counter easy hit

بخت قفل کھولو

Sakoot Dhaka

Sakoot Dhaka

تحریر : افشاں علی
16دسمبر 1971ء میں پاکستان دولخت ہوا، اور سکوت ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا، جو پاکستان کے لئے بہت بڑا اورگہرا صدمہ تھا،اس سانحہ مشرقی پاکستان کے ٹھیک 43سال بعد اسی تاریخ یعنی 16دسمبر2014ء کوایک بار پھر پاکستان میں بزم ماتم بچھ گیا،جس نے پورے ملک کی فضا کوسوگوار کردیا،وہ ننھی سی جانیں ،وہ معصوم جگر گوشے جوعلم کی پیاس بجھانے حسب معمول مکتب میں موجودتھے،جن سے اہل خانہ کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں ،جوچمن کے پھول تھے،جو ملک کے مستقبل کے معمار تھے،انہیں بہت بے رحمی وبزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان بے نام دہشت گردوں نے علم ہی کی درسگاہ میں ابدی نیندسلا دیا ،پاکستان کے تابناک مستقبل کے روشن ستاروں سے محروم ہوا،وہیں سینکڑوں گھرانے تباہ ہوگئے، ستارے تھے اترے زمیں پرکشت وخون میں نہلائے گئے روشنی کام تھا جن کا پھیلانا وہ اندھیروں میں سلائے گئے سانحہ پشاور پر میڈیا خوب کوریج کرتا رہا،سیاسی لیڈراس سانحے کی مزاحمت کرتے رہے،لیکن وہ تڑپتی بلکتی مائیں وہ غم سے نڈھال جھکے کندھے لئے بیٹھے غمگین باپ ،وہ آنسوبہاتی ،سسکتی بہنیں ان سب کا پرسان حال کون ۔۔۔۔۔۔؟،ان کے جگرخراش دردکا،،ان پر بیتی قیامت صغریٰ کا مداوا کون کرے گا،یہ نام نہاد حکومت۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔

یہ پاکستان کے لئے باعث شرم مقام ہے کہ جہاں ایک طرف پاکستان کی رہائشی ملالہ کوامن کے نوبل انعام سے نوازا گیا ،وہیں دوسری جانب اسی ملک کے معصوم وبے قصور بچوں پر قاتلانہ حملہ ہوا اور سفاک دہشتگردوں نے انہیں شہادت کے سرافروزرتبے پر فائزالمرام مقررکردیا،،،عالمی دنیا میں اب پاکستان کا نام کن الفاظ میں تحریر ہوگا،؟،وہ ملک جواپنے مستقبل کے قیمتی سرمائے کی حفاظت نہ کرسکا،؟،وہ ملک جس کی دیواریں اتنی کھوکھلی ہوگئیں ہیں،کہ کوئی بھی اس میں گھس کر خون کی ہولی کھیل سکتا ہے،تف افسوس ،،،کراچی پرپے درپے حملے ہوتے رہے،لاہور،کراچی،کوئٹہ،پشاور ،الغرض پاکستان کا ہرچھوٹا بڑا شہر ان دہشت گردوں کا ٹارگٹ بن گیا،اور ہم نے نا جانے کتنی کروڑوں جانیں گنوا دی،یہاں تک کہ پچھلے ہفتے 16دسمبر بروزمنگل کوہم نے اپنے مستقبل کے سینکروں خوابوں کوتعبیر سے پہلے کھودیا،ان چمکتی کرنوں کوبجھا دیا،جنہوں نے آنے والے کل میں پاکستان کوروشن کرنا تھا،ہمارے میڈیا نے اس سانحے کوپورا دن نشرکیا،پورا دن سرخیاں چلتی رہیں،ہرچینل دوسرے چینل سے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں تھا،حالانکہ یہ نازک وقت اپنے چینلزکی ساخت کو ریزرویشن (RESERVATION)کرنے یا اپنے نمبرزبڑھانے کا نہ تھا،سوشل میڈیا نے بھی اس سانحے کوخوب بڑھاوا دیا،مختلف سوشل سائیٹس پر بھی اس سانحے میں شہیدہونے والے بچوں آرمی سکول کے اندرونی دل دہلا دینے والے مناظر،خون آلود درودیوار اوردیگر اشیاء کی تصاویروں کوخوب اپلوڈکیاگیا،سانحہ پشاور کے نام سے بلیک ڈے منایا گیا۔

ملک گیر ہرتال کی گئی،یہ سب سانحہ پشاور کے لئے کیا گیا،پر کسی نے یہ نہیں کہا یہ سانحہ پشاور نہیں سانحہ پاکستان ہے،یہ سانحہ انسانی ہے، یہ قربانیاں صرف ان والدین کی نہیں ہم سب کی ہیں،ہمارے بڑے حکومتی عہدیدارتقریر واجلاس کرتے رہے، شہداء کے نام 5لاکھ اورزخمی افراد کے نام 2لاکھ کی امداد کا اعلان کرتے رہے،جووہ ہمیشہ کرتے آئے ہیں،سینکڑوں جانیں لقمہ اجل بن گئیں اور ان حکومتی عہدیداروں کے وہی گھٹے پسے پرانے دعویٰ۔۔۔۔۔۔یہ ملکی تاریخ کا نازک ترین موڑ ہے ،ملک کے مستقبل پر حملہ ہوا ہے،یہ وقت تقریروں کا نہیں ،یہ وقت سوگ منانے کا نہیں،ہرسال اسی تاریخ کوصرف بلیک ڈے منانے کا نہیں ،یہ وقت ہڑتالیں کرنے ،MQM,PTI,PPP,ANPودیگرسیاسی جماعتوں کی نعرے بازیوں ودھرنوں کا نہیں،بلکہ یہ وقت تو متحدہوکر جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا ہے،ان دہشتگرددشمن عناصر کوڈٹ کرجواب دینے کا ہے،پاکستان میں برپا ہوئی قیامت صغریٰ کومیڈیا کے زریعے پوری عالمی دنیا میں دیکھایا وپھیلایا وبتایا گیا کیا یہ عمل صحیح تھا؟،کیا یہ ہمدردی وافسوس ظاہر کرنے کا مئوثرطریقہ ہے؟،نہیں بلکہ یہ تو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے،ہم پوری دنیا ودہشتگردوں کو بتلا ودکھلا رہے ہیں،کہ ہم کتنے کمزور ہوچکے ہیں،کہ ہمارے دشمن ہمارے ملک میں ہی گھس کرہماری تباہی کا سامان کررہے ہیں،اورہم انہیں نیست ونابود کرنے کی بجائے ،صف ماتم کررہے ہیں،ماضی کے گزشتہ کئی سالوں میں پاکستان نے بہت سے گھمبیر موڑ دیکھے،لیکن عوام اور حکومت نے ان حالات سے سبق سیکھنے اور متحد ہونے کے بجائے تیرا،میرا کرتا رہے۔

حکومت عوام کو لوٹتی رہی ان کے جذبات کے ساتھ کھیلتی رہی،حکمرانی عہدیدارVIPپروٹوکول لئے گھومتے رہے،ملکی وغیرملکی دورے کرتے رہے،اورعوام دردسے بے حال بھوکی تڑپتی رہی اور سڑکوں پرنکل کر ہرتالیں کرتی رہی،پران سب میں نقصان کسی کا ہوا؟،ہمارے ہی ملک کا۔۔۔!،گزشتہ دنوں ایک نجی چینل پر سرخیوں کی ذدمیں بتایا گیا،کہ بارک اوبامابھارت کے نوبل انعام یافتہ کیلاش ودھارتی ودیگر ملکوں کی نامی گرامی شخصیات نے بھی سانحہ پشاور کی مزاحمت کی ہے،توکیا یہ مزاحمت سننا شرمناک بات ہے،نا کہ قابل فخر۔۔۔۔۔ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے ملک کو رسوا وبدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں،برصغیرکے مسلم نامور رہنماء سرسیداحمدخان اور علامہ اقبال نے جس قوم کو بیدار کرنے کے لئے ہزاروں جتن کئے آج وہی قوم پھر سے سوچکی ہے،سیاستدانوں کو دھرنوں سیا ور۔۔۔حکومت کو اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں،اور عوام تھالی کے بینگن کی مانند یہاں وہاں لڑھک رہی ہے،اگرایسا ہی چلتا رہا تووہ وقت دورنہیں جب ایک بار پھر سے یہ آزاد قوم غلامی کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی نظرآئے گی،1947ء کوجہاں ایک طرف ایک نیا ملک پاکستان معرض وجود آیا،وہیں 1945ئمیں ایک بنا بنایا ملک جاپان تباہ حال ہوا،دیکھا جائے تو ان سرسٹھ سالوں میں پاکستان کے برعکس جاپان پھر سے مستحکم ملک بن کر منظرعام پر آگیا،یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اب بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں سرسٹھ سال پہلے جہاں سے سفرشروع کیا تھا،انڈیا ،روس،اور امریکہ کہنے کوتو پاکستان کے دوست ہیں،مگر یہ دوست نما دشمن ،لکڑی میں لگی دیمک کی مانند پاکستان کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کررہے ہیں،تاکہ پاکستان اندرونی طور پر کمزور وآپسی جنگ کرکے چکنا چور ہوجائے،کہیں معاشی قرضے کی آڑ میں کہیں اندرون شہردھماکو ں کی صورت اپنے ایجنڈوں ودہشت گردوں کی صورت ،توکہیں سرحدوں پرموجود جوانوں کوجام شہادت کی صورت یہ ہمیں توڑرہے ہیں،یہ دشمن ہمیں بلوچی،سندھی،پنجابی،مہاجر،پٹھان سمجھ کرنہیں بلکہ ہمیں مسلم پاکستانی سمجھ کر حملہ کررہے ہیں،اگرروس ،امریکہ،اسرائیل،اور انڈیا چار چار الگ الگ زبانوں ومذاہب سے تعلق رکھنے والے ممالک وقوم ایک ہوسکتی ہیں توکیا ہم زات پات،نسل، قبیلے، سنی، شیعہ، سندھی، پنجابی،بلوچی،مہاجر،پٹھان ان سب تفریقات کوبھول کرایک نہیں ہوسکتے؟،جبکہ ہمارا ملک،ہمارا مذہب، ہمارا دین،ہمارا خدا،ہمارا کلمہ سب ایک ہے،یہ واقعی غورطلب بات ہے۔

یہ دہشت گرد آخرہیں کون؟طالبان۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟،جس طرح ہربیماری کینسرنہیں ہوتی،ہرمسئلہ پاگل پن نہیں ہوتا،اس طرح ہرحملے کا ذمہ دار طالبان کیوںاور کیسے ہوا؟؟؟،اگرایک انسان کودس بار یہ کہا جائے کہ یہ تم نے کیا ہے پرہربار اسکا جواب انکار ہوتے ہوئے بھی گیارہویں بار بالاخر وہ حامی بھرہی لیتا ہے،تاکہ بار بار کی سنوائی سے جان چھوٹے ۔۔۔۔بالکل اسی طرح طالبان بھی بارہا خودسے ہی اعتراف کرلیتے ہیں ،ہراس جرم وواقعہ کا جواسکے زیریں ہوا ہوہا نہ ہوا ہو،اور ہم بھی ہربار سب کچھ حکومت وفوج کے کھاتے میں ڈال کرطالبان کو موردالزام ٹھہرا کر بری الزمہ ہوجاتے ہیں،ہر داڑھی والا طالبان اور دہشت گردہی کیوں؟؟۔ہماری حکومت ہرواقعہ کے بعد ایک دو لوگوں کوسزائے موت دے کر اپنا فرض ادا کردیتی ہے،اور پھر سے وہی بے حس کی بے حس۔۔۔۔۔چور کواگرچوری کرنی ہوتواس کی نظرمطلوبہ گھرکے ہرکونے ہردرودیوارپرہوتی ہے،وہ منتطر ہوتا ہے اس پہرکا جب مکین خواب وغفلت میں کھوجائے اوروہ باآسانی اپنا کام کر سکے، اور اگر ایسا نہ ہوتو وہ مکینوں کوگمراہ کرنے کے لئے گھرکے اگلے حصے پروار کرکے ان کا دھیان بٹا کر پچھلے حصے سے اپنا کام کرجاتا ہے،کچھ ایسا ہی حال ہمارے ملک کے دشمنوں کا ہے،وہ ہمیں گمراہ کرنے کو بہت سے پینترے آزماتا ہے،ہمارے بیچ ”تباین”پھیلاتا ہے، اور اپنا کام کر جاتا ہے،ہم طالبان ،طالبان،القاعدہ کرتے رہتے ہیں،اور وہ ہمارا دھیان بٹا کر ہم پروار کرجاتا ہے،تاریخ گواہ ہے برصغیر پر سالوں حکومت کرنے والے اسلامی حکمرانوں کے زوال کے اسباب میں سے کچھ وجوہات یہ بھی تھیں،کہ وہ اپنی غفلت کے زیرسایہ ملک میں ہوتی سازشوں اور سراٹھاتی بغاوتوں کوسراسرنطراندازکرتے رہے اور اسلامی تعلیمات سے دورہوتے چلے گئے،اور بالاآخر ان کی حکومت زوال پزیر ہوئی،آج کے حکمران جو واقعی نام کے مسلمان ہیں جنہیں قرآنی سورہ و آیات کی ٹھیک سے قرات وتلاوت تک نہیں آتی ہے،وہ بھی کچھ ایسے ہی خواب خرگوش میں سوئے ہوئے ہیں،جوواقعی ملکی حالات وسازشوں سے باخبر ہوتے ہوئے بھی لاعلم بنے بیٹھے ہیں،اس غافل حکومت سے کسی بھی قسم کی امیدرکھنا بیکار ہے،کیونکہ ان کی نام نہاد کوششیں واقدام آٹے میں نمک ملانے کے برابر ہی ہیں،ہمارا ملک ٹوٹ ٹوٹ کر کرچیوں میں بکھررہا ہے،اور یہاں کی عوام کوسڑکوں پر دھرنے دینے سے فرصت نہیں ،کیا یہ کسی ملک کی ترقی پزیر قوم کی نشانی ہے؟،کیا ترقی یافتہ ملکوں کی اقوام ایسی ہوتی ہیں؟؟، ”جاگو پاکستانی جاگ جائو۔۔۔۔”اس سے پہلے کہ اور مائیں اپنے لال کھودیں اس سے پہلے کہ اور باپ اپنے بازو کھودیں،اس سے پہلے کہ پاکستان کی روشن شمع بجھ جائے،پاکستان کے سبزہلالی پرچم کا ہلال احمر سازشوں وخون کی سیاہی تلے غروب ہوجائے،جاگ جائو اپنے ضمیرکواپنے ذہن کو تعصب کی زنجیروں کی قید سے آزاد کرلو،اپنی آنکھیں کھول کرصحیح سمت کا تعین کرلو،اور متحدہوکر ایک پاکستانی مسلم قوم بن کر سامنے آئو،جس میں اتنی طاقت ہوگی کہ جب مسلمہ مٹھی بھر دہشتگرداس چٹان نما مضبوط پاکستانی قوم سے ٹکرائے توریزہ ریزہ ہوکر بکھرجائے،اور ان کے ناپاک عزائم پاش پاش ہوجائیں،اگر سینے میں ایمان وتقویٰ کی دولت لئے ذہن میں عزم لئے،ہاتھوں میںیکجہتی وعلم کی شمع لئے،ہماری قوم صراط مستقیم پر چلے،توان مٹھی بھر کمزور وبزدل دہشت گردوں ودشمنوں پرفتح یقینا ہمارے ملک پاکستان کی ہوگی،بقول اقبال
”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا”۔

اب وقت بیداری ہے اس لئے ہم عوام کو مل کر کھڑا ہونا ہوگا،حکومت کے جھوٹے من گھڑت دعوئوں اور دھوکے سلوکے کوچھوڑ کراپنی مددآپ کے تحت اپنے ملک کو،اپنے ملک کے شہروں ،صوبوں، علاقوں اور کونے کونے کو ان دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے،کوئی دراڑان دشمنوں کے لئے نہیں چھوڑنی کہ وہ ہم پر وار کریں،آئیے ہم متحدہوکر اپنے ملک کو اس مدوجزرسے باحفاظت نکالیں دہشت گردوں کیخلاف جہاد کریں،ان کے عزائم ناکام بنائیں،انہیں منہ توڑ جواب دے کر ثابت کریں،کہ ہم حکومت کی طرح بزدل وکمزور نہیں ۔۔۔۔!،ہم کروڑوں پاکستانی مل کر بہت کچھ کرسکتے ہیں،بشر ط یہ کہ ہم آپسی لڑائی بھول کر متحدہوجائیں۔!!

Afshan Ali

Afshan Ali

تحریر : افشاں علی