counter easy hit

حساس افراد

Parents

Parents

تحریر:سیہام کامران

ایک ایسا موضوع جو شاید آپ کے لیے کسی اہمیت کا حامل نہ ہو مگر آپ سے منسلک افراد کے لیے آج یا کل یہ آپ کے ضرور کام آئے گا، اپنے لیے نہ سہی اپنی شریک حیات کے لیے، اپنی اولاد کے لیے ، بہن بھائیوں کے لیے، اپنے دوستوں کیلئے حتیٰ کہ اپنے والدین کے لیے بھی ، اپنے اردگرد موجود ہر اُس انسان کے لیے جو آپ کی زندگی میں کسی قدر و قیمت کا حامل ہے ،اگر میں بات کروں حساسیت کی تو یقیناًآپ خود کو حساس ترین فرد محسوس کریں گے ، اور کیوں نہیں؟ معاشرے میں ہونے والی اونچ نیچ آپ پراثر انداز ہوتی ہے ، آپ بھی دوسروں کا دکھ د رد محسوس کرتے ہیں

اپنی غلطیوں پر نادم ہوتے ہیں شرمندگی محسوس کرتے ہو ئے دوسرے شخص سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں ، کہیں بم دھماکہ ہو یا سیلاب سے اموات ہوں آپ بھی افسوس میں برابر کے شریک ہوتے ہیں ، رشتہ داروں اور دوستوں کی باتیں کبھی کبھی آپ کو بھی دکھ دیتی ہیں ، اس کا یہی مطلب ہے کہ آپ ایک احساس کرنے والا دل رکھتے ہیں اور آپ بھی ایک حساس انسان ہیں ۔

یہ تمہید باندھنے کا سبب میری ایک بہت قریبی دوست آمنہ ہے ، آمنہ اور میرا ساتھ تب سے تھا جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، وہ میری سب سے قریبی سہیلی تھی ، اکٹھے کھیلنا ،پڑھنے جانا،سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی کا سفر ہم نے اکٹھے ہی طے کیا ، یہ سمجھ لیں کہ میرا اور آمنہ کا چولی دامن کا ساتھ رہا، میرے بر عکس آمنہ بہت زیادہ حساس تھی، چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر گھنٹوں گھنٹوں روتی رہتی تھی، کبھی اس کی امّی کسی معمولی سی بات پر ڈانٹ دیتیں تو وہ رو رو کر اپنا برا حال کرلیتی اور دل میں دعائیں کرتی کہ اللہ اسے معاف کردے آئیندہ کبھی وہ اپنی ماں کا دل نہیں دکھا ئے گی،

اس کی امی ڈانٹ کر بھول بھی چکی ہوتیں کہ انہوں نے ڈانٹا بھی تھا،بلکہ اکثر یہی ہوتا کہ اس کی امی سب بہن بھائیوں کو اکٹھا ڈانٹتیں باقی سب ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے اور دوبارہ سے کھیل میں مگن ہوجاتے مگر وہ گھنٹوں گھنٹوں چھپ کر روتی رہتی ،کسی نے کچھ کہہ دیا تو دل پر لے لینا اور سوچتے رہنا کبھی کبھی وہ میرے پاس آکر بہت روتی کہ وہ اپنی ماں کا دل دکھا کر آئی ہے ، میرے سمجھا نے کا اس پر کوئی فائدہ نہ ہوتا۔
وقت گزرتا رہایونیورسٹی میں جا کر ہمارے مضامین مختلف ہو گئے، پراجکٹس اور اسائینمنٹس میں اتنی زیادہ مصروفیت تھی کہ اس سے ملاقات کم ہی ہوتی مگر جب بھی ہوتی وہ بہت خاموش ہوتی ، میں ہر مرتبہ اس سے اس کی خاموشی کی وجہ پوچھتی تو بس ہنس کر ٹال جاتی کہ سب اچھا ہے

سب بہترین ہے ، مگر میں اس کی آنکھوں میں چھپے آنسو دیکھ لیتی اور سمجھاتی کہ مت سوچا کرو اتنا ، مَت لوگوں کی اتنی پرواہ کیا کرو ، کلاس میٹس تمہاری مدد نہیں کرتیں تو تم ان سے امید بھی مت لگاؤ، کسی کی باتوں کو بھی سر پر سوار مت کیا کرو ، انہیں تم سے اور تمہارے جذبات سے کوئی غرض نہیں ہے ، خود وہ بہت سی لڑکیوں کو فری میں اسائینمنٹ بنا کر دیتی اور میں اسے روکتی تو کہتی کہ تم مت سمجھایا کرو مجھے ، یہ سب میرے اختیا ر میں نہیں ہے۔

یونیورسٹی ختم ہوتے ہی اس کے والدین نے اس کی شادی طے کردی ، وہ اپنی شادی پر بہت خوش تھی ، اس کی شادی کے بعد میری اس سے زیادہ ملاقات نہ ہوسکی، ایک دو مرتبہ فون پر بات ہوئی تومجھے وہ بہت بجھی بجھی سی لگی ، اور پھر اس کی شادی کے ایک سال بعد اچانک خبر آئی کہ آمنہ کا برین ہیمریج سے انتقال ہوگیا ہے، یہ خبر قیامت سے کم نہیں تھی ، اتنی جوان موت کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ آخر اسے ایسا کیا مسئلہ ہوگیا کہ وہ موت کے منہ میں چلی گئی، اور وہی ہوا جس کا مجھے شک تھا اس کی وفات کے بعد اس کے گھر سے ایک ڈائری ملی جس میں اس نے بارہا ایک ہی بات لکھی تھی کہ وہ کبھی بھی کسی کو خوش نہیں رکھ سکتی جیسے اس کے ماں باپ اسے سمجھ نہیں سکے ایسے ہی اس کا شریک حیات اسے توجہ نہیں دے پا رہا ، اس کی بات تک نہیں سنتا، اور یہ بات اسے بہت مایوس کردیتی ہے

اس نے لکھا کہ وہ مسلسل تنہائی کی دلدل میں جارہی ہے اور وہ کسی کو اپنی حالت سے آگاہ نہیں کرسکتی کیونکہ کسی کے پاس اس کی بات سننے کا بھی ٹائم نہیں ہے ، ا س نے خود کو اس زمین کے لیے بوجھ کہا، اس نے لکھا تھا کہ اس کی حد سے زیا دہ حساسیت اور سوچتے رہنے سے اس کے سر میں مسلسل درد رہنے لگا ہے وہ خود کو مزید اکیلا محسوس کرنے لگی ہے،کوئی نہ اس کا مسئلہ سمجھا ہے نہ سمجھے گا ، شوہر بات بات پر دل آزاری کرتا ہے ، ساری ساری رات دوستوں میں گزارتا ہے ، اس کی ضروریا ت پوری نہیں کرتا ، گھر پر توجہ نہیں دیتا، ایسی ہزاروں دکھ بھری کہانیوں سے اس کی ڈائری بھری پڑی تھی،ایسے دکھ جنہوں نے اس کی جان لے لی تھی۔

آمنہ میری بہترین دوست اور حساس ترین انسان تھی ، ایسی انسان جو اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کا خیا ل کرتی تھی، اسے ہر پل ڈر رہتا کہ اس کی کسی حرکت کی وجہ سے اس کے والدین اس سے خفا نہ ہوجائیں، کہیں کسی دوست کو اس کی کوئی بات بری نہ لگ جائے،حتیٰ کہ ریڑھی اور ٹھیلے والوں سے وہ بلا ضرورت کچھ نہ کچھ خرید لیا کرتی کہ پتہ نہیں ان کا گھر کا خرچ کیسے چل رہا ہوگا، یونیورسٹی گئی تو تب بھی یہی حال رہا بہت لوگ دیکھے پرکھے مگر اپنی فطر ت اور نرم دلی کے ہاتھوں مجبور تھی اور اس رحمدل انسان کا کیا انجا م ہوا ، جوانی میں موت کا شکار ہوگئی اور اب اس کے والدین اور شوہر کے پاس اس پچھتاوے اور آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں بچا تھا کہ کاش کبھی تو انہوں نے اسے پیار سے اس کے بات بات پر رونے کی وجہ پوچھی ہوتی، رونے کے طعنے دینے کی بجائے شفقت سے اس کے مسائل حل کیے ہوتے۔

آمنہ جیسے حساس ترین افراد ہمارے معاشرے میں سینکڑوں ہیں جو ہر روز اپنے آپ کو اس دنیا سے لڑنے کے لیے تیار کرتے ہیں ،کچھ تو وقت سے پہلے چل بستے ہیں اور کچھ زندگی کی گاڑی گھسیٹتے ہیں جہا ں تک گھسیٹ سکتے ہیں ، ایسے حساس ترین افراد پر سب سے پہلے ’ ییلائن این آرون‘ نے ۹۰ کی دھائی میں ریسرچ کی ، اس نے بتایا کہ ایسے افراد عام لوگوں کی نسبت زیادہ گہرائی میں سوچتے ہیں اور اپنے ارد گرد ہونے والی ہر چیز کا خود پر اثر لیتے ہیں اور پھر ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں

ایسے افراد اپنے ہر غلط یا درست فیصلے پر سوچ و بچار کرتے رہتے ہیں ، یہ لوگ کوئی بھی فیصلہ کرنے میں بہت وقت لیتے ہیں ، ایسے افراد زیادہ شور اورروشنی سے گھبراتے ہیں، ٹیم کی شکل میں کام کرنا پسند کرتے ہیں، اس نے مزید لکھا کہ یہ افراد ڈراؤنی فلمیں نہیں دیکھ سکتے ،ڈیپریشن اور سٹریس ان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے جس کا اظہار یہ لوگ ر و کرکرتے ہیں،حساس افراد کو اگر ایک سے زیادہ کام ایک وقت میں دے دیے جائیں تو یہ کنفیوز ہوجاتے ہیں اور اس کام کو ٹھیک سے سر انجام نہیں دے پاتے، انہیں کوئی بھی کام کرنے کے لیے پرُ سکون ماحول درکار ہوتا ہے۔

بہت سے ریسرچرز نے مل کر حساس ترین افراد پر تحقیق کی جس میں سٹونی بروک یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، ا لبرٹ آئین سٹائین کالج آف میڈیسن اور مون ماؤتھ یونیورسٹی سے ریسر چرز شامل ہوئے، انہوں نے بتایا کہ حساس ترین افراد میں ایک مادہ ’ایس پی ایس ‘ (سینسری پروسیسنگ سینسیٹیوٹی ) دوسرے افراد کی نسبت زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مثبت اور منفی باتوں پر زیادہ ردِ عمل دکھاتے ہیں ، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ریسرچرز نے ۱۸ شادی شدہ جوڑے لیے ،ان کے دماغ کا سکین کیا گیا جن میں کچھ میں ’ایس پی ایس‘ زیادہ اور کچھ میں ’ایس پی ایس ‘ مادہ کم تھا ، ان افراد کو تین طرح کی تصاویر دکھائی گئیں

پہلا گروپ ایسی تصاویر کا دکھایا گیا جس میں کچھ مسکراتی ہوئی اور کچھ افسردہ شکلیں تھیں ، جبکہ دوسرے گروپ میں ایسے افراد کی تصاویر تھیں جنہیں وہ نہیں جانتے تھے اور سب سے آخر میں انہیں ان کے شریکِ حیات کی مسکراتی ہوئی تصاویر دکھائی گئیں، ہر مر حلے پر ان کے دماغ کے سکین محفوظ کرلیے گئے، ریسرچرز نے نتیجہ نکالا کہ حساس ترین افراد میں اپنے شریک حیات کی تصاویر دیکھتے ہی خون کا بہاؤ ان افراد کی نسبت بہت حد تک بڑھ گیا جن میں ’ایس پی ایس‘ کا لیول کم تھا اور حساسیت کم تھی ۔ دماغ کا وہ حصّہ جس میں خون کا بہاؤ تیز ہوا تمام افعال اور جذبات کو کنٹرول کرتا ہے او ر اس کے مطابق پلاننگ کرتا ہے

ایک سال بعد اُنہی افراد پر دوبارہ تجربہ کیا گیا تو وہی نتائج سامنے آئے ، جب انہیں ان کے شریک حیات کی تصاویر دکھائی گئیں تو ان افراد کے دماغ کے ان حصوں میں خون کی مقدار بڑھنے لگی اور دماغی کارکردگی بہتر ہونے لگی، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حساس ترین افراد پر ان کے ارد گرد کی ہر چیز اثر انداز ہوتی ہے خواہ وہ ایک مسکراتا ہوا چہرہ ہی کیوں نہ ہو۔

آرون جو ایک کتاب ’ حساس ترین افراد ‘ کے رائیٹر ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں حساس ترین افراد کی خصوصیا ت پر بھرپور روشنی ڈالی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ۲۰ فیصد افراد حساس ترین ہوتے ہیں اور ان میں سے ۶۰ فیصد افراد تخلیقی خصوصیات کے مالک ہوتے ہیں ، ان میں سے بہت سے رائیٹر اورپینٹر ہوتے ہیں کیونکہ یہ دنیا کو اس زاویے سے دیکھتے ہیں جس سے دیگر افراد نہیں دیکھ سکتے، یہ افراد عام لوگوں کی نسبت شرمیلے ہوتے ہیں ، انہیں اپنے لیے بہت سا وقت درکار ہوتا ہے تا کہ یہ بہتر طریقے سے حالات اور لوگوں کا مقابلہ کر سکیں،اپنے اندر اور باہر لوگوں کی باتیں بہت بری طرح ان کو گھیرے رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ جلدی سٹریس اور ٹینشن کا شکار ہوجاتے ہیں ، یہ لوگ خاموشی پسند کرتے ہیں اور زیادہ تر اپنے آپ میں رہتے ہیں۔

کہیں آپ کا شمار بھی آرون کی مطابق ان ۲۰ فیصد حساس ترین افراد میں ہوتا ہے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس تھوڑی سی کوشش سے آپ حالات کو اپنے لیے بہتر بنا سکتے ہیں ، مثال کے طور پر اپنی نیند پوری کریں، ۷ گھنٹے سے کم نیند سر درد اور سٹریس جیسے حا لات پیدا کرسکتی ہے، متوازن غذا کھائیں کیونکہ بھوک سے انتشار پیدا ہوتا ہے، اپنی خوراک میں اومیگا تھری مچھلی کے تیل کے کیپسول ضرور شامل کریں ، حساس افراد شور و غُل سے بہت جلدی گھبرا جاتے ہیں اس لیے پڑھنے کے لیے گھرکے پر سکون کونے کا انتخاب کریں اور اگر ضرورت محسوس کریں تو کانوں میں ہیڈ فونز کا استعمال کریں ، قدرتی ماحول کے زیادہ سے زیادہ قریب رہیں

گھاس پر چہل قدمی کریں،اپنے دماغ اور اعصاب کو زیادہ سے زیادہ سکون دینے کی کوشش کریں،اپنا خیال رکھیں تاکہ آپ اس معاشرے کا احسن طریقے سے مقابلہ کر سکیں، اور ہاں سب سے اہم آپ اپنے اردگرد افراد پر نظر دوڑائیں کہیں آپ کا کوئی قریبی ساتھی حساس ترین فرد تو نہیں ، جسے آپ کی تھوڑی سی توجہ اورپیار کی ضرورت ہو، آپ کی تھوڑی سی مسکراہٹ اسے ٹینشن اور ڈیپریشن یا موت کے منہ سے بچا لے،غور کریں اپنے گھر والوں پر،اپنے دوستوں پر کہیں کوئی خاموشی کی چادر اوڑھے تنہائی کی آگ میں تو نہیں سلُگ رہا،کہیں کوئی آمنہ کی طرح موت کے منہ کی طرف تو نہیں بھاگ رہا، زندگی بہت چھوٹی ہے اسے خود غرضی کی نظر مت کریں۔

Kamran Syham

Kamran Syham

تحریر:سیہام کامران