counter easy hit

پاکستان ٹیم!غلطیاں سدھارو، کارکردگی نکھارو

Pakistan team! Errors improvement, performance enhancement

Pakistan team! Errors improvement, performance enhancement

غیر مستقل مزاجی کیلئے مشہور پاکستان ٹیم نے کریبینز کے خلاف سیریز میں اس لیبل کے رنگ مزید گہرے کرلئے، تینوں ٹوئنٹی 20 میچز میں عالمی چیمپئن کو سر اٹھانے کا موقع نہ دینے والے گرین شرٹس نے ون ڈے مقابلوں میں بھی 3-0 سے کلین سویپ کیا، محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کی انگلینڈ کے خلاف گزشتہ سیریز کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ نتائج حیران کن تھے،کوئی توقع نہیں کررہا تھا کہ جارح مزاج کھیل کیلئے مشہور ویسٹ انڈینز یوں آسانی سے ہتھیار ڈال دیں گے، مسلسل 6میچز میں کامیابی کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کی سپرپاورز میں شامل پاکستان کو کلین سویپ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی لیکن عالمی رینکنگ میں نمبر 2 ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی مینجمنٹ اور شائقین کے لیے پریشان کن تھی، اس سے ثابت ہوا کہ فارمیٹ کوئی بھی پاکستانی کرکٹرز کا بہترین سے بدترین کی جانب سفر زیادہ طویل نہیں ہوتا،کبھی عرش پر نظر آنے والی ٹیم، فرش پر آنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتی،ایک دن ہیرو نظر آنے والی دوسری باری میں زیرو بن جاتے ہیں۔

کوئی توقع کرسکتا ہے کہ ایک اننگز میں صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر 579 رنز بنانے والی ٹیم، دوسری میں صرف 123 پر ڈھیر ہوجائے، ایک باری میں ٹاپ 4بیٹسمین ٹرپل سنچری اور 3 ففٹیز بنائیں، دوسری میں اس سنگ میل کی گرد بھی نہ چھوپائیں، ڈیرن براوو کی میراتھن اننگز کے باوجود پاکستان گرتے پڑتے پہلا ٹیسٹ جیتنے میں کامیاب ہوگیا،اہم موقع پر یاسر شاہ اپنی ہی گیند پر مشکل کیچ نہ لے پاتے تو میزبان کرکٹرز کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں،ناکامی کی پرچھائیوں میں بدل جاتیں، عالمی نمبر 2 کی نمبر 8 ٹیم کے خلاف اس انداز میں فتح کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئی تھی لیکن ہوش کے ناخن لینے، بیٹنگ میں خامیوں اور ناقص فیلڈنگ جیسے مسائل پر قابو پانے کے بجائے ملبہ مصنوعی روشنیوں اور پنک بال پر ڈال کر جان چھڑا لی گئی، مہمان ٹیم ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کے تجربے سے آشنا نہ ہونے کے باوجود بھر پور مزاحمت کرنے میں کامیاب ہوئی، پاکستانی کرکٹرز اپنی پے درپے غلطیوں اور تساہل پسندی کے باوجود اس زعم میں رہے کہ ناتجربہ کریبینز کو کسی موقع پر بھی پھانس لیں گے،کوئی انہونی نہیں ہونے والی، اس ٹیسٹ میں اظہر علی کی ٹرپل سنچری کو نکال لیا جائے تو مہمان ٹیم مختلف سیشنز میں سخت چیلنج دیتے ہوئے پریشانیاں پیدا کرتی نظر آئی۔دوسرے ٹیسٹ میں بھی ویسٹ انڈیز کو حاوی ہونے کے متعدد مواقع فراہم کئے گئے اوپنرز کی ناکامی کے بعد یونس خان نے سنچری مکمل کی لیکن انتہائی غیر ذمہ دارانہ سٹروک کھیل کر دن کے آخری لمحات میں وکٹ گنوائی، مصباح الحق نے دوسرے روز آتے ہی وکٹ کا تحفہ پیش کرکے تھری فیگر تک رسائی اور ٹیم کو بہتر ٹوٹل فراہم کرنے کا موقع ضائع کیا، سرفراز اور ٹیل انڈر نے مجموعہ 452 تک پہنچایا، بازی ہاتھ میں تھی لیکن خوف کا شکار اور سست رو بیٹنگ کے بعد دوسری اننگز ڈکلیئر کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ کریبینز کو ایک موقع پر ہدف کے حصول کی امید نظر آنے لگی تھی، بولرز اور فیلڈرز کے خواب غفلت سے جاگنے پر صورتحال قابو میں آئی، کریک بریتھ ویٹ اور جرمین بلیک ووڈ اننگز کو طول دینے میں کامیاب ہوجاتے تو میچ ڈرا بھی ہوسکتا تھا۔

دونوں ٹیسٹ میچز میں غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے کا خمیازہ شارجہ میں بھگتنا پڑا، میزبان نے پہلے دو میچز میں نظر آنے والے اپنے مسائل کئی گنا بڑھالئے جبکہ کریبینز نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بہتر اور کارآمد بنایا، میچ کے پہلے ہی اوور میں 2 وکٹیں گرنے کے بعد کان کھڑے ہوجانا چاہئیں تھے لیکن سینئرز و جونیئرز سب نے غیر ذمہ دارانہ کھیل پیش کیا، اننگز میں نصف سنچریز بنانے والے چاروں بیٹسمینوں نے غلط سٹروکس کھیل کر وکٹیں گنوائیں۔ یونس خان، مصباح الحق اور سرفراز احمد نے ففٹی مکمل کرتے ہی گویا اپنا مشن پورا کرلیا اور پویلین جا بیٹھے، پہلی اننگز کا مجموعہ کم ہونے کے بعد بولرز نے ابتدا میں جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہمان ٹیم کی 4 وکٹیں صرف 68 رنز پر گرادیں لیکن کریک بریتھ ویٹ کے سامنے بے بس ہوگئے۔بہتر پلاننگ کے ساتھ بولنگ کی جاتی تو چند تکنیکی خامیاں رکھنے والے اوپنر کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ویسٹ انڈیز کو 56 رنز کی قیمتی برتری حاصل کرنے سے روکا جاسکتا تھا، توقع کی جارہی تھی کہ گرین کیپس اپنی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے معقول ہدف دینے میں کامیاب جائیں گے لیکن 14 اوورز میں بغیر وکٹ گنوائے 37 رنز بنانے کے بعد ایسی گھبراہٹ طاری ہوئی کہ سارے منصوبے خاک میں مل گئے، صرف 11 رنز کے سفر میں 4 وکٹیں گرنے کے ساتھ مڈل آرڈر کا صفایا ہوگیا، اظہر علی اور سرفراز احمد نے ٹیم کو سنبھالا دیا لیکن برتری مستحکم ہونے سے قبل ہی باری باری وکٹیں گنوا بیٹھے، دونوں کی پویلین واپسی بولرز کی محنت اور پلاننگ سے زیادہ بیٹسمینوں کی غفلت کا نتیجہ تھی، بعدازاں محمد عامر کا رن آؤٹ بھی تساہل پسندی کی ایک مثال تھا، وہ اہم موقع پر بڑا سٹروک کھیلنے کے زعم میں کریز پر کھڑے رہے لیکن روسٹن چیز نے حاضر دماغی سے نہ صرف چھکا بچایا بلکہ شاندار تھرو سے رن آؤٹ بھی ممکن بنادیا۔

صرف 153 رنز کا ہدف دینے کے بعد فیلڈرز کو چاک و چوبند رہتے ہوئے ایک ایک گیند پر جان مارنا چاہیے تھی تاکہ حریف پر ابتدا میں ہی دباؤ بڑھایا جاسکتا لیکن پہلے اور تیسرے اوور میں ہی کیچز گرا کر مہمان ٹیم کیلئے آسانی پیدا کردی گئی،یاسر شاہ اور بعدازاں وہاب ریاض کے اچھے سپیل پاکستان کو 67 رنز کے سفر میں ہی 5 وکٹیں دلاگئے، میچ میں واپسی کا امکان پیدا ہوا لیکن کریگ بریتھ ویٹ کا توڑ نہ کیا جاسکا، شین ڈوچ جیسے وکٹ کیپر بیٹسمین کی دیوار بھی نہ گرائی جاسکی، میزبان کھلاڑی خوش فہمی کا شکار رہے، کریبینز نے ثابت قدمی سے برج الٹا دیا۔کوچ مکی آرتھر نے شکست تھکاوٹ کا نتیجہ قرار دی جبکہ کپتان مصباح الحق نے تساہل پسندی کو ذمہ دار ٹھہرایا لیکن دیکھا جائے تو میچز میں مناسب وقفہ موجود تھا، کنڈیشنز بھی میزبانوں کیلئے زیادہ سازگار تھیں، اصل وجہ یہ ہے کہ گرین کیپس نے رینکنگ کے فرق کو کارکردگی کی بنیاد سمجھ لیا تھا، کرکٹ میں ہمیشہ کم غلطیاں کرنے والی ٹیم سرخرو ہوتی ہے، پاکستان کا معاملہ برعکس رہا،۔ سیریز جیتنے کے بعد اہم مشن پوری سیریز میں ناقابل شکست رہتے ہوئے 9-0 سے فتوحات کا منفرد ریکارڈ کرنا تھا لیکن شائقین کی امیدوں پر پانی پھرگیا، سیریز میں 3 بار 300 سے کم رنز بنانے والی ٹیم اس سے بہتر کارکردگی کیسے پیش کرسکتی تھی، مردہ وکٹوں پر بھی شارٹ گیندیں پریشانی کا باعث بنتی رہیں، یو اے ای میں نئی گیند کی چمک ضائع کرنے کیلئے کتنے اوورز درکار ہوتے ہیں۔

یہ بات پاکستان ٹیم سے بہتر کوئی نہیں جانتا، یہاں انگلینڈ کو کلین سویپ کرنے کے بعد کینگروز کو بھی ناک میں دم کرنے والے گرین کیپس کو حکمت عملی بنانے اور اس پرعملدرآمد کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونا چاہیے، اس بار نئی گیند سے شینن گبرائیل نے مسائل پیدا کئے تو پرانی سے رویندرا بشو نے کھل کر نہ کھیلنے دیا، شارجہ میں تو جیسن ہولڈر بھی ہیرو بن گئے، سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر بیٹسمین اپنی دیکھی بھالی کنڈیشنز میں بھی اچھے آغاز کے باوجود وکٹوں کی قربانی پیش کرتے ہوئے اپنی ٹیم کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہے، ڈراپ کیچز نے مہمانوں کو کریز پر قیام طویل کرنے کے مواقع فراہم کئے، سلپ فیلڈنگ میں کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں، سینئرز یونس خان اور مصباح الحق کی جانب سے غفلت کے بعد سمیع اسلم جیسے جونیئرز سے کیا شکوہ کیا جاسکتا ہے؟نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں میچز مردہ نہیں بلکہ پیس اور باؤنس سے بھر پور ہوں گی، میزبان ٹیموں کے پیسرز بھی مہلک اور بہتر ٹریک ریکارڈ کے حامل ہیں، وہاں شارٹ گیندوں کا بہتر انداز میں سامنا کرنے کے ساتھ مہمان بولرز کو سلپ فیلڈرز کی بھر پور معاونت درکار ہوگی،کیویز کے خلاف پہلا ٹیسٹ تو 17 نومبر سے شروع ہوگا، ذہنی اور جسمانی طور پر نئے امتحان کی تیاری کیلئے کافی وقت اور پریکٹس میچز میسر ہیں، ان کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صفیں ازسرنو درست کرنے کیلئے پلاننگ اور محنت کرنا ہوگی، ہیڈ کوچ مکی آرتھر اپنی عمر کے کافیسالآسٹریلیا میں گزار چکے، میزبان ملک کی کنڈیشنز اور ٹیم کے مزاج کو سمجھتے ہیں لیکن ان کے تجربے کا فائدہ تو کھلاڑیوں کو اٹھانا ہے، امید ہے کہ کھلاڑی کوچ کی باتوں پر کان دھرتے ہوئے اپنی بہتر کارکردگی سے ساکھ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے،یواے ای میں جدوجہد کرنے والی پاکستان ٹیم کے لیے کیویز کا ان کے گھر میں ہی شکار آسان نہیں ہوگا۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website