیکس کے کیس کا کیا بنا؟۔۔۔ ان سوالوں کا جواب جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ دیا کہ فوج کے امیج کی ہر حال میں حفاظت کی جائے گی اور ان دونوں معاملات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔۔۔ بات اس پر بھی ختم ہو سکتی تھی لیکن ہمارے بعض میڈیا ہاؤسز کو ان جوابوں سے بھی کوئی تسلی نہ ہوئی۔ ان ہاؤسز کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ سول ملٹری روابط کی خلیج پُر کرنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی جائے۔ یہ ایک قسم کا ملک دشمنی کا اقدام ہے۔ نجانے ہم آئے روز ایسے معاملات پر بحث کرکے اس خلیج کو پاٹنے کی بجائے مزید وسیع کرنا کیوں چاہتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کی حیاتِ طبعی کا نصف حصہ مارشل لاؤں کے سائے میں گزرا لیکن اب زمانہ بدل چکا اور ملک کی مسلح افواج کئی بار یہ ثبوت دے چکیں کہ ان کا جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ لیکن ہمارا میڈیا نجانے اس ضد پر کیوں قائم ہے کہ سول ملٹری روابط کی ٹھنڈی دیگ کے نیچے بھانبڑ مچائے رکھنا ضروری ہے۔
ٹیلی ویژن، میڈیا کی دنیا کا وہ ہتھیار ہے جس کی مثال آج تک ماضی کے کسی دور میں بھی دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتی۔ جس کثرت سے لوگ کسی ایک وقت میں کسی ایک مسئلے پر کوئی ایک موقف سن اور دیکھ رہے ہوتے ہیں ماضی کے کسی دور میں بھی اتنے لوگوں کو بیک وقت ایسی آگہی ملنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ آج کا الیکٹرانک میڈیا ایک انقلاب انگیز میڈیا ہے۔ پرنٹ میڈیا کی رسائی اگرچہ مقابلتاً محدود ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا کی رسائی لامحدود اور بیکراں ہے۔ اب تو ٹیکنالوجیکل معاملات بہت آگے جا چکے ہیں۔ ہرشخص کم از کم ایک عدد بین الاقوامی میڈیا نیٹ ورک اپنی جیب میں اٹھائے پھرتا ہے اور اس پر مستزاد سوشل میڈیا کی آمد ہے جس نے وائرل کے پردے میں دنیا بھر کی نبض پر گویا ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں ای میڈیا کے آپریٹروں کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ حد درجہ احتیاط سے کام لیں اوران موضوعات پر نقد و نظر کرنے اور ان پر کہنے سننے سے حتی الامکان گریز کریں جن کا سلسلہ ملک کی سلامتی سے وابستہ ہو۔ مسلح افواج کسی بھی ملک کی سیکیورٹی کا مرکز و محور تصور ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں اس وقت تک کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی جب تک ابلاغِ عامہ کے کار پردازوں کو خود مسلح افواج کے کلچر کا علم نہ ہو۔
ریاضی کی ایک سادہ سی مساوات پر غور کیجئے۔۔۔ پاکستان کی مسلح افواج کی کل تعداد (آرمی،نیوی اور ائر فورس کو ملا کر بھی) دس لاکھ سے زیادہ نہیں بنتی۔ اگر ملک کی آبادی 20کروڑ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آبادی کے 2000 پاکستانیوں میں سے صرف ایک پاکستانی وردی پوش ہے اور باقی 1999ء غیر وردی پوش ہیں یا دوسرے لفظوں میں اگر پاکستان میں ٹی وی ناظرین کا حساب لگانا ہو تو دو ہزار سویلین نا ظرین کے مقابلے میں صرف ایک فوجی ناظر ہوگا جس کو ٹی وی دیکھنے کا موقع میسر آ سکتا ہے۔ اگر آپ سول ملٹری روابط کا کوئی موضوع کسی ٹی وی چینل پر آن کریں گے تو اس کے سامعین و ناظرین کی تعداد کا سول ملٹری تناسب ایک کے مقابلے میں 2ہزار ہو گا۔ جب ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھا کوئی شخص عسکری موضوعات و معاملات پر بات کرے گا تو سننے اور دیکھنے والوں کی غالب اکثریت سویلین ہوگی لہٰذا اس بات کا اہتمام از حد ضروری ہے کہ جو بات کسی عسکری حوالے سے کہی یا لکھی جائے اس میں وثوق اور صداقت کا پہلو بھی ایک کے مقابلے میں 2000 گنا زیادہ باوثوق ہونا چاہیے۔ شائد اسی نسبت تناسب کو دیکھتے ہوئے بعض میڈیا ہاؤس اپنے ٹاک شوز میں عسکری معاملات پر بحث و مباحثے کے دوران فوج کے نمائندوں کی شمولیت کا اہتمام بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ تاہم ان مباحثوں میں سوال و جواب کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ غلط فہمی کا امکان باقی رہتا ہے۔۔۔۔ میں اپنی بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرنا چاہوں گا۔
گزشتہ جمعہ اور ہفتہ کی شب دنیا نیوز کے آٹھ سے نو بجے شب تک کے ایک ٹاک شو Tonight with Moeed Pirzada میں موضوعِ بحث مسئلہ یہ تھا کہ کھاریاں گیریژن میں ینگ آفیسرز نے آرمی چیف سے جو دو سوال پوچھے کیا وہ سویلین حکومت کے لئے باعثِ تشویش نہیں تھے؟ سوال وہی تھے جن کا ذکر میں نے قبل ازیں کیا ہے کہ ملٹری کورٹس کے بارے میں پنجاب کے وزیر قانون کا بیان تسلی بخش نہیں بلکہ قابلِ اعتراض ہے اور دوسرے حکومت نے ڈان لیکس والے کیس کا فیصلہ ابھی تک کیوں نہیں کیا؟معید پیرزادہ نے ایک طرف رانا ثناء اللہ صاحب کو رابطے میں لیا ہوا تھا اور دوسری طرف لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کو بٹھایا ہوا تھا۔ دونوں طرف سے دلائل اور ردِ دلائل کا سلسلہ چل رہا تھا۔ معاً رانا صاحب نے سوال کیا: ’’آرمی ایک منضبط (Disciplined) ادارہ ہے۔ کھاریاں میں جب آرمی چیف، گیریژن آفیسرز کو خطاب کررہے تھے تو اس میں ینگ آفیسرز نے جو یہ دو سوال پوچھے، ان کی خبر میڈیا کو کیسے ہو گئی؟ ایسے خطابات میں تو سیکیورٹی کو حد درجہ ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اُدھر ینگ افسروں نے میرے بیان پر آرمی چیف سے سوال پوچھا اور دوسری طرف ایک گھنٹے کے اندر ندر یہ خبر سارے میڈیا ہاؤسز تک پھیل گئی؟ میری دوسری حیرانی یہ ہے کہ ان اجلاسوں میں میڈیا کا کوئی رکن مدعو نہیں کیا جاتا تو پھر یہ خبر کیسے لیک ہوئی؟ کیا یہ سیکیورٹی کی تنسیح اور خلاف ورزی (Breach) نہیں تھی؟‘‘
رانا ثناء اللہ کے اس سوال پر جنرل امجد شعیب نے کہا کہ فوجی افسروں کے اجلاس دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق ملک کی سلامتی، خارجہ پالیسی، علاقائی تعلقات اور ایسے ہی دوسرے سٹرٹیجک معاملات وغیرہ سے ہوتا ہے۔ ان کی کوئی بھنک اور سُن گُن آج تک باہر نہیں آئی۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں ہمیشہ ایسے مسائل ہی پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے لیکن ان کا ایک حرف بھی آج تک کبھی باہر نہیں آیا۔۔۔ اور دوسرے اجلاس وہ ہوتے ہیں جس میں امورِ عامہ کو ڈسکس کیا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کا دربارِ عام ہوتا ہے اور جو سوال جواب ہوتے ہیں ان کی نوعیت خفیہ (secret) نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ باہر بھی آ سکتے ہیں۔
میں یہ سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ملک کی غالب آبادی اور ٹی وی ناظرین کی اکثریت کو چونکہ فوجی کلچر کا زیادہ علم نہیں اس لئے ان کو جو کچھ بتایا جاتا ہے، وہ اس پر یقین کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جہاں تک کھاریاں میں آرمی چیف کے اس خطاب کا تعلق ہے تو وہ اگرچہ خفیہ نہیں تھا اور اگرچہ میڈیا کا کوئی نمائندہ بھی اس اجلاس میں شریک نہیں تھا لیکن ابلاغِ عامہ کے آج کے طوفانی، انقلابی اور سیلابی دور میں کسی بھی خط و کتابت اور کسی بھی زبانی خطاب کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں اکثر ٹیلی ویژن سکرینوں پر یہ خبر فلیش ہو رہی ہوتی ہے کہ متعلقہ محکمے نے پٹرول کی قیمتوں میں فلاں شرح سے اضافے کی سمری حکومت کو ارسال کر دی ہے۔ اس کا جواب مہینے کی آخری تاریخ میں آئے گا۔ لیکن جب جواب آتا ہے تو بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے یہ سمری منظور نہیں کی اور پٹرول کی قیمتوں کو موجودہ حالت ہی میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔۔۔ اب ظاہر ہے کہ وزارت پٹرولیم نے یہ سمری جو وزیر اعظم کو ارسال کی تھی اس کی سیکیورٹی کلاسی فیکشن پوشیدہ یا خفیہ (Confidential or Secret) وغیرہ ہو گی۔ اگر ایسا ہے تو پھر وہ کون شخص ہے جو ہر ماہ سمری کی تفصیل میڈیا کو بتاتا ہے کہ پٹرول یکم تاریخ سے 6 روپے 93 پیسے مہنگا کیا جا رہا ہے؟ کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پانچ روز پہلے اس خبر کو میڈیا پر نشر کرنے کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ مقصد تھا کہ لوگ 30 یا 31 تاریخ کو اپنی گاڑیوں کی پٹرول ٹینکیاں فل کروا لیں یا پٹرول کی فروخت بڑھ جائے یا پٹرول کی قلت پیدا کر دی جائے یا پھر اس کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا جا سکے؟
اور میڈیا کے یہ ’’اعزازات ‘‘تو آپ نے بارہا دیکھے اور پڑھے ہوں گے کہ فلاں چینل اور فلاں اخبار نے تو ایک ماہ پہلے ہی یہ خبر دے دی تھی کہ ملک میں فلاں فلاں کچھ ہونے جا رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا باقاعدہ اس لیک (leak) کو اپنا اعزاز گردانتا ہے اور صفحہ اول پر یہ خبر ’’بریک‘‘ ہوتی ہے کہ ’’ہم نے تو بہت پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ فلاں واقعہ ہونے والا ہے اور بعض اخبارات تو اپنی گزشتہ شائع شدہ خبر کا عکس بھی چھاپ کر اس ’’اعزازی دوڑ‘‘ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں اگر آرمی کاکوئی ینگ آفیسر کسی اخبار یا ٹی وی چینل کو یہ خبر دے دے کہ آرمی چیف سے فلاں فلاں سوال پوچھے گئے تھے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ وہ ینگ آفیسر اگر چاہے تو اپنے موبائیل سے نہیں بلکہ کسی بھی راہ چلتے سویلین سے موبائل مستعار لے کر اس قسم کی خبر بریک کر سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو پنجاب کے وزیر قانون اس ابلاغی دور میں میڈیا کی رسائی (Reach) سے بے خبر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آرمی کے اجلاس میں پوشیدگی اور راز داری کا عالم وہی ہوگا جو موجودہ ’’میڈیا سونامی‘‘ سے ما قبل دور میں تھا۔۔۔ لیکن کیا وزیر قانون اتنے ہی بھولے بادشاہ ہیں؟ ۔۔۔ اگر نہیں تو کیا ان کا مطلب یہ تھا کہ ینگ آفیسرز کی طرف سے اس خبر کو میڈیا پر دے کر فوج نے ایک معروف سیکیورٹی معمول کی خلاف ورزی کی ہے؟
سطور بالا سے میرا مقصود یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کو پرائم ٹائم شوزمیں ایسے موضوعات کو ’’مرچ مصالحہ‘‘ لگا کر آن ایئر کرنے سے گریز کرنا چاہئے جس سے فوج اور سویلین روابط میں دراڑیں پڑنے کا خدشہ ہو۔ اس کے برعکس میڈیا کو چاہئے کہ وہ ان دراڑوں اور ان خلیجوں کو بند کرنے کی سبیل کرے اور اگر بالفرض ایسا نہ کر سکے تو کم از کم اس پر بحث و مباحثہ کا دروازہ تو چوپٹ نہ کھولے!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website