counter easy hit

شفا

Parkinson

Parkinson

تحریر: سید عرفان احمد شاہ
سر اور ہاتھوں کا بلا وجہ کانپنا رعشہ کہلاتا ہے یہ ایک موروثی بیماری ہے مگر کبھی کبھار ویسے بھی ہوتا ہے یہ بیماری پٹھوں کی کمزوری سے ہوتی ہے ۔کا نپناایک اعصابی بیماری جس سے خودبخود ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیںایک اعصابی بیماری کا نام جس سے خودبخود ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیںایک بیماری کا نام جس میں بدن کانپتا ہے ۔ پارکنسنز کو اردو میں عام طور پر رعشے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پارکنسن خطرناک عصبی بیماری ہے جس میں مریض کے جسم پر مستقل رعشہ طاری رہتا ہے، اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں اور انسان زندگی میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ پارکنسن دماغ کے خلیوں کو کمزور کر دیتی ہے جنہیں تندرست حالت میں واپس لانا ممکن نہیں ہوتا۔ پارکنسن سے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کا مکمل علاج تو دریافت نہیں ہو سکا تاہم دوا کے استعمال اور دماغی مشقوں سے اس کی تشخیص ضرور کی جا سکتی ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ انسانوں پر اس تحقیق کے تجربے میں ابھی وقت لگے گا۔ پارکنسن دماغ میں ان اعصابی خلیوں کی کمی کے باعث لاحق ہوتی ہے جو انسانی موڈ اور حرکات کنٹرول کرتے ہیں۔پارکنسن کا علاج ڈھونڈنے کے لیے سائنسدانوں نے پہلے چوہوں کے دماغ میں ڈوپامائین نامی پروٹین پیدا کرنے والے نیورانز کو ختم کیا۔ اس کے بعد سٹم سیلز کو انجکشن کی مدد سے چوہوں کے دماغ میں داخل کیا گیا۔

اس کے بعد پارکنسن سے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کا خاتمہ ہو گیا۔طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس تجربے کے لیے درکار سٹم سیلز 2017 تک تیار ہو سکیں گے جس کے بعد اس بیماری کا علاج آسان ہو جائے گا۔انسانی دماغ ڈوپامائن نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا کرتا ہے، جو پٹھوں اور عضلات کو لچک دار بناتا ہے اور جسمانی حرکات میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تاہم پارکنسنز سے متاثرہ افراد کا دماغ ڈوپامائن پیدا کرنا بند کردیتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کے بازوؤں، ہاتھوں اور ٹانگوں میں رعشہ، حرکت میں سست روی، اعصاب میں اکڑاؤ اور توازن کی خرابی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر مرض شدت اختیار کرجائے تو خوراک نگلنے، چلنے پھرنے اور بات کرنے میں بھی مشکل پیش آسکتی ہے۔

Laboratory tests

Laboratory tests

گوکہ یہ مرض کسی بھی شخص کو متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم ساٹھ برس سے زائد عمر کے افراد عام طور پر اس کا شکار ہوتے ہیں۔عضلاتی انحطاط کے اس مرض کا مکمل علاج ممکن نہیں لیکن درست اور بروقت علاج سے اس کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ادویات ، جسمانی ورزش اور اگر ضرورت ہو تو آپریشن کی مدد سے مریض کی حالت میں استحکام لایا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات دیگر اعصابی مسائل یا سر کی چوٹ کی وجہ سے بھی اس قسم کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ڈاکٹرز ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین تجویز کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایسا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ دستیاب نہیں جو اس مرض کی تشخیص کرسکے۔ اس لیے تفصیلی اعصابی معائنے پر انحصار کیا جاتا ہے۔

اس مرض کے تین اہم نتائج نکلتے ہیں: پہلے عضلات سخت ہوجاتے ہیں پھر کم زور اور آخر میں ان کی حرکت محدود ہوجاتی ہے اور یوں مریض روزمرہ سرگرمیاں انجام نہیں دے پاتا۔ اگر ادویات کے ذریعے ڈوپامائن درست سطح پر آ بھی جائے تو یہ مسائل برقرار رہتے ہیں۔ تاہم فزیوتھراپی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ”اس مرض کی ایک اہم بات یہ ہے کہ نہ تو ایک ہی دوا زندگی بھر استعمال کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ایک قسم کی ایکسرسائز ہمیشہ کروائی جاسکتی ہے۔ پارکنسنز کی ایک عام علامت یہ ہے کہ مریض چلتے چلتے یا بستر سے اٹھتے وقت آگے یا پیچھے کی طرف گرجاتا ہے، جب کہ دوسری اہم علامت ‘فریزنگ گیٹ ‘ ہے یعنی جب وہ بستر سے اٹھتا ہے اور چلنا چاہتا ہے اس کا پہلا قدم نہیں اٹھتا۔ مریض آہستہ چلتا ہے ، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہے۔ تاہم اس کے لیے رک کر مڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔”

Physical fitness

Physical fitness

ایک عام صحت مند شخص کی فزیکل فٹنس کی جانچ درج ذیل عوامل سے کی جاتی ہے:دل اور شریانوں کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت، عضلات کی طاقت، عضلات کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت، جسمانی لچک کی جانچ اور جسمانی ساخت ،تاہم پارکنسنز کے مریضوں کی فزیوتھیراپی میں تین اجزا بہت اہم ہوتے ہیں: عضلات کی کم زوری کو ختم کرنے اور عضلات کی طاقت میں اضافے کی کوشش، رعشے کی وجہ سے عضلات کی لچک میں کمی کا تدارک اور چال کی درستی۔پارکنسنز کے مریضوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حرکت کرنا ہی ان کے مسئلے کا حل ہے۔ اگر وہ یہ سوچ کر اپنی سرگرمیاں محدود کردیں کہ اس طرح ان کی حالت بہتر ہوجائے گی، تو یہ غلط ہے۔ ایک تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی صحت مند فرد بھی تین ہفتے تک بستر پر رہے اور حرکت نہ کرے تو عضلات کی طاقت میں ایک تہائی کمی آجاتی ہے۔ مریض اگر جسمانی سرگرمی میں کمی کردے تو وہ معذوری کی حد کو پہنچ سکتا ہے۔نیٹ ریسرچ سے رعشہ کا علاج میں یہ معلومات ملی۔

رعشہ کا کامیاب علاج اجزائ:ـ کلونجی، مغز بادام 30 گرام ، مغز گھیا 20 گرام ، زیرہ سیاہ 10 گرام ، فلفل دراز 10 گرام ، مرچ سفید 5 گرام ،طریقہ تیاری :ـ تمام ادویہ کو کوٹ پیس کر سفوف بنا لیں۔ خوراک:ـ ایک چمچ صبح نہار منہ اور ایک شام کو ہمراہ دودھ ، کچھ ماہ مستقل استعمال کریں۔ فوائد:ـ رعشہ کی وجہ سے سر کانپتا ہو ، ہاتھ کانپتے ہوں ،جسم کانپتا ہو حتی کہ نوالہ ہاتھ میں نہ پکڑ سکتے ہوں ، زبان چال اور گفتگو میں لڑکھڑاہٹ ہو ، رعشہ چاہے 25 سال پرانا ہو ، کچھ ماہ کے مستقل استعمال سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسکے علاوہ دماغی کمزوری ، نسیان ، پرانے نزلہ و زکام ، ریشہ بلغم اور نظر کی کمزوری کیلئے نہایت مفید و مؤثر ہے۔

تحریر: سید عرفان احمد شاہ