counter easy hit

پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے قبول نہیں، اوباما

Barack Obama

Barack Obama

واشنگٹن (یس ڈیسک) امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے قبول نہیں،بھارت حقیقی گلوبل پارٹنر ہے ۔ پاکستان اور امریکا مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں لیکن پاکستان پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے قبول نہیں ، پاکستان کو ممبئی حملوں کےملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں ضرور لانا چاہئے، سانحہ پشاور ہمیں یاد دلاتا ہےکہ دہشتگرد ہم سب کیلئے خطرہ ہیں ، بھارت حقیقی گلوبل پارٹنر ہے ، نائن الیون اور ممبئی واقعات کے بعد امریکا اور بھارت دفاع اور سلامتی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقوں سے القاعدہ کا خاتمہ کردیا ہے

افغانوں کی حالت بہتر بنانے میں نئی دہلی کی مدد کے شکر گزار ہیں ، جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے میں ملکر کام کریں گے۔ بھارت آمد سے قبل بھارتی جریدے کو انٹرویومیں صدر اوبامانے کہاکہ پاکستان کے اندر دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ، ممبئی حملوں کے پیچھے جن بھی لوگوں کا ہاتھ ہے انہیں انصاف کے کٹہرے میں ضرور لایا جانا چاہئے ، امریکا اور بھارت دہشتگرد گروپوں کے خلاف لڑائی میں متحد ہیں۔ بارک اوباما نے کہاکہ نائن الیون کو امریکا میں ہونے والے دہشتگرد حملوں میں مارے جانے والوں میں بھارتی شہری بھی شامل تھے اور 26؍نومبر 2008ء کو ممبئی حملوں میں مرنے والوں میں امریکی شہری بھی شامل تھے۔

اوباما نے کہاکہ میں نے اپنے سابقہ دورہ بھارت کے دوران ممبئی حملوں کے متاثرین کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہارکرنے کیلئے تاج ہوٹل میں پہلا قیام کیا اور بھارتی عوام کو یہ پیغام دیا کہ اپنی سلامتی کے تحفظ کےلئے اہم ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دنیا بھر میں دیگر لوگوں کی طرح بھارتی اور امریکی عوام کےلئے بھی 16 دسمبر کو پشاور کے اسکول میں بچوں کا قتل عام ایک دردناک واقعہ تھا اور دہشتگردوں نے ہم سب کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے دہشتگردی کیخلاف تعاون کو مزید گہرا کردیا ہے اور ہم جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے مل کرکام کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور بھارت تعلقات باہمی احترام کے رشتے پر قائم ہیں، جہاں دونوں ایک دوسرے کی تاریخ اور روایات سے بخوبی واقف ہیں اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی کو اہمیت دیتے ہیں، ان تعلقات میں ایک دوسرے کے مفادات کے مدنظر رکھا جارہا ہے۔