counter easy hit

پاکستان ترقی و معراج کے عرش پر، برق و براق

Pakistan

Pakistan

تحریر: قاضی کاشف نیاز
کبھی عرش پہ کبھی فرش پہ کبھی اس کے در کبھی اِس کے در
اے غم عاشقی تیرا شکریہ مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا
اگر ہم اس شعر میں بدنام زمانہ عشق ناہنجار کے لفظ کی جگہ ”پاکستان” کا لفظ استعمال کریں توآج کل کے حالات میں زیادہ حسب حال ہے۔کیوں؟اس لیے کہ یہ پاکستان ہی ہے جس کی بدولت اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے ہم کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ کبھی ہم اِس کے در،کبھی اُس کے در،گویا دربدر لٹتے پٹتے رہے ، فرش پہ پڑے گھسٹتے رہے،بہت رسوا ہوتے رہے لیکن یہی پاکستان آج ہمیں ترقی کے عرش تک پہنچا چکا ہے، وہ کیسے؟ آپ حیران ہوں گے۔
اس حیرانی کو دور کرنے کے لیے آئیے پہلے پاکستان جیسی عظیم نعمت کی قدر و قیمت کاایک ہلکا سا ایمانی جائزہ لیں۔ یہ توہم سب جانتے اورمانتے ہیں کہ پاکستان دنیا کاوہ ملک ہے جس کے پاس دنیاکی ساتویں بڑی مایۂ ناز فوج ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان دنیا کی آٹھویں بڑی ایٹمی طاقت ہے۔

دنیاکے200ممالک میں پاکستان دنیاکی 24ویں بڑی معاشی طاقت ہے۔کپاس کی پیداوار میں پاکستان دنیامیں دوسرے نمبرپرہے۔ دودھ کی پیدوار میں ہم دنیامیں تیسرے نمبرپرہیں۔خوبانی کی پیداوار میں ہم دنیا میں تیسرے نمبرپرہیں۔پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 36واں بڑا ملک ہے اورزراعت کے لحاظ سے یہ دنیامیں سب سے آگے ہے۔ فنی مہارت رکھنے والی آبادی کے لحاظ سے اسلامی دنیامیں پاکستان ترکی کے بعد دوسرے نمبرپرہے۔کسی ایک جگہ سونے کی کان کاہم دنیا میں سب سے بڑا ذخیرہ رکھتے ہیںبلکہ بلوچستان کے بعد اب چنیوٹ میں لوہے اورسونے کے مزید بیش بہاذخائر کی دریافت سے پاکستان کے جلدایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل ہونے کے امکانات قریب ترہوگئے ہیں۔معاشی حوالے سے ہٹ کر دفاعی حوالے سے بھی دیکھیں توپاکستان اس لحاظ سے بھی دنیامیں ایک قابل رشک مقام پرہے۔ پاکستان دنیاکی آٹھویں بڑی ایٹمی طاقت توہے ہی اوریہ آٹھواں نمبر بھی ایٹمی دھماکے کرنے کی ترتیب اوروقت کے لحاظ سے ہے ‘ورنہ دنیامانتی ہے کہ پاکستان کی ایٹمی اور میزائل صلاحیت دنیاکی ساتویں ایٹمی طاقت بھارت سے بدرجہا بہتر ہے۔

28مئی1998ء کوپاکستان نے بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں6ایٹمی دھماکے کیے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کے دھماکے نہ صرف تعداد میں زیادہ تھے بلکہ طاقت میں بھی تین گنا زیادہ قوت کے تھے۔ابھی حال ہی میں شکاگو یونیورسٹی سے منسلک سائنسدانوں کی جاری شدہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں میں بھارت پرسبقت حاصل ہے۔پاکستان کے پاس 120 ایٹمی ہتھیارہیں جبکہ بھارت کے پاس 100ہتھیار ہیں۔اسیطرح پاکستان کی میزائل صلاحیت بھی ایک دنیامانتی ہے کہ یہ بھارت سے کئی گنابہترہے۔اس کااعتراف خود بھارتی ماہرین بھی کرتے ہیں اور صرف ایٹمی ومیزائل صلاحیت ہی کیا’پاکستان کی صرف فضائی صلاحیت کے بارے میں بھی خود بھارتی ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ یہ بھارت سے بہت بہتر ہے۔
بھارتی ویب سائٹ آئی بی این لائیو پرشائع شدہ رپورٹ کے مطابق بھارت کے دفاعی ماہرین کاکہنا ہے کہ پرانے روسی مگ’ فرانسیسی میراج طیاروں پرزیادہ انحصار کی وجہ سے بھارت کی فضائی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ نصف سے زائد بھارتی طیارے 2024ء سے قبل ناکارہ یاریٹائر ہوجائیں گے۔ تیجازنامی بھارتی ساختہ لڑاکاطیارے جن کاآئیڈیا 30سال قبل پیش کیا گیا تھا’ اس سال مارچ میں بھارتی ائیر فورس میں شامل کیے جائیں گے۔ ایک سابق بھارتی پائلٹ کاکہناہے کہ اب بہت دیرہوچکی ہے۔ یہ طیارے اب کسی کام کے نہیں ہیں۔ائیرفورس کے سابق افسرمرے کے سچدیونے 2014ء کے انڈین ڈیفنس ریویو جرنل میں لکھا ”ان طیاروں کی شمولیت پڑوسیوں کے سامنے اپنی توہین کے مترادف ہوگی۔

قارئین کرام!پاکستان کی مختلف دفاعی میدانوں میں بھارت پربرتری حاصل کرنے کاسلسلہ یوں تو کافی عرصہ سے جاری تھا لیکن اس بار2015ء کے ماہ مارچ میں پاکستان نے جیسے اس میدان میں ڈبل مارچ سے بھی تیز مارچ شروع کردیا۔ 9مارچ بروز سوموار پاکستان نے ایسے شاہین تھری بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا جس کی رینج 2750کلومیٹرہے اور اس سے نہ صرف پورا بھارت رینج میں آگیا بلکہ قطرمیں امریکی بحری بیڑا بھی اسی رینج میں شامل ہوگیا اوریوں پاکستان کی علاقے میںایسی برتری قائم ہوگئی جو پہلے کبھی شاہ ایران کے زمانے میں ایران کو حاصل تھی۔ اس تجربہ کوابھی چاردن نہ گزرے تھے کہ 13 مارچ بروز جمعة المبارک پاکستان نے خود اپنا تیار کردہ براق نامی ایسامسلح ڈرون تیارکرکے اس کامظاہرہ کیا جو ہرطرح کے موسم میں اپنے ساتھ برق نامی کئی لیزر گائیڈڈ میزائل لے جاسکتاہے۔
یہ یادرہے کہ براق ہمارے پیارے پیغمبرمحسن انسانیت حضرت محمدمصطفیeکی گھوڑا نما خاص سواری تھی جو جبرائیل امینuنے آپe کو معراج کی رات مہیا کی۔روایات کے مطابق براق کی رفتاراس قدر تیز تھی کہ وہ ایک قدم اتنی دور رکھتا جتنی دور نگاہ کام کرے۔اس براق پر بیٹھ کر نبی اکرمe نے مکہ سے بیت المقدس اور پھر بیت المقدس سے عرش کے قریب تک کاسفرپلک جھپکنے سے بھی پہلے طے کرلیا۔

آپeکے اس معجزہ سے کفرعجزو بے بسی میں ڈوب کر لاجواب ہوگیا جبکہ اہل ایمان کاایمان کئی گنااور بڑھ گیااورحضرت ابوبکرصدیقt جیسے صحابی صدیق اکبرt بن گئے۔ کفارہنستے تھے کہ یارغارابوبکرtنبی اکرمeکا یہ عجیب معجزہ سن کر فوراً اسلام سے تائب ہو جائیں گے کیونکہ ان کے نزدیک یہ بعید از عقل بات تھی کہ ایک شخص راتوں رات مکہ سے بیت المقدس ہوکرآجائے جبکہ عام طورپر یہ سفر دوماہ کاتھا۔لیکن سیدناابوبکرt نے کفار کو یہ دندان شکن جواب دے کر خاموش کردیا کہ اگریہ بات نبی کریم حضرت محمد مصطفیe نے فرمائی ہے توآپe کی بات غلط نہیں ہوسکتی۔(بیہقی) اسی کے بعد جناب ابوبکرt کالقب صدیق اکبرtہوگیا۔ آج نبی اکرمe کی اس سواری کے نام پر براق نامی ڈرون طیارہ بناکرپاکستان نے بھی ترقی و دفاع کا سفر معراج شروع کردیاہے ۔ نبی اکرمe نے جب براق پر برق رفتاری سے کیا ہوا اپناسفر معراج بیان کیا تو کفاربڑے ہنسے اور آپe کے اس سفر کابڑا مذاق اڑایا لیکن جب اس معجزہ سے اہل ایمان کا ایمان مزید مضبوط ہوا اور اسلام سے کوئی بھی تائب نہ ہوا تو کفارکی نیندیں حرام ہوگئیں۔ یہی صورتحال آج براق وبرق کی ایجاد سے پاکستان کے دشمنوں کی ہوچکی ہے۔ اس قدر برق رفتاری سے ہونے والی پاکستان کی ترقی نے ان کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ انہیں یقین نہیں آرہاکہ کہاں کل تک پاکستان امریکہ کی منتیں کرتا پھرتاتھا کہ یہ ڈرون ٹیکنالوجی ہمیں بھی دے دوتاکہ ہم اپنے دشمنوں کاقلع قمع خود اپنے ہتھیاروں سے کرسکیں لیکن امریکہ نے پاکستان کوہمیشہ کی طرح ٹھینگا ہی دکھایا جبکہ وہ اپنے پالتو بھارت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی سمیت ہرطرح کے اسلحے کی ٹیکنالوجی بے دریغ فراہم کرتا رہا۔

چنانچہ پاکستانی ہونہارانجینئرز نے اللہ کے فضل سے پہلے اپنے زوربازو سے ایٹمی اورمیزائل صلاحیت حاصل کر کے اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کیے اورپھرہر شعبے میں پاکستانی برتری کا یہ سفر مسلسل جاری رکھا۔ شاندار صلاحیتوں کے حامل جے ایف 17تھنڈر طیاروں کی فراہمی،جدید ترین ٹینک کی تیاری، بحری افواج کے لیے ایٹمی وغیر ایٹمی آبدوزوں کی اپ گریڈیشن اور اب میزائل بردار حملہ آور ڈرون طیارے ”براق” اورلیزر گائیڈڈمیزائل ”برق” کی تیاری نے پاکستان کے دشمنوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
13مارچ جمعة المبارک کو براق ڈرون کی کامیاب آزمائش کی گئی،اس کے ساتھ ساتھ لیزرگائیڈڈ تباہ کن میزائل برق کی بھی آزمائش کی گئی جو دویااس سے زیادہ تعداد میں براق میں نصب ہوسکتے ہیں۔
براق کے کامیاب اور ایمان افرو زتجربے کا مشاہدہ کرتے ہوئے پاکستان کے فنی ماہرین اوربری افواج کے اعلیٰ افسر وجوان اپنے اولوالعزم اور بہادر سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی سرکردگی میں بے ساختہ نعرہ ہائے تکبیر ہاتھ اٹھاکر فضامیں بلند کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ اس منظر نے پوری قوم کے خون کو گرما دیاہے۔ ڈرون طیاروں کی آزمائش جہلم میں ”ٹلہ کے تاریخی” فائرنگ رینج سے کی گئی’اس موقع پر براق ڈرون طیاروں کے بیڑے میں شامل درجنوں طیاروں میں سے ڈیڑھ درجن کی ایک ٹکڑی بھی دکھائی گئی جو پورے طورپرپرواز کے لیے تیار تھے۔ اس سے پاکستان کے دفاع اوراس کے لیے پرعزم قوم نے نئی تاریخ رقم کردی ۔ ان بمبار ڈرون طیاروں کی کامیاب اڑان نے ملکی دفاع کو نئے افق پر پہنچادیا۔ جنرل راحیل شریف نے جذبات سے سرشار سپاہی کی طرح پہلے ڈرون کے کمانڈر اینڈکنٹرول روم سے اس کے آپریشن کاجائزہ لیا۔ پھرمہارت کے اس شاندار نمونے کی پرواز اور کارکردگی کامظاہرہ دیکھا جس نے اپنے ہدف کو غیرمعمولی صحت سے نشانہ بناکر برباد کردیا۔ اس طرح امریکہ،روس اور اسرائیل کے بعد پاکستان چوتھا ملک بن گیاہے جس نے ڈرون بمبار طیارے کے ذریعے زمینی ہدف کوتباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔جنرل راحیل شریف نے سوفیصد صحیح نشانہ لگانے والے ڈرون بمبار طیارے کی تیاری اور کامیاب آزمائش پرپوری قوم اور اسے تیارکرنے والے قابل فخر سائنسدانوں،انجینئرزاور ماہرین کو پرجوش مبارکباد دی۔

بیس سے بائیس ہزار فٹ کی بلندی پرپرواز کرتے ہوئے یہ ڈرون طیارہ جس میں کوئی ہواباز نہیں ہوتا’اپنے زمینی کنٹرول کے نظام کی مدد سے اپنے ہدف پرعقاب کی طرح نگاہ رکھتاہے۔ڈرون طیارے کے کیمرے میں منعکس ہونے والاہدف کسی طورپربھی تباہی سے نہیں بچ سکتا۔ انٹرسروسزپبلک ریلیشنز(آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے واضح کیا کہ ڈرون سے فائر ہونے والے میزائل کے لیے ہدف ساکت ہویاحرکت کررہاہو’ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سڑک پر دوڑ رہی گاڑی یا دہشت گردوں کی کمین گاہ لیزر بیم سے رہنمائی حاصل کرنے والے میزائل کوجل نہیں دے سکتا۔
عام زندگی میں نرم دم گفتگو جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی اس بے مثال کامیاب آزمائش پرفرط جذبات سے نعرہ لگانے سے نہیں رہ سکے۔ بعدازاں جنرل راحیل شریف نے پوری قوم کودل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتے ہوئے اسے تاریخی فوجی کامیابی قرار دیاہے۔
انہوں نے یہ بھی یاددلایا کہ اپنے اپنے شعبے میں اہل وطن کوآگے بڑھناہے۔انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ سائنس دانوں،انجینئرز اورماہرین کی انتھک کوششوں سے دفاعی صلاحیت میں لگاتار اضافہ ہورہاہے ۔اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قابل لحاظ مددملے گی ۔ قوم اورماہرین کو مبارک دینے والوں میں وزیراعظم نواز شریف بھی پیش پیش تھے۔ یہ امرقابل تذکرہ ہے کہ ڈرون بمبارطیاروں کی تیاری کواپنے نظام الاوقات سے کم وبیش ڈیڑھ سال قبل ہی تیار کرلیاگیاہے۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق ان کی تیاری آئندہ سال کے آخرمیں ہوناتھی’ اس پرکام کی رفتار کوتیزکرکے یہ ہدف بہت پہلے حاصل کر لیا گیاہے۔دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کے ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی امریکہ کے زیراستعمال ڈرون طیاروں کی ہم پلہ ہے۔ بھارتی ماہرین اپنی سبکی کم کرنے کے لیے اسے چینی ڈرون CH-3کی نقل قرار دیتے ہیں حالانکہ معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کی صنعت ڈرون سازی کی تاریخ نئی نہیں۔براق نامی ڈرون طیارہ درآمد نہیں کیا گیا بلکہ پاکستانی سائنسدانوں انجینئروں نے شاہین بابر میزائیل کی طرح اسے خود ایجاد کیا ہے۔ جوپاکستانی ڈرون پہلے آرٹلری شوٹوں کے لیے استعمال ہوتے تھے’وہ بعد میں Improveہوکر سروے لینس(ہدف کی نشاندہی) کے لیے استعمال ہوئے اور آج سروے لینس سے آگے بڑھ کر مسلح ڈرونوں کے میدان میں اترچکے ہیں۔ پاکستان میں نہ صرف ہماری افواج بلکہ انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی ڈرونوں کی مخصوص اقسام کو حصول انٹیلی جنس کے لیے آپریٹ کررہی ہیںاور اب توپاکستان اس میدان میں اس قدر آگے بڑھ گیاہے کہ منگلا کینٹ میں اس صنعت ڈرون سازی کی جدید عمارتوں کی تعمیر کے ارتقائی مراحل پربھی حیران کن تیزی سے کام جاری ہے۔

Nuclear Power

Nuclear Power

دراصل پروپیگنڈے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سائنسدانوں، انجینئروں نے جدید ترین آر پی وی ( ڈرون) طیارہ براق بنا کر ڈرون ٹیکنالوجی میں بھارتی برتری ختم کردی ہے ،پاکستان کا آر پی وی (Remotely Piloted Vehicle) ڈرون طیارے کی ایجاد سے دوران جنگ او پی دشمن کے ٹینکوں، توپوں کے عقب میں اتارنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ پاکستانی ڈرون طیارے جو انتہائی بلندیوں پر دشمن کے علاقے میں جا کر پاکستانی میزائیلوں ،راکٹوں کو ٹھیک نشانوں پر گرانے میں کلیدی کردار ادا کیا کریں گے، آر پی وی ڈرون (براق) دشمن پر میزائیلوں کی ایسی بارش کرانے کی صلاحیت کا حامل ہے کہ یہ میزائیل درستگی کے ساتھ ٹارگٹ کو تباہ کرے گا ۔یہ براق دہشتگردوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب میں استعمال ہوا کرے گا، اس طرح پاکستا ن امریکی ڈرون کی طرح خود ہی دہشت گرد قیادت کو ملیا میٹ کر دیا کرے گا۔ علاوہ ازیں پاکستان کے ٹینک شکن لیزرگائیڈڈ میزائل برق کی رینج اتنی بنائی گئی ہے کہ یہ پاکستان کے بارڈر پر حملہ کرنے والے دشمن کے ٹینکوں اور توپوں کوبھی اس کے علاقے میں تباہ کر دیا کرے گا۔ بارڈر سے پاکستان کی زمینی حدود میں داخل ہونے کے لئے آنے والے دشمن کے ٹینکوں کو بکتر شکن لیزرگائیڈڈ برق میزائل دشمن کی سرحد کے اندر چار کلومیٹر دور ہی تباہی سے ہمکنار کر دیا کرے گا۔ پاکستان کے اس جدید ترین برق لیزرگائیڈڈ میزائل کے پاکستانی فوجی ماہر کے پاس خصوصی آپٹکس (OPTICS) ہوا کرے گی جو جدید ترین لیزرگائیڈڈ سسٹم کے ذریعے میل ہا میل دور جدید ترین مشاہداتی نظام کو استعمال کر کے فائر کیا کرے گا جس کی مدد سے برق لیزرگائیڈڈ میزائل دشمن کے یہ ٹھکانے سو فیصد درستگی سے تباہ کر دیا کرے گا۔ اورقارئین کرام!آخرمیں ایک اورخوشخبری! پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں ایک جدید ترین راڈارنے بھی بے پناہ اضافہ کردیاہے۔یہ جدیدترین راڈاردشمن کے ٹینک توپوں کے آنے والے فائر کاپتہ لگاکر پاکستانی ٹینکوں اور توپخانے کے فائرکودشمن کے اہم ٹھکانوں پر گرانے میں گائیڈنس (رہنمائی) دیاکرے گا۔اس جدیدترین راڈار کو ماہ رواں میں پاکستانی قوم کے سامنے لانے کافیصلہ کیا گیاہے۔ اب آخرمیں ہماری یہی دعاہے کہ آئیے ہم مل کر پاکستان کی قدرکریں۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں واقعی نعمتوں اورصلاحیتوں کے خزانے چھپا کررکھے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے چند لوگ جودشمنوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ‘انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ان کے سرغنہ بھارت کویاد رکھناچاہئے کہ محب وطن اہل پاکستان تمہاری سازشوں کوبھی سمجھتے ہیں اور ان کا ہرمیدان میں توڑ کرنابھی جانتے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ اہل پاکستان کو باہم لڑانے کی اپنی کمینی حرکتوں سے باز آجاؤ’کشمیر کو آزاد کردو’ہمارے دریاؤں کاپانی بند کرنا اور ان پر ڈیم بنانے چھوڑ دو ‘سیاچن اور سرکریک سے بھاگ جاؤ’ سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کو ہمارے حوالے کرو’بلوچستان اور فاٹامیں دہشت گردوں کی سرپرستی چھوڑدو۔پاکستان میں تخریب کاری کابازار گرم کرنابند کردو ورنہ…ورنہ یاد رکھو! ہمارے شاہین’بابر’غوری’غزنوی’حتف اور اب یہ بر ق و براق تم پربرق بن کر گریں گے اور تمہاری گاؤماتا کو چیر کر اس کی انتڑیاں بھی باہرنکال دیں گے۔ ان شاء اللہ

تحریر: قاضی کاشف نیاز