counter easy hit

پتافی، یہ معافی نہیں ہے کافی!

سندھ اسمبلی کے سرکاری ایم پی اے اور وزیر امداد پتافی کو مسلسل معافی مانگتے ہوئے دیکھا گیا مگر بہادر اور بے باک نصرت سحر عباسی نے کہا کہ اے امداد پتافی یہ معافی نہیں ہے کافی۔ اس سے نہ ہو گی تلافی۔ بے ہودہ گوئی کی جائے۔ عورت مرد کا لحاظ بھی نہ کیا جائے اور بس سوری کہہ دیا جائے۔ زبانی کلامی معافی۔ سنا ہے پنافی نے معافی مانگتے ہوئے اپنے کان بھی پکڑے مگر ان لوگوں کی ذہنیت اور بدنیتی سب لوگ جانتے ہیں۔ بات بڑھ گئی تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پتافی صاحب کی معافی کو ناقابل قبول کرتے ہوئے اسے شو کاز نوٹس دیا ہے۔ انکوائری تو چلے گی مگر عباسی صاحبہ نے مطالبہ کیا ہے کہ پتافی کی رکنیت معطل کی جائے اور اسے پارٹی سے نکالا جائے۔ بختاور بھٹو زرداری نے بھی کہا ہے کہ ہم لوگ عورتوں کی عزت کرنے والے ہیں۔ عورت ہماری پارٹی کی ہو یا کسی دوسری پارٹی کی ہو قابل عزت ہے۔ سندھ میں ہماری حکومت ہے تو لوگوں اور عورتوں کی عزت ہمارا زیادہ فرض ہے۔ بختاور اور آصفہ کی طرف سے اس طرح کے خیالات بہت اچھے ہیں۔ ایک عورت جو ممبر اسمبلی بھی ہے، کے ساتھ اس طرح کی گفتگو قطعاً زیبا نہیں بلکہ ناقابل برداشت ہے۔ بختاور او آصفہ جانتی ہیں کہ ان کی والدہ کی زندگی میں عورت کے لیے کوئی اس طرح کی بدسلوکی نہ کر سکتا تھا۔

امداد پتافی نجانے کس ترنگ میں تھے۔ اسمبلی میں اچھی خاصی زبانی دہشت گردی ہوئی۔ امداد پتافی نے بہت بے شرمی سے اسمبلی کے کھلے فلور پر ایک عورت سے کہا کہ آپ چیمبر میں آئیں تو آپ سے نبٹ لیں گے تو نصرت عباس نے منہ توڑ جواب دیا کہ چیمبر میں اپنی ماں بہن کو بلائو۔
مجھے دکھ ہوا کہ قائم مقام سپیکر اسمبلی شہلا رضا نے اس واقعے کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ انہیں امداد پتافی کو ڈانٹ دینا چاہیے تھا۔ اپنے عورت کے مقام اور سپیکر ہونے کے منصب کا مناسب استعمال کرنا چاہیے تھا۔ میں ذاتی طور پر شہلا رضا کو جانتا ہوں۔ وہ میرے گھر بھی تشریف لا چکی ہیں۔ وہ ایک بہادر اور غیرت مند خاتون ہیں مگر صدارتی چیئر کی طرف سے کوئی اچھا ردعمل سامنے نہ آیا۔ یہ اس لیے کہ امداد پتافی بھی شہلا رضا کی پارٹی سے ہے۔ جبکہ بلاول اور بختاور کی طرف سے اس غیراخلاقی رویے کو بہت بری طرح محسوس کیا گیا ہے۔
’’اخوت‘‘ ایک کامیاب سماجی اور فلاحی تنظیم ہے ۔ نام ہی کسی این جی او کا اتنا اچھا ہو تو پھر کام کیوں اچھا نہ ہو گا ۔ بہادر ، کشادہ دل ، ان تھک اور بہت درد مند بھلے انسان ڈاکٹر امجد ثاقب پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں ایک عالمی بھائی چارہ پھیلا دینا چاہتا ہے۔ میں نے اسے امریکہ میں بھی بڑی بے تابی اور بے خوابی میں مسلسل کام کرتے ہوئے دیکھا ۔ امریکہ کے غریبوں کے لئے کام کرنا ایک بہت بڑی معرکہ آرائی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب ضرورت مند کے ساتھی ہیں ۔
امریکہ میں بھی ڈاکٹر صاحب نے قرض کی اہمیت افادیت اور معنویت کے نئے جہان متعارف کرائے۔ قرض ایک لا علاج مرض ہے ۔ اس میں شفا اور فلاح کے معاملات تلاش کر لینا ایک انہونی بات ہے۔ ڈاکٹر صاحب مسلسل ان ہونی کو ہونی میں بدلنے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں ۔ اب تو لگتا ہے کہ وہ ان ہونی کو تسخیر کر کے رکھ دیں گے ۔ میں نے ایک جملہ کہا تھا وہ ڈاکٹر صاحب کو پسند آیا ۔ میں بھی بڑی ڈھٹائی سے بار بار یہ جملہ لکھتا چلا جاتا ہوں ۔
ڈاکٹر صاحب ! ’’میں نے آپ سے قرض نہیں لیا مگر میں آپ کا مقروض ہوں ۔‘‘ میرے لئے ایک بہت عظیم خاتون نے داخلے کے امتحان کے لئے رقم جمع کرائی تھی ۔ میں نے پھر بھی امتحان نہ دیا اور میرے جس دوست کو پیسے دیے گئے وہ کھا گیا۔ اس نے کہا کہ میری ضرورت تم سے بڑی تھی ۔
ڈاکٹر صاحب نے کام ہزاروں روپے سے آغاز کیا تھا ۔ اب ان کے پاس اربوں روپے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ایسا امتحان دوں جس کا داخلہ اربوں روپے ہو ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب میرا یہ کام کر سکتے ہیں مگر میں یہ کام نہیں کر سکتاکہ میری درخواست کے لئے کوئی آئیڈیا مجھے بتا دے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website