counter easy hit

افغانستان میں ایک فوجی کے قتل کے بدلے ایک لاکھ ڈالر

ویب ڈیسک — امریکہ میں انٹیلی جنس حکام نے جمعرات کو کانگریس کے اہم ارکان کو اس بارے میں بریفنگ دی کہ انھیں افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملے کے لیے عسکریت پسندوں کو روس کی مبینہ پیشکش کے بارے میں کیا معلوم ہے اور کیا نہیں معلوم۔

دوسری جانب نیویارک ٹائمز نے افغان حکام کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ روسی خفیہ ایجنسی نے افغان عسکریت پسندوں کو امریکی یا اتحادی فوجی کو قتل کرنے کے بدلے ایک لاکھ ڈالر تک کی پیشکش کی تھی۔ اس معاملے میں ایک افغان اسمگلر مڈل مین کا کردار ادا کررہا تھا۔

واشنگٹن ڈی سی میں جمعرات کو سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہیسپیل اور نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر پال نیکاسون نے کانگریس کے آٹھ اہم ارکان سے ملاقات کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ قانون سازوں کو انٹیلی جنس حکام سے براہ راست مبینہ روسی منصوبے کے بارے میں سننے کا موقع ملا۔

اس سے پہلے ان الزامات کے بارے میں نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف، قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن اور وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز بریفنگ دیتے رہے تھے۔ ہر بار ان تینوں کا کہنا تھا کہ منصوبے روسی منصوبے کے متعلق اطلاعات مصدقہ نہیں جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔

اوبرائن نے یہ بھی کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس اس بارے میں غور کررہا ہے کہ اگر معلومات مصدقہ ثابت ہوئی تو ممکنہ طور پر کیا ردعمل دیا جائے۔ ان کے الفاظ تھے کہ ہم کئی مہینوں سے آپشنز پر کام کررہے ہیں۔ اگر الزامات کی تصدیق ہوئی تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ صدر ٹرمپ سخت کارروائی کریں گے۔

لیکن خود صدر ٹرمپ نے بدھ کو مبینہ روسی منصوبے کو پہلے ٹوئیٹر پر اور پھر فوکس بزنس نیوز کو انٹرویو میں افواہ کہہ کر مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی اس بارے میں نہیں سنا کیونکہ اس بارے میں قابل بھروسہ انٹیلی جنس معلومات نہیں ملی۔ میرا خیال ہے کہ یہ اخبارات اور ڈیموکریٹس کی پھیلائی ہوئی افواہ ہے۔

“No corroborating evidence to back reports.” Department of Defense. Do people still not understand that this is all a made up Fake News Media Hoax started to slander me & the Republican Party. I was never briefed because any info that they may have had did not rise to that level
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) July 1, 2020

بعض حالیہ اور سابق طالبان نے مبینہ روسی منصوبے کو حقیقی قرار دیا ہے۔ غزنی کے طالبان کمانڈر مولانی بغدادی نے بزنس انسائیڈر کو بتایا کہ انفرادی طور پر کمانڈرز روسی انٹیلی جنس سے رقوم اور ہتھیار لیتے رہے ہیں۔ یہ جرائم پیشہ گروہ ہیں جن کی وجہ سے ہماری ساکھ خراب ہوتی ہے۔

نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ سے اس کی تائید ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ درمیانے درجے کا ایک افغان اسمگلر رحمت اللہ عزیزی روسیوں سے رقوم وصول کرنے اور عسکریت پسندوں کو پہنچانے میں ملوث رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق رحمت اللہ عزیزی کا تعلق قندوز سے ہے جس نے پہلے پہل ایران میں منشیات اسمگل کرنے کی کوشش کی۔ اس کام میں ناکامی کے بعد افغانستان میں تعمیراتی منصوبوں کی جانب توجہ کی جن کے لیے اتحادی اقوام رقوم فراہم کررہی تھیں۔ عزیزی نے قندوز میں سڑکیں بنانے کے ٹھیکے حاصل کیے۔ پھر اس کا رابطہ روسیوں سے ہوگیا۔

رحمت اللہ عزیزی کو جاننے والے بتاتے ہیں کہ اس کا روس آنا جانا شروع ہوا تو اس کے طور اطوار بدل گئے۔ وہ نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدنے لگا، محافظ ساتھ رکھنے لگا اور چار منزلہ بنگلہ بنالیا۔

چھ ماہ پہلے افغان سیکورٹی حکام نے کئی چھاپے مار کے عزیزی کی رشتے داروں اور ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ اس کے گھر سے پانچ لاکھ ڈالر کی رقم بھی برآمد ہوئی۔ لیکن وہ نہیں ملا اور خیال ہے کہ اس وقت روس میں ہے۔

امریکی انٹیلی جنس حکام سمجھتے ہیں کہ مبینہ منصوبہ روس کی خفیہ ایجنسی جی آر یو کے یونٹ 29155 کا تھا جو بیرون ملک قتل اور دوسرے کام کرنے کا ذمے دار ہے۔

کانگریس کو اس ہفتے فراہم کی گئی دستاویزات میں لاکھوں ڈالر کی ادائیگیوں کا ذکر ہے اور ان میں سے کئی عزیزی کو کی گئیں۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ امریکی اور اتحادی اہداف کو نشانہ بنانے پر ہر فوجی کی ہلاکت پر ایک لاکھ ڈالر تک کی پیش کی گئی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website