counter easy hit

پاناما کے جنجال نے قوم کو ذہنی مریض بنا دیا ہے

پاناما اسکینڈل پاکستان کی سیاسی وعدالتی تاریخ کا ایک ایسا عجیب النوع مقدمہ بن چکا ہے جس کی بازگشت کا اعادہ پاکستان کے علاوہ دُنیا کے دیگر دارالحکومتوں میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ ہمارے دیسی میڈیا نے تو گویا پاناما ایشو کو مکھ سماچار کے طور پر تختۂ مشق بنا رکھا ہے۔ ہر روز اخبار کی شہ سرخیاں اور چینلوں کی ہیڈلائنز سپریم کورٹ کی کارروائی، وکیلوں کی جرح، فریقین کی اُوٹ پٹانگ دلیلوں اور ابلاغی بقراطوں کے ہولناک تجزیوں، تبصروں کا نیانیا غازہ دھار کر قارئین وناظرین کے اعصاب پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔

یہ جرعہ جرعہ سنسنی اور پارچہ پارچہ ہیجان مجموعی نفسیاتِ عامہ پر تناؤ اور ضعف کی کاری ضرب لگا رہا ہے۔ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، لمحہ بہ لمحہ ایک ہی خبر، ایک ہی موضوع اور ایک ہی نتیجہ سن سن کر ہر ذی روح نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے علاوہ تین اور متوازی عدالتیں نوع نوع اور بھانت بھانت کے فیصلے شبانہ روز صادر کیے دے رہی ہیں‘ ایک مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں چل رہا ہے، ایک عدالت کے باہر، ایک میڈیا پر اور ایک آڑھے ٹیڑھے عوام میں چل رہا ہے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب کی آراء حتمی ہے۔

عدالت کے باہر بھی بڑے بڑے خودساختہ جج بڑی بڑی آبزرویشنز دیتے نہیں تھکتے‘ ابلاغی پنڈت بھی ہرشام اپنا سودا بیچ کر اٹھتے ہیں اور آنیوالے کل کے لیے عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کے لیے کئی نکات اور اشارے جاری کر جاتے ہیں کہ شاید پاناماکا بنچ ان کی گیان خیز یاوہ گوئی سے ہی کچھ اخذ کر لے۔ سیاسی گماشتوں نے تو سپریم کورٹ کو جیسے گول میز کانفرنس سمجھ لیا ہے اور یوں پلک چوٹی سنوار کر ہر صبح وہاں پدھارتے ہیں جیسے انڈیا پاکستان کی تقسیم کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر درپیش ہے اور ذکی ارکان کا یہ ٹولہ اپنے اپنے ملک کے نقشے تیار کر کے انگریز سامراج کو اپنے اپنے تئیں مطمئن کرنے جاتا ہے۔

حکومتی نمائندوں میں نت نئے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں زیادہ تر مستورات ہیں‘ اس دفاعی بریگیڈ میں تقریباً وہ سب لوگ شامل ہیں جو براہِ راست یا مخصوص نشستوں کے ذریعے قومی اسمبلی کے ممبران ہیں مگر انھیں ہنوز کوئی وزارت ہاتھ نہیں لگی‘ یہی وجہ ہے کہ وہ وزیراعظم کی بڑھ چڑھ کر منشی گیری کا حق ادا کر رہے ہیں‘ ان میں وہ چہیتے بھی پیش پیش ہیں جو اعلیٰ وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اپنی وزارتوں کو مستقل جاری رکھنے کے لیے وزیراعظم کا دفاع کرنے پرمجبور ہیں۔

عدالت عظمیٰ کو چاہیے تھا کہ عالمی سطح کا کیس عدالت سے براہِ راست نشتر کیا جاتا‘ اسی سے ملک کے 20 کروڑ عوام عمران خان، نوازشریف اور جماعتِ اسلامی کے وکلاء کی کارکردگی اور کیس کی اہمیت دیکھ سکتے‘ اس سے تمام پارٹیوں کے رہنماؤں کا سپریم کورٹ کے باہر شوروغوغا ختم ہوتا اور جس طرح تمام پارٹیوں کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف زبان استعمال کرتے ہیں اس سے بھی جان چھوٹ جاتی‘ یہ بھی پتہ چل جاتا کہ کن جماعتوں کے وکلاء کے دلائل متاثرکن ہیں۔

عدالت کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ کورٹ کے باہر عدالتیں لگانے والے ان جغادریوں کے مکھاڑوں پر مناعی کی ٹیپ لگا دے۔ کچھ فیصلے عدالتوں کو اخلاقی بنیادوں پر بھی لینا پڑتے ہیں‘ آئین کے آرٹیکل اور دفعات زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ نہیں کر سکتے کیونکہ قانون کی کتاب مکمل ضابطۂ حیات کا درجہ نہیں رکھتی۔ دوسری طرف تحریکِ انصاف اور دیگر غدرگیر فریق پارٹیوں میں بھی زیادہ ترقومی اسمبلی کے ممبران ہیں جو ایک حکومت مخالف گروپ کی صورت میں سپریم کورٹ میں رام لیلا کے پاٹھ کاروں کی طرح اپنے اپنے ایکٹ ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ سب حکومتی اور حکومت مخالف ہجوم عمل اور ردِعمل کی سائنس پر روزانہ کی بنیادوں پر عمل پیرا ہے بلکہ کئی بار تو گھنٹوں کے بعد ان کی کارروائیاں اور جوابی کارروائیاں میڈیا پر گردش کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ تو کوربینوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ یہ دونوں فریقین اپنے اپنے داؤ پر ہیں‘ حکومت کو اپنی موت نظر آ رہی ہے تو دوسرے درجے کی اس اپوزیشن کو صرف اپنی سوجھ رہی ہے‘ حقیقت تو یہ ہے کہ وزیراعظم یہ کیس ہار چکے ہیں اور ان کا مخالف فریق یہ کیس جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، بدیں وجہ پاناما کی بات منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں سے نکل کر آرٹیکل 62/63 پر آئی اور اب وزیراعظم کے استثنیٰ اور استحقاق تک جا پہنچی ہے جس کے لیے مزید آئینی آرٹیکلز سامنے آ رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم نے استثنیٰ کا دعویٰ ہی کرنا تھا تو پھر انھیں اسمبلی میں خطاب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے خودکو احتساب کے لیے کھلے بندوں پیش کرنے کی شیخی کیوں بگھاری تھی؟ اصل بات تویہ ہے کہ پاناماکیس کو صادق و امین یا استثنیٰ والے آرٹیکلز کی نظر سے دیکھا ہی نہیں جانا چاہیے‘ اسے صرف منی لارنڈنگ، اخفائے اثاثہ جات اور ٹیکس بچانے کے ضمن میں ہی ڈیل کیا جانا چاہیے کیونکہ اگر صادق و امین کی شق لاگو کی جائے تو پوری اسمبلی کو ہی گھر جانا پڑیگا۔

عدالت کیا سوچ کر بیٹھی ہے یا انھوں نے کیا نتیجہ اخذ کرنا ہے یہ تو معزز جج صاحبان ہی جانتے ہونگے تاہم قانونی ماہرین کی صائب رائے یہی ہے کہ عدالت کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے چنانچہ شریف فیملی کے اثاثوں کی اصلیت اور منی ٹریل تک پہنچنے کے لیے عدالت کو ہرحالت میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی معاونت کو ضرور حاصل کرنا ہو گا جو فرانزک جانچ پڑتال کر کے کسی حتمی نتیجے تک پہنچ سکیں۔

یہ بات قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور ان کے تینوں بچوں مریم، حسین اور حسن کے خلاف درخواستوں پر عدالت اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کے بغیر فیصلہ نہیں دیگی تا کہ انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کیے جا سکیں‘ یہی نہیں بلکہ ہرکیس میں عدالت کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے‘ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی پنچ فریقین، خصوصاً شریف خاندان اور تحریک انصاف کی جانب سے پیش کردہ ناکافی شہادتوں پر مطمئن نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ کوئی فیصلہ دے سکے۔ جب تک کہ اس کیس میں وزیراعظم اور ان بچوں کے خلاف قانون کے تحت جرم ثابت نہیں ہو جاتا‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر فریقین عدالتی کمیشن کے قیام پر روزِ اوّل ہی سے متفق ہو جاتے تو وہ اپنا کام اب تک مکمل کر چکا ہوتا اور بنچ اپنی سفارشات کی روشنی میں کوئی فیصلہ دینے کی پوزیشن میں ہوتا۔

تحریک انصاف دورانِ سماعت عدالت میں معقول ثبوت اور شہادتیں پیش کرنے میں ناکام رہی حالانکہ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ’’خاندانِ اوّل‘‘ کے خلاف ثبوت اور شہادتوں کے انبار ہیں‘ گو کہ شریف خاندان کی جانب سے بیگناہی ثابت کرنے کے لیے متعدد دستاویزات پیش کی گئیں لیکن عدالتی فورم کے اطمینان میں انھیں ناکافی سمجھا گیا‘ سابقہ بنچ تقریباً تمام سماعتوں میں مسلسل عدالتی کمیشن بنانے کی بات کرتا رہا لیکن طرفین کے وکلاء نے کوئی رضامندی کا اظہار نہ کیا اور دونوں ہی کہتے رہے کہ عدالت خود پٹیشنز کا فیصلہ کرے۔

پاکستان کی سیاست میں سازشی تھیوریاں ہمیشہ ہی گردش میں رہتی ہیں‘ ان کو ہوا دینے میں ہمارا دیسی میڈیا ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہتا ہے‘ یہ سازشی تھیوریاں زرداری کے 5 سالہ دور میں ان کے ایوان کی چھت پر بیٹھی رہیں‘ نوازشریف بھی 2014ء کے دھرنوں سے ان ہی سازشی تھیوریوں کے حصار میں ہیں‘ سیاسی پنڈت اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ حکومت اگر ایک بحران سے نکل آئے تو اسے دوسرے بحران میں دھکیلنے کے لیے ایک اور تھیوری کیسے گرمانی ہے‘ چند ماہ پہلے یہ پیشین گوئیاں زوروں پر تھیں کہ نوازحکومت تمام بحرانوں سے نکل آئی ہے اور اب اسے 5 سال پورے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا مگر سپریم کورٹ میں پاناماکا کیس لگتے ہی وہ سازشی تھیوری پھر سے زندہ ہو گئی ہے اور پنڈتوں نے 2017ء کو الیکشن کا سال قرار دیدیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاناماکیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیراعظم کے خلاف آیا تو نوازشریف سمیت پورے شریف خاندان کی سیاست ختم ہو جائے گی، نوازشریف مقدمہ جیت گئے تو سیاسی نقصان تحریک انصاف کو ہو گا‘ پاناما کیس میں نوازشریف کے حق میں واضح فیصلہ آیا تو انھیں فائدہ ہو گا مگر نوازشریف کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد بھی عمران خان کی سیاست ختم نہیں ہو گی۔ پاناما لیکس سامنے آنے سے نون لیگ کو پہلے ہی بڑا نقصان ہو چکا ہے۔ فیصلہ نواز شریف کے حق میں آیا تو کرپشن کے خلاف عوامی شکایت کو نقصان ضرور ہو گا‘ کرپشن کے معاملہ کو سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے‘ پاناما لیکس میں پانچ سو لوگوں کے نام ہیں لیکن کیس صرف نوازشریف اور عمران خان کے خلاف دائر ہوئے ہیں۔

شریف خاندان نے اگر فلیٹوں کی ملکیت قبول کر لی ہے تو ان کے پاس منی ٹریل کا ریکارڈ بھی ہو گا‘ پاناما کیس میں قانون جو بھی فیصلہ کرے عوامی عدالت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ دال میں بہت کچھ کالا ہے‘ پاناما لیکس کی وجہ سے اگلے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو ناقابلِ تلافی نقصان تو بہرحال ضرور ہو گا۔ یہ بات بھی طے ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے کوئی بڑا تاریخی فیصلہ نہ لیا تو انتخابات 2017ء میں ہوں یا 2018ء میں، نوازشریف نااہل ہوں یاسیاست سے سنیاس لے لیں، موجودہ سیاسی نظام میں تو آئندہ انتخابات میں نون لیگ کو انتخابات جیتنے کے لیے غیرمعمولی محنت کرنا ہو گی۔

عمران خان نے بار بار سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنا سیاسی قدکافی حد تک بہتر کر لیا ہے‘ تحریکِ انصاف متعدد کمزوریوں اور خامیوں کا شکار ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ کیا ہی بہتر ہوتا اگر وہ سیاسی غلاظت میں لوٹ پوٹ ہونے کی بجائے اپنی جماعت کی طہارت پر توجہ دیتے اوراگلے انتخابات کے لیے قوم کو مطمئن کرتے‘ بالفرضِ محال جیسا کہ شیخ رشید، نوازشریف کا سپریم کورٹ سے تابوت اٹھانے کی فال نکال رہے ہیں‘ اگر آئندہ ایک دوماہ میں الیکشن کاماحول بن جاتا ہے تو تحریکِ انصاف کی اس ضمن میں غیرمعمولی تیاری ہے‘ وہ اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے جلسوں میں پہلے سے زیادہ افراد جمع بھی کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف زرداری بڑے باریک اور موقع شناس سیاستدان ہیں‘ ان کے وطن واپس لوٹنے کا مقصد ہی آئندہ انتخابات کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہے جو انھوں نے شروع کر دی ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ سے پیپلز پارٹی کی باڈی لینگویج کو بغور دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی ابھی تک فرینڈلی اپوزیشن سے نہیں نکل سکی اور اسی وجہ سے باقی اپوزیشن جماعتیں ان پر اعتبار نہیں کر رہیں جس سے حکومت اور پی پی پی کے درمیان اندر کھاتے مک مکا نے اپوزیشن کو بہت نقصان پہنچایا ہے‘ زکوٰۃ اور عشر پر چلنے والی جماعتوں کو مال کمانے کا بہت سنہری موقع ملا ہے۔

اس ساری صورتحال میں سیاسی محاذ تو ضرور گرم ہو گا مگرعوامی سطح پر شاید زرداری کی واپسی کو پذیرائی نہیں مل سکی کیونکہ جو فیکٹر 2013ء کا الیکشن ہرا سکتا ہے وہ 2018ء کا الیکشن کیسے جتوا سکتا ہے؟ یہ حقیقت نظرانداز کرنا ممکن نہیں کہ کوئی بھی تحریک تب کامیاب ہوتی ہے جب کراچی سے خیبرتک عوام میں بھی حکومت مخالف ایجنڈاپر باہر نکلنے کی آرزو موجود ہو‘ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے‘ ملک کے بڑے صوبے پنجاب کی حدتک لوگ پیپلزپارٹی کی کال پر کتنی سنجیدگی سے باہر نکلے ہیں، اس کا اندازہ لاہور تا فیصل آباد نکالی جانیوالی 19 جنوری کی بلاول کی عوامی ریلی سے بخوبی ہوگیا ہے مگر بلاول کسی حد تک پیپلزپارٹی کا جمود توڑنے اور زنگ اتارنے میں کسی حد تک ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔

زرداری کی جماعت کے ممکنہ اتحادی عمران خان ماضی قریب تک نواز اور زرداری کو اسٹیٹس کو اور کرپشن کامنبع بتاتے رہے ہیں، اگر اب ’’عمران زرداری‘‘ حکومت مخالف اتحاد بنا تو ن لیگ اور دیگر ان کی مخالف جماعتیںبھرپور انداز میں اس نئے اتحاد کو تنقید کا نشانہ بنائینگی اور اس کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہو گا کہ اس کا نعرہ ہی کرپشن کے خلاف ہے اور پی پی پی کرپشن میں نوازشریف سے بھی پیچھے نہیں‘ نون لیگ برملا یہ کہتی ہے کہ پی پی اور پی ٹی آئی میں اصل مقابلہ پنجاب میں نمبر دو کی دوڑ کا ہے‘ یہ بات صد فیصد درست بھی ہے‘ آثار یہی بتاتے ہیں کہ عمران خان مسلسل کچی گولیاں کھیلنے کی وجہ سے بیک فٹ اور پیپلزپارٹی چانکیائی سیاست کی وجہ سے فرنٹ فٹ پر براجمان ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

آصف زرداری نے الیکشن کی تیاری اور بدلتے حالات کے تناظر میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا‘ انھوں نے بیرون ملک جانے کافیصلہ اس وقت کیا جب رینجرز اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کرپشن اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑبے نقاب کرنے کے لیے سندھ حکومت کے لوگوں کو پکڑ رہی تھی اور خدشہ تھا کہ بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا‘ جب تک جنرل راحیل شریف کی ٹیم اپنے عہدوں پر تھی زرداری نے باہر رہنے کا فیصلہ کیا مگر اب ان کا خیال ہے کہ نئی آرمی کمان کرپشن اور دہشتگردی کے گٹھ جوڑ کی بات کو پچھلی شدت کے ساتھ نہیں اٹھائے گی‘ ایان علی کیس کو لے کر چلنے والی اسٹیبشلمنٹ ہے‘ آئی جی سندھ اللہ ڈینو خواجہ کی جبری رخصت کے بعد ان لوگوں کو سمجھ آ جانا چاہیے جو سمجھتے تھے کہ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ پیپلزپارٹی کو نئی شکل دینگے‘ دبئی قیام کے دوران بھی پیپلزپارٹی میں تمام اہم فیصلے زرداری ہی کرتے رہے ہیں۔

اس وقت آئی ایس آئی چیف سابق کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور سابق ڈی جی رینجرز سندھ لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر چیف آف جنرل اسٹاف ہیں، اس لیے کراچی آپریشن کی پالیسی کا تسلسل جاری تو رہیگا مگر زرداری کی وطن واپسی اسی پالیسی کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ہے‘ آصف زرداری آئندہ انتخابات تک باہر نہیں بیٹھ سکتے تھے، ان کو گرفتار کرنا ڈی جی رینجرز اور آرمی چیف کا فیصلہ نہیں ہو سکتا‘ زرداری کی واپسی کے روز انور مجید کے دفاتر پر چھاپے مار کر سگنل دیا گیا کہ ہم اپنی کارروائی جاری رکھیں گے، آپ یہ نہ سمجھیں لوٹ مار دوبارہ شروع ہو جائے گی‘ آصف زرداری نے سوچ سمجھ کر وطن واپسی کا رسک لیا۔

2017ء کو الیکشن کا سال قرار دیا جا رہا ہے اور زرداری کو بخوبی یہ اندازہ تھا کہ پیپلزپارٹی سندھ کی حد تک بھی عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی ہے اور اگر کچھ اہم فیصلے بروقت نہ کیے گئے تو انھیں سندھ سے آؤٹ ہونا پڑ سکتا ہے‘جب کرپشن عام ہو رہی ہو، جرائم میں اضافہ ہو رہا ہو، امن وامان کی صورتحال مزید بگڑ رہی ہو، غریب اور امیر کا فرق بڑھ رہا ہو، سیاست، جوکہ شائستگی کی متقاضی ہے، ذاتیات اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے تک محدود ہو گئی ہو اور عام آدمی دیکھ رہا ہوکہ سیاستدانوں کو اس اَمر کی کوئی پرواہ نہیں کہ ملک کدھر جا رہا ہے، تو پھر ایک امن پسند اور قاعدے قانون کے پابند شہری کا مایوس ہونا فطری امر ہے۔

سندھ میں زرداری پارٹی کی حکومت ہے لیکن وہاں امن و امان کی صورتحال قطعاً اطمینان بخش نہیں، لوٹ مار کا کلچر فروغ پا رہا ہے‘ آئندہ انتخابات جیتنے کے دعوے کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن دوسرے صوبے پیپلز پارٹی کے کارناموں کو دیکھ کر مشکل سے ہی زمامِ اقتداراس کو سونپنے پر آمادہ ہونگے۔

آج کل سیاست میں غیرسنجیدگی اس حد تک دَرآئی ہے کہ فقرے بازی بلکہ جگتوں کو ذہانت کی علامت سمجھا جارہا ہے‘ اس رویے اور رجحان کی اصلاح بہت ضروری ہے‘ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ کسی ایک صوبے کی اچھی پرفارمنس ہی برسراقتدار پارٹی کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنا سکتی ہے‘ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے قومی اتفاقِ رائے سے نیشنل ایکشن پلان وضع کیا گیا تھا لیکن اس پر عمل ہی نہیں ہو رہا‘ یوں لگتا ہے کہ جیسے حکومت اور سیاستدانوں نے اسے بھلا دیا ہے‘ اگر آصف زرداری محض حالات دیکھنے ہی نہیں بلکہ اصلاحِ احوال کی غرض سے پاکستان آئے ہیں تو پھر انھیں واپسی کا ارادہ ترک کر کے ایسے کاموں میں جُت جانا چاہیے جو انھیں آئندہ انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔

تحریکِ انصاف کی رائے میں زرداری کی آمدسے فرینڈلی اپوزیشن مزید مضبوط ہو گی‘ اس وقت حکومت پاناما لیکس کے پھندے میں پھنسی ہوئی ہے اور عام انتخابات میں سترہ ماہ رہ گئے ہیں‘ زرداری کا یہاں رہنا اور بلاول اور پارٹی کی رہنمائی کرنا بہت ضروری ہے‘ اگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے زرداری کی آمدکا خیرمقدم کیا‘ ہو سکتا ہے کہ اس خیرمقدم کی ایک وجہ یہ بھی ہوکہ نون لیگ سمجھتی ہے کہ بلاول کے مقابلے میں زرداری پیپلزپارٹی کو حکومت کے بارے میں ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر عمل کی تلقین کریں گے۔

زرداری کا کوئی ایسا اعلان یاعزم سامنے نہیں آیا کہ حکومت کو چلنے نہیں دیا جائے گا‘ یہ انداز واضح طور پر بتا رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پرامن طریقے سے الیکشن 2018ء کی جانب بڑھا جائے تاکہ ایک بار پھر جمہوری انداز میں انتقالِ اقتدار ہو سکے۔ سابق صدر آصف زرداری موجودہ پارلیمنٹ میں جانے کا اعلان کرنے میں اتنی جلدی میں تھے کہ انھوں نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کابھی انتظار نہ کیا لیکن اب اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں اعتراز احسن‘ لطیف کھوسہ اور فاروق ایچ نائیک کے ساتھ مشاورت کے بعد انھوں نے پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ موخر کر دیا ہے‘ پارٹی کے سینئر قانون دانوں نے انھیں پارلیمنٹ میں جانے کے حوالے سے قانونی پیچیدگیوں سے آگاہ کیا تھا۔

بہرحال یہ فیصلہ تو آصف زرداری نے ہی کرنا ہے کہ پیپلزپارٹی کس سمت میں آگے بڑھے گی‘ بلاول کے وعدوں اور نعروں کی گونج تو ہوگی مگر پارٹی پالیسی اور سمت کا تعین بہرطور بلاول کے بابا ہی کرینگے۔ کچھ واقعات مثلاً، ڈاکٹر عاصم کی ہموار ہوتی رہائی، سے لگتا ہے کہ آصف زرداری مفاہمت اور مک مکا کرکے واپس آئے ہیں‘ زرداری رینجرز کی کارروائی پر اس لیے مشتعل نہ ہوئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کی نہیں بلکہ کسی اور کی کارروائی ہے‘ زرداری نے بلاول کی تمام باتوں کی نفی کردی اور واضح کردیا ہے کہ پیپلزپارٹی نون لیگ سے مک مکا اور فرینڈلی اپوزیشن کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی مگراگلا الیکشن سمیٹنے کے لیے اب تصادم کی سیاست اس کی مجبوری ہوگی۔

آصف زرداری نے محسوس کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بہتر رابطے قائم کر سکتے ہیں‘ بلاول کی سوچ میں پھیکا پن تھا‘ زرداری کو معلوم ہے کہ آئندہ انتخابات کی بات غیرمتوقع سی لگ رہی ہے چنانچہ اس دوران کوئی تحریک نہیں چلائی جاسکتی اگر چلے گی تو بے فائدہ ہو گی، سو بہتر ہے الیکشن کی تیاری کی جائے‘ عمران خان نے پچھلے ساڑھے تین سال میں کم نشستوں کے باوجود نوازشریف کو جو اپوزیشن دی ہے اس کا تاریخ میں بہت کم تذکرہ ملتا ہے‘ اب پی پی اور نون دونوں کامشترکہ مفاد ہے کہ عمران خان کی سیٹیں مزید کم کی جائیں۔

پیپلزپارٹی کے پاس درکار مقبولیت ہوتی تو احتجاج اکیلے ہی کرتی اور تحریکِ انصاف سے گٹھ جوڑکی بات کبھی نہ کرتی‘ پیپلزپارٹی کے پاس دیہی سندھ کے علاوہ کچھ نہیں رہ گیا‘ پیپلزپارٹی کی حکومت سے اگرڈیل بھی ہوئی ہے تو وہ بھی ڈھیلی ڈھالی سی ہوئی ہوگی کیونکہ ڈیل کا تعلق بھی ڈیل ڈول سے ہوتا ہے‘ پیپلزپارٹی قومی سطح کی سیاسی جماعت سے پریشر گروپ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے‘ آصف زرداری آخری سال پارلیمنٹ میں کیا کرنے جارہے تھے‘ شاید وہ ایم اے کرنے کے بعد دوبارہ نرسری میں داخلہ لینے کا سوچ رہے تھے، انھوں نے 5 سال صدرِ مملکت رہنے کے بعد اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تھا‘ صدر مملکت جیسی بڑی پوزیشن پر رہنے کے بعد ضمنی انتخاب لڑ کراسمبلی میں آنا عجیب وغریب سا لگتا ہے۔

پیپلزپارٹی نے آصف زرداری کو پارلیمنٹ میں لانے کا اہم کارڈ کھیلنے کی کوشش کی تھی، آصف زرداری کا پارلیمنٹ میں جانے کا اعلان کوئی خاص سرپرائز تونہیں تھا البتہ اس کی اہمیت ضرور تھی‘ زرداری اپنی پارلیمانی پارٹی کی کارکردگی سے کافی مایوس ہیںکیونکہ وہ سندھ حکومت اورخود زرداری کا دفاع نہیں کرسکی جیسا کہ وہ چاہتے تھے‘ آصف زرداری اپوزیشن کا کردار بڑے بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جو بلاول یا خورشید شاہ نہیں کر سکتے‘ آصف زرداری کو ذاتی تحفظ بھی پارلیمنٹ ہی دے سکتی ہے‘ اگر وہ ایوان میں ہوتے تو ان کی سیاسی حیثیت میں بہت فرق پڑ سکتا تھا، رکن اسمبلی ہونے کی وجہ سے انھیں گرفتار کرنا یا ان کے خلاف کارروائی کرنا آسان نہ ہوتا‘ وہ پہلے اس خوف سے باہر چلے گئے تھے کہ رینجرز شاید ان پر ہاتھ ڈال لے۔

رکن اسمبلی ہونے کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے آصف زرداری پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہو گا کیونکہ پارلیمنٹ کے تحفظ کی چھتری بہت طاقتور ہے‘ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ایک رول فالو کرچکے ہیں کہ کسی سینیٹر کوگرفتار کرنے سے پہلے چیئرمین کی اجازت لی جائے‘ سینیٹ کے پاس عدالتوں سے بھی زیادہ اختیارات ہوتے ہیں‘ وہ کسی کو بھی بلاسکتے ہیں اور سزا بھی دے سکتے ہیں جوکسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح کسی بھی رکن اسمبلی کو گرفتار کرنے سے پہلے بھی اسپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اب لگتا ہے کہ زرداری نے صرف سندھ پر ہی سمجھوتہ کرلیا ہے‘ پیپلزپارٹی نے 2018ء کے انتخابی مہم کی اتنی خراب شروعات کی ہے جسکے بعد وہ کہیں پنپتی نظر نہیں آتی‘ اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ سندھ تک محدود ہوگئی ہے، مسلم لیگ نون کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ تو نہیں بچا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پیپلزپارٹی نے عمران خان کے لیے جگہ چھوڑ دی ہے‘ اب حقیقی اور اکیلی اپوزیشن تحریکِ انصاف ہی رہ گئی ہے‘ مگر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسمبلی سیشنز میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے حکومت کو زیادہ ٹف ٹائم نہیں دیا جا سکا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پارلیمنٹ کوکم ہی اہمیت دیتے ہیں‘ فافن کی رپورٹ کے مطابق عمران خان نے قومی اسمبلی کے 362 میں سے صرف 22 سیشنز میں شرکت کی حالانکہ پی ٹی آئی وزیراعظم پر تنقید کرتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں نہیں آتے۔ اب اگر آصف زرداری یا بلاول پارلیمنٹ میں آتے ہیں تو پھر پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان مقابلہ بڑھے گا لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ عمران خان بھی ایوان میں آئیں تاکہ تحریکِ انصاف کی نمائندگی بہتر انداز ہو سکے گی۔

آصف زرداری گرینڈ الائنس کے لیے کوشش کر رہے ہیں‘ ان کی چوہدری شجاعت سے ملاقات بھی گرینڈ الائنس کے سلسلے میں تھی لیکن اہم سوال یہ ہے کہ خواہشات کے باوجود کیا گرینڈ الائنس بن پائیگا؟ اس سے پہلے بھی گرینڈ الائنس کی کوشش ہوتی رہی ہے لیکن سیاسی رہنماؤں کے خیالات کی بوقلمونی کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) توممکن ہے، اس اتحاد میں شامل ہو جائیں کیونکہ دونوں جماعتیں اکٹھی شریکِ حکومت بھی رہ چکی ہیں‘ ایم کیو ایم پاکستان بھی ان دونوں کے ساتھ مل سکتی ہے کیونکہ گرینڈ الائنس کی صورت میں اس کے کارکنوں کو سیاسی تحفظ بھی مل سکتا ہے۔

ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی گرینڈالائنس کا حصہ بن پائیں گے؟ کیونکہ وہ تو ملک کو تیسری متبادل قیادت دینے کے موڈ میں ہیں اور اگر وہ اس میں سنجیدہ ہیں تو پھر ان کا مقام گرینڈالائنس کے اندر نہیں باہر ہے۔ پہلے پیپلزپارٹی کی قابلِ ذکر حریف جماعت مسلم لیگ نون ہی تھی مگر عمران خان کی سیاست میں فعال انٹری نے مقبولیت کے لحاظ سے پیپلزپارٹی کو تیسری پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے‘ بعض سیاسی جماعتوں میں حکومت کے خلاف فعال تحریک اس لیے بھی دیکھی جارہی ہے کہ انتخابات میں تقریباً 17ماہ رہ گئے ہیں۔

اگر موجودہ حکومت اپنی میعاد پوری اور عوام کو لبھانے والے بعض منصوبے مکمل کرگئی تو اپوزیشن پارٹیوں کی کامیابی کے مواقع کم ہوجائینگے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی گرینڈ الائنس بن بھی گیا تو آئندہ انتخابات میں نشستوں کی تقسیم کے سوال پر اس کا شیرازہ بکھر سکتا ہے اور اس صورت میں نون لیگ ہی فائدہ میں رہے گی۔ متحدہ اپوزیشن کی بڑی ضرورت ہے لیکن ایک ایسے اتحاد کی پائیداری کی ضمانت کون دے سکتا ہے جس میں شامل لوگ کسی بلند مقصد کے لیے اپنے مفادات سے دستبردار ہونے پر تیار نہ ہوں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website