counter easy hit

پاکستان کے پاس F-16 طیارے موجود ہیں مگر استعمال کے لیے کیا امریکہ کی اجازت درکار ہے

اسلام آباد:  2008ء میں امریکا سے 52؍ بلاک کے جدید ترین 18؍ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے والے پاکستان کے سابق ایئر وائس چیف مارشل (ر) شاہد لطیف نے دوٹوک الفاظ میں تردید کی ہے کہ اِس دفاعی معاہدے میں بھارت کے حوالے سے کوئی شرط شامل تھی۔   ریٹائرڈ ایئر وائس چیف مارشل کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاک فضائیہ کی جانب سے ڈپٹی چیف آف ایئر اسٹاف آپریشنز کی حیثیت سے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اپنے دفاع کیلئے اپنے ایف سولہ لڑاکا طیارے بھارت سمیت کسی بھی ملک کیخلاف استعمال کر سکتا ہے۔ اگرچہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ جاری حالیہ فضائی مقابلے کے دوران ایف سولہ لڑاکا طیارہ استعمال نہیں کیا تھا لیکن امریکا کا کہنا ہے کہ وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کہیں امریکا کے بنائے ہوئے ایف سولہ طیاروں کو استعمال کرتے ہوئے تو بھارتی طیارے نہیں کرائے گئے کیونکہ یہ ممکنہ طور پر امریکی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ میڈیا نے اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کا حوالہ دیا ہے، یہ بیان گزشتہ اتوار کو جاری کیا گیا تھا جس میں سفارت خانے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’ہم ان اطلاعات سے آگاہ ہیں اور مزید معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ ہم دفاعی ساز و سامان کے غلط استعمال کے الزامات کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔‘‘ پاک فضائیہ کے سابق ایئر وائس چیف چیف نے سخت الفاظ میں اس طرح کی کسی بھی شرط کی موجودگی کو مسترد کیا۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ اگر پاکستان کو یہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرنا تھے تو ہم یہ خریدتے ہی کیوں! انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی کھلونا نہیں چاہئے تھا، پاکستان اپنے دفاع کیلئے اپنے ایف سولہ طیارے بھارت سمیت کسی بھی ملک کیخلاف استعمال کر سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت نے گزشتہ ہفتے ایک دوسرے کیخلاف فضائیہ بمباری کی کارروائیاں کیں جس میں بدھ کو ہونے والی لڑائی میں بھارتی فضائیہ کے دو لڑاکا طیارے مار گرائے گئے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا، اس واقعے نے عالمی طاقتوں کو خبردار کر دیا اور جنگ کے خدشات پیدا ہوگئے۔ بھارت نے پاکستان کا ایف سولہ لڑاکا طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا لیکن پاک فوج کے ترجمان نے بھارتی دعویٰ مسترد کر دیا کہ بھارت نے پاکستان کے کسی لڑاکا طیارے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی بجائے انہوں نے انکشاف کیا کہ پاک فضائیہ نے حالیہ تنازع میں ایف سولہ طیارہ تو استعمال ہی نہیں کیا۔ تاہم، بعد میں بھارتی ماہرین نے بھی اپنی حکومت اور اپنے میڈیا کے اس دعوے پر سوالات اٹھا دیے کہ پاکستانی ایف سولہ کو بھارتی فضائیہ نے نشانہ بنایا تھا۔ امریکی ٹی وی چینل سی این این کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا ان اطلاعات کی جانچ پڑتال کر رہا ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ گزشتہ ہفتے ہونے والی فضائیہ کشیدگی میں امریکی ساختہ ایف سولہ طیاروں کا غلط استعمال کیا ہے۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں جوہری طاقت کے حامل دو پڑوسی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے سی این این کو بتایا ہے کہ وہ ’’ان اطلاعات سے باخبر‘‘ ہیں کہ ایف سولہ طیاروں کا استعمال ممکنہ طور پر معاہدے میں شامل شقوں کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے، اسلئے ہم یہ معاملہ ’’دیکھ رہے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس اِن واشنگٹن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکا میں متعین پاکستانی سفیر اسد مجید خان کا کہنا تھا کہ انہیں سولہ طیاروں کے مبینہ استعمال کے حوالے سے امریکا کی جانب سے کی گئی کسی درخواست کا علم نہیں۔ پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ ’’ایف سولہ کے حوالے سے مجھے نہیں معلوم، بھارت کئی دیگر معاملات کے حوالے سے بھی الزامات عائد کرتا رہتا ہے، ہم ہر ایک میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مجھے ایف سولہ کے حوالے سے امریکا کی جانب سے کسی درخواست کا علم نہیں۔‘‘ سی این این کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خریداری کے معاہدے کے حوالے سے امریکا معاہدے میں کچھ شرطیں شامل کرتا ہے کہ اس کا بنایا ہوا ساز و سامان کیسے استعمال کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ سی این این بھی وثوق سے نہیں کہہ پایا کہ آیا اس معاہدے میں کوئی شرط شامل تھی یا نہیں۔ اپنی رپورٹ میں سی این این کا کہنا تھا کہ ’’یہ واضح نہیں کہ پاکستان کو دیے گئے ایف سولہ طیاروں کے ساتھ کیا شرائط شامل تھیں۔‘‘ حتیٰ کہ سی این این بھی وثوق سے نہیں کہہ پایا کہ آیا اس معاہدے میں کوئی شرط شامل تھی یا نہیں۔ اپنی رپورٹ میں سی این این کا کہنا تھا کہ ’’یہ واضح نہیں کہ پاکستان کو دیے گئے ایف سولہ طیاروں کے ساتھ کیا شرائط شامل تھیں۔‘