counter easy hit

پاکستانی مسلمان مرد کی طاقت !! فقط تین الفاظ۔۔

Divorce

Divorce

تحریر : ناصر ناکا گاوا
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے پاکستان کے بڑے بڑے عالمِ دین ، کالم نگاروںاور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والی تنظیمیں ، حکومتیں اور کئی ادارے کہتے نظر آتے ہیں کہ اسلام نے جو مقام عورت کو دیا ہے وہ کسی مذہب یا ملک نے نہیں دیا ، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس دعوے کو غلط ثابت کر سکتا ہے ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسلام نے جوحقوق عورت کودیئے ہیں کیا وہ انھیں حاصل بھی کر پاتی ہیں ؟ کیا ان حقوق کے حصول تک عورتوں کی رسائی بھی ہے یا نہیں؟ یہ بالکل ویسی ہی بات ہوگی کہ کسی سے آپ کہیں کہ ہمارے ملک میں قوانین تو بہت اچھے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ، جب عمل درآمد ہی نہ کیا جائے توکیا ہم صرف ان قوانین کے اچھے ہونے کی بنیاد پر ہی فخر کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے قوانین پوری دنیا سے منفرد اور اچھے ہیں؟۔ اسکے برعکس دنیا کے کئی مذاہب اور ممالک میں عورتوں کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے جنکا اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے مگر وہاں کی عورت کی ہر طرح سے حفاظت کی جاتی ہے انکے بنیادی حقوق انھیں دیئے جاتے ہیں انھیں تعلیم کے مواقع اور پھر ملازمت کے مواقع بھی دیئے جاتے ہیں

انھیں معاشرے میں عزت والا مقام بھی دیا جاتا ہے وہ ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں انھیں بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مردوں کو ، انکے ساتھ صرف عورت ہونے کی وجہ سے نا انصافی نہیں کی جاتی ، یہاں پر عورت کی آدھی گواہی نہیں ہے یہاں پر عورت کی بھی وہی وقعت ہے جو مرد کی یہاں پر عورت کو پائوں کی جوتی نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی مرد کو مجازی خدا تصور کیا جاتا ہے، یہاں عورت بچے پیدا کرنے پر ہی مامور نہیں ہے ۔یہاں پر کبھی بھی نہیں سنا گیا کہ کسی لڑکی کے والدین نے جہیز نہ ہونے کی وجہ سے خود کشی کر لی ہو یااپنی بیٹی کو کسی بوڑھے دولتمند کے حوالے کردیا ہو ، یا کسی لڑکی کی شادی اسکی مرضی کے خلاف ہوئی ہو ، یہاں کے کسی مرد کو اجازت نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں کئی کئی شادیاں جب چاہے کرے اور جب چاہے کسی کو اپنی زندگی سے نکال دے ، یہاں پر لڑکی کی پیدائیش پر بھی اتنی ہی خوشی منائی جاتی ہے جتنی لڑکے کی پیدائیش پر ، لڑکی ہو یالڑکا سبکو انکی صلاحیتوں کے مطابق نوکریاں مہییا کی جاتی ہیں ۔پاکستان میں اسلام کے نام پر عورت کے حقوق کو جس طرح پامال کیا جاتا ہے اسکی مثال شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ملے ، شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو گا جہاں شادی کرنے کے لئے تو گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر طلاق دینے کا حق صرف اور صرف مرد کو حاصل ہے ۔کیا اسلام میں مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے اپنی بیوی کو فقط تین بار طلاق کے الفاظ منہ سے ادا کرکے بغیر کسی گواہ یا عدالت کے اسے اپنی زندگی سے اور گھر سے بے دخل کرکے اسے زندہ درگور کردے؟ کیا ایک شوہر کا یہ بیہودہ فعل شریعت اور اسلامی قوانین کے عین مطابق ہے؟

اگر ایسا ہی ہے تو پھر اسلام میں مساوات اور عورت کے حقوق کے کیا معنی ہیں؟ کیا مردکے اس استحقاق کو جاپان یا دنیا کے دیگر ممالک میں آج کے دور میںمتعارف کرواسکتے ہیں؟ کیا کوئی اس بات کو تسلیم کرلے گا کہ کوئی بھی سر پھرا یا پاگل ،جنونی شوہر مذاق میں یا غصے میں دانستہ یا غیر دانستہ اپنی نیک ،پاک دامن، سلیقہ شعار، یا بد چلن ،بدکردار بیوی کویکطرفہ طور پر فقط اپنے منہ سے تین الفاظ ٭طلاق٭ نکال کر جنھیں زبان سے ادا کرنے میں دو سیکنڈ بھی صرف نہیں ہوتے عورت کی زندگی کو عذاب بناسکتا ہے ۔لیکن وہ شخص اپنے اس بیہودہ اور یکطرفہ فعل پر کسی عدالت یا قانون کو جوابدہ نہیں ہوتا؟ بس اسکے منہ سے تین الفاظ نکلنے کی دیر ہے بے چاری عورت بے سہارا ہو کر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس اپنے والدین کے ہاں جاکر انکے لئے مشکلات کا سبب بنتی ہے یا پھر معاشرے میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتی ہے ۔ہمارے معاشرے میں ایک طلاق یافتہ عورت کی جو حیثیت و مقام اور وقعت ہے اس سے سب بخوبی واقف ہیں ، ایسی عورت کے لئے دوسری شادی کرنا یا اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنا اسکے اختیار میں ہی نہیں ہوتا ۔اس کے برعکس اگر کوئی نیک اور پاکیزہ و مجبور بیوی اپنے بد کردار ، بدمعاش اور غیر ذمہ دار شوہر سے نجات حاصل کرنا چاہے بھی تو اسے عدالتوں اور قانون سے رجوع کرنا پڑتا ہے ۔آخر یہ ناانصافی عورت کے ساتھ ہی کیوں ہے؟ ایک شوہر کو اپنی بیوی سے نجات حاصل کرنے کے لئے کسی عدالت یا قانون کی ضرورت کیوں نہیں پڑتی؟ ہمارے ملک میں ہر روز ایسی لاکھوں طلاقیں واقع ہو رہی ہیں

مگر اس طرف کئی عالمِ دین یا ملا کی توجہ نہیں جاتی ۔۔کیونکہ وہ خودایسے خودساختہ قانون کا ایک حصہ ہیں ۔ جس طرح آج ہمارے ملک میں مذہب اسلام کے نام پر عورت کی تضحیک اور حق تلفی کی جا رہی ہے مجھے یقین ہے کہ اسلام میں یا مقدس قرآن میں ایسا کہیں بیان نہیں کیا گیا ہوگا۔ اگر ہم واقعی عورت کا عالمی دن منانا چاہتے ہیں اور انھیں عزت و مقام دینا چاہتے ہیں تو ہمیں مساوات کے اصولوں پر انکے ساتھ انصاف کرنا ہوگا ۔ یہی نام نہاد مسلمان جاپان یا دوسرے ممالک میں اپنی بیویوں کو تین بار طلاق دیکر تو دیکھیں انکے منہ پھاڑ دیئے جائیں گے ، اسلام کے ایسے قوانین جو مرد کے مفاد میں ہوتے ہیں ان پر خوب عمل درآمد کیا جاتا ہے ۔تین مرتبہ منہ سے طلاق کے الفاظ ادا کرنے سے کیونکر طلاق ہو سکتی ہے میں پاکستان کے علمائے دین سے درخواست کرونگا کہ برائے مہربانی اسلام ہی کی روشنی میںجدید دور کے تقاضے کے مطابق اس اہم مسئلہ کا تسلی بخش حل بتائیں اور اسے ملک میں سختی سے نافذ کروائیں تاکہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی خواتین بھی خوشحال زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھ سکیں،جو اپنی ابتدائی زندگی اپنے والدین کے ساتھ اس طرح گزارتی ہے کہ وہاں بھائیوں کو ان پر فوقیت دی جاتی ہے انھیں لڑکی سمجھ کر ان سے زندگی کے تمام معاملات میں تعصب کیا جاتا ہے انکی تعلیم و تربیت پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی لڑکوں کو دی جاتی ہے ۔ جب وہ جوان ہوتی ہے تو اسے اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی مگر بھائی کو اجازت ہوتی ہے وہ جس سے چاہے جب چاہے اپنی مرضی کی شادی کرے اس پر فخر کیا جاتا ہے ، اس لڑکی کو اسی مرضی کے خلاف ایک ان دیکھے شخص سے بیاہ دیا جاتا ہے جہاں وہ دلہن بن کر نہیں اپنے شوہر سمیت اسکے پورے خاندان کی نوکرانی بن کر جاتی ہے جہاں جوان جوان دیور جو اسکے لئے نا محرم ہوتے ہیں کے کپڑے بھی اسے دھونا پڑتے ہیں،

سب کا کھانا بھی تیار کرنا ہوتا ہے ، شوہر کے باپ اور اسکی ماں کی خدمت بھی اس پر فرض ہوتا ہے چار چھ بچے پیدا کرنا اور صرف لڑکے پیدا کرنا بھی اس پر فرض ہوتا ہے اس دوران اگر اسکے شوہر کا موڈ خراب ہو جائے تو اس نوکرانی سے نجات حاصل کرنے کے لئے کسی سے کوئی مشورہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں بس منہ سے تین الفاظ طلاق طلاق طلاق نکالے اور فارغ، اس نوکرانی کو اسی وقت اس گھر سے نکلنا ضروری ہو جاتا ہے ۔ سعودی عرب جسے اسلام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں عورتوں کورائے حقِ دہی اور گاڑی چلانے کی اجازت تک نہیں ہے مگر کہتے ہیں کہ ہم عورتوں کے ساتھ برابر کا سلوک کرتے ہیں انھیں اپنے چہرے تک دکھانے کی اجازت نہیں ہے کہ انھیں دیکھ کر مرد وں کے ایمان خراب نہ ہو جائیں ، اگر مردوں کے ایمان اتنے کمزور ہیں تو پردہ تو پھر مردوں کو کروانا چاہئے نہ کہ عورتوں کو !!!میں خواتین کے عالمی دن پر انھیں سلام پیش کرتا ہوں انکی عظمت اور برداشت کو سلام پیش کرتا ہوں

دعاگو ہونکہ انھیں واقعی وہ حقوق حاصل ہوں جو اسلام نے انکے لئے وضع کئے ہیں جس میں وہ آزاد ہے ،اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اسے حق حاصل ہے ، اپنے ہونے والے شوہر سے تبادلۂ خیال کرنا اسکا حق ہے ، اپنے شوہر کے ساتھ ہنسی مذاق کا کرنا اسکا حق ہے ، اپنے شوہر کے ساتھ علیحدہ رہنا اسکا حق ہے ، اپنے بچے کو دودھ پلانے کی اجرت اپنے شوہر سے وصول کرنا اسکا حق ہے ، شادی کے بعد کسی بھی وجہ سے اپنے شوہر سے نجات حاصل کرنا اسکا بھی حق ہے، شوہر کے والدین کی خدمت کرنا اس کا فرض نہیں ہے بلکہ اپنے والدین کی خدمت کرنا اسکا فرض ہے اسی طرح یہ شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت خود کرے نہ اپنی بیوی سے کروائے۔دنیا میں عورتوں کے مقابلے میں پاکستانی مسلمان مرد کی طاقت فقط تین الفاظ۔۔طلاق۔طلاق۔طلاق۔۔۔ہے کوئی دنیا میں ایسا طاقتور مرد کہ وہ اپنے ان تین الفاظ سے اپنی بیوی کو مات دے دے!!!!

Nasir Nakagawala

Nasir Nakagawala

تحریر : ناصر ناکا گاوا