counter easy hit

جماعة الدعوة کا اجتماع اور بھارت کی چیخ و پکار

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر:علی عمران شاہین
سخت گرمی کا موسم، قحط سالی کے دنوں میں فصلیں کٹنے کو تیار اور سالار قوم نے حکم دے دیا کہ سب کے سب دنیا کی ایک سپرپاور سے ٹکرانے کیلئے تیار ہو جائو۔ امام المجاہدین محمد کریمۖ کی زبان اطہر سے الفاظ جاری ہونا تھے کہ جاں نثار سب کچھ چھوڑ کر، سب کچھ آقا کے قدموں میں ڈھیر کر رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ابتدائے اسلام سے اب تک کی 30ہزار کی سب سے بڑی فوج تیار تھی۔ لیکن ان میں ایک بڑی تعداد وہ تھی جن کے پاس تپتے صحرا میں سینکڑوں میل سفر کے لئے سواریاں نہ تھیں۔ امام المجاہدین محمد کریمۖ نے ایک ایک اونٹ پر باری لگا کر دس دس تک لوگوں کو مقرر کیا۔ پھر بھی کتنے تھے جن کے پائوں میں جوتے نہ تھے۔

کچھ کو جوتے میسر آئے تو فرمایا: جوتے پانے والا ایسے ہی ہے جیسے وہ سوار ہو… جاں نثار صحابہ اسی پر خوشی سے پھولے نہ سمائے… پھر بھی کتنے ایسے رہ گئے کہ جن کے پائوں بھی ننگے تھے… باری کی سواری بھی نہ تھی تو آنکھوں میں آنسو، ٹوٹے دل میں جہاد کے ارمان لئے، حسرت بھری نگاہوں سے اس لشکر جرار کو میدان کارزار کی جانب جاتا دیکھ رہے تھے۔ یہ وہ تھے جنہیں کوئی سبیل نہ پا کر روک دیا گیا تھا۔

یہ قافلہ منزلوں پر منزلیں مارتا شام کے علاقے تبوک پہنچا تو سپرپاور روم کے بادشاہ ہرقل جس نے بھاری فوج کو ایک سال کی ایڈوانس تنخواہ دیکر لڑنے کیلئے تیار کیا تھا، اس لشکر جرار کی قوت و ہیبت سے اس قدر لرزا کہ میدان کارزار میں اترنے کی ہمت نہ کر سکا اور پھر امام المجاہدین محمد کریم ۖ فتح کا پرچم لہراتے واپس مدینہ لوٹ آئے۔ پھر کیا تھا ؟سارا عرب آپ ۖ کی دعوت پہ لبیک کہنے کو تیار ہو گیا۔

تاریخ اسلام کا یہ انمول واقعہ کئی روز سے عین اس وقت رہ رہ کر یاد آ رہا ہے جب مینار پاکستان میدان میں جماعة الدعوة کے اجتماع کا اعلان ہوا تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ بھارتی میڈیا کا رو رو کر برا حال ہو گیا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔۔ پاکستان کے بارے میں الزام تراشیاں، ماتم، آہ و زاریاں، جماعة الدعوة کے زیر اثر کام کرنے کے بیانات، بدزبانی، بدکلامی، فریادیں اور نجانے کیا کیا…؟

3دسمبر کویخ بستہ رات بھیگنا شروع ہوئی تھی، جس شہر فون کیا، پتہ چلا کہ اندازوں سے کئی گنا بڑھ کر لوگ آ رہے ہیں اور ہر کوئی اپنے کام کے مصروف ترین دن چھوڑ کر، بس لاہور مینار پاکستان جانے کو بے چین ہے۔ اسی دوران میں مینار پاکستان کا رخ کیا… جہاں ایک نیا شہر آباد ہو چکا تھا… اجتماع گاہ کے چار اطراف بسوں، ویگنوں اور کاروں کی قطاریں لگی تھیں اور تینوں وسیع داخلی مقامات پر لوگوں کا ہجوم تھا۔

بتایا گیا کہ خواتین کی بستی و پنڈال لگ بھگ ایک دن پہلے ہی بھرنے والے ہیں۔ دوسری طرف ہزاروں شرکاء کو آتا دیکھ کر بدھ کی شام ہی اجتماع کی کارروائی کا بھی آغاز کرنا پڑا… نماز فجر سے پہلے تہجد کا اہتمام ہوا تو طویل سفر کرنے والوں میں سے کتنے ہی رب کے حضور سجدوں کیلئے کھڑے تھے۔ نماز فجر میں پنڈال کا بڑا حصہ بھر چکا تھا جبکہ چار اطراف سے سینکڑوں گاڑیاں قطاروں میں آ رہی تھیں اور ان کے ہزاروں شرکاء قافلہ در قافلہ جلد از جلد داخلہ کیلئے بے چین تھے کہ اجتماع کی کسی لمحہ کسی گھڑی سے وہ محروم نہ رہ جائیں۔ اجتماع کے چار اطراف اور قرب و جوار کی تمام پارکنگز آغاز کے ساتھ ہی بھر چکی تھیں تو گاڑیوں کو دور دراز روانہ کیا جانے لگا۔

پہلے روز کی دوسری بڑی نشست میں جب مولانا عبدالمجید آف ثمرباغ سوات اور مولانا غلام قادر سبحانی آف سندھ کے پشتو اور سندھی میں پرجوش خطابات ہوئے تو اندازہ ہوا کہ واقعی اس وقت پنڈال میں تو سندھ اور صوبہ خیبر سے آئے لوگوں کی ہی بھاری تعداد موجود ہے۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو اس سب سے بڑے میدان میں ہر ممکن طریقے سے بننے والا سب سے بڑے پنڈال کے باہر بھی لوگ رب کے حضور سربسجود تھے کہ اندر جگہ نہیں تھی۔ پھر اجتماع گاہ کا چکر لگانا شروع کیا تو لوگوں کی نقل و حرکت کیلئے چھوڑے گئے وسیع راستوں میں کھوے سے کھوا اچھل رہا تھا۔ باہم سلام کا تحفہ دیتے یہ لوگ پنڈال کی طرف بڑھتے نظر آتے اور داخلے کے لئے منتظرین کی قطاریں سڑکوں پر دور تک پھیلی دکھائی دیتیں…

پنڈال میں پہنچے تو ایمانی جذبوں کی الگ بہار دیکھنے کو ملتی کہ کرتے کرتے پہلے شام اور پھر رات ہوئی۔ اس رات دو بجے تک خطابات ہوئے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کا روح پرور پروگرام چلایا گیا۔ تھکاوٹ کو الوداع اور آرام طلبی سے کوسوں دور لاکھوں نگاہیں مسلسل سٹیج پر ٹکی نظر آئیں۔ صبح سے رات گئے تک گاہے گاہے ایمانی نعروں سے ماحول گونج اٹھتا۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کا پروگرام جاری تھا۔ وہ جنہوں نے جماعة الدعوة کی کاوش سے زندگی کی ڈوبتی نائو کو بچتا پایا تھا، آج آنکھوں میں آنسو لئے جذبات بیان نہیں کر پا رہے تھے۔

رات کے آخری پہر کے قریب مجلس برخاست ہوئی تو تھوڑی دیر بعد اذان تہجد نے اندرون اجتماع پائے جانے والے قدرے سکوت کو رب کی کبریائی کے ساتھ توڑ دیا تو لاتعداد لوگ رب سے مناجات و ملاقات کیلئے کھڑے تھے۔ نماز فجر ہوئی تو منظر ہی نیا تھا۔ لاکھوں لوگ ایمان و عمل کے پیکر حافظ عبدالغفار المدنی کی زبان سے جاری خوبصورت نصیحت آموز موتی چنتے اور دل و دماغ میں بساتے نظر آتے تھے۔ دل پگھلتے اور جسم رب کی بندگی کیلئے تیار ہوتے محسوس ہوئے۔ آنکھیں بہنے لگیں تو دل کو قرار محسوس ہوا۔ پھر وقفہ ہوا تو اگلی نشست کا آغاز چند خطابات کے بعد اجتماع کا ایک اہم سنگ میل یعنی مجاہدوں، غازیوں اور ان کے ورثاء کی نشست تھی، خدا کی خدائی میں خدائی کے دعویدار بھارت و امریکہ کے پنجوں اور جبڑوں سے رہائی پانے والے غازی جب اپنی اپنی داستان بیان کرتے تو چار اطراف تاحد نگاہ پھیلے ہجوم میں ایمان کی نئی بجلی کوند جاتی اور وہ سبھی اس راہ میں تن من دھن قربانی کرنے کو تیار دکھائی دینے لگتے…

گلہائے رنگا رنگ کا یہ نادر و نایاب گلدستہ تھا… عجب ستاروں سے سجی یہ ایک ایسی کہکشاں تھی کہ جسے مولانا نصرجاوید نے سجا یا تھا۔ ایسی مجلس اس میدان نی پہلے نہیں دیکھی ہو گی۔ تھرپارکرسے آئے ہندو نوجوان نے اسلام قبول کیا تو کسی ترغیب پر محض اجتماع دیکھنے آیا عیسائی نوجوان بھی قبول اسلام پر مجبور ہو گیا۔ پھر نماز جمعہ کا اعلان ہوا تو لاکھوں لوگ صفیں باندھ کر ساکت و جامد بیٹھے تھے کہ اب تو کلام نہیں اشارہ بھی منع ہے… پتہ چلا کہ کسی طرف جگہ نہ پا کر ایک بڑا ہجوم سٹیج پر آگے موجود ہے،

جو ہٹ نہیں سکتا کہ راستہ نہیں اور اجتماع گاہ کے چاروں اطراف اندر آنے کی نہ گنجائش ہے اور نہ راستہ، سو اب وہ حالت اضطرار آن پہنچی کہ رب کے بنائے قانون سے گنجائش کا راستہ نظر آیا اور پھر بادشاہی مسجد کے اندر تک پھیلے اس بحر بیکراں کیلئے اعلان ہوا کہ ”اس حالت میں جو جہاں ہے نماز ادا کرے، ادا ہو جائے گی” اب نماز جمعہ تھی اور رب کے حضور دعا کی گھڑیاں… سسکیاں بندھی تھیں… آنسو گر رہے تھے… دعائیں جاری تھیں… ایک عجب منظر تھا جو بیان سے بالا ہے…

پھر یہ شہر چھوڑنے کا اعلان ہوا… تو دل جیسے بجھ سے گئے ہوں کہ …اتنی رونقیں… ایسی بستی اور ایسے جذبے …شاید دوبارہ نصیب سے ہی مل پائیں… لوگ واپسی کیلئے تیار ہوئے تو رات کے آخری پہر بلکہ نماز فجر تک یہاں سے واپس جانے والوں کی گاڑیاں اور قافلے نکلتے اور گھروں کو جاتے دکھائی دیتے رہے کہ باری آئے تو آگے نکل پائیں۔

تبوک کی یادیں تازہ کئے اجتماع ختم ہو چکا تھا اور دشمن کے گھر پہلے سے بھی کہیں زیادہ ماتم بپا تھا۔ بھارت سرکھول کر پیٹ رہا ہے… بے بسی پر آنسو بہا رہا ہے کہ مجاہدین کشمیر بھی چڑھ دوڑے ہیں۔پاکستان بھی ان کے مخالفوں کے ساتھ مل چکا ہے… امت سکون میں اور دشمن تکلیف میں ہے اور تکلیف اب بڑھتی ہی جاتی ہے اور معاملہ تبوک جیسا ہی ہونے والا ہے۔ (ان شاء اللہ)

ًًً