counter easy hit

غذائی قلت ہماری نالائقی

ہماری کاروباری حکومت بڑے زراعتی ملک میں ایک بار پھر غذائی اشیا کی قلت کا شکار ہو گئی ہے اور اس بار پیاز اور ٹماٹر کی قلت نے حکومت کو پریشان کر دیا ہے اور اس بات پر ایک بار پھر غور شروع کر دیا گیا ہے کہ پیاز اور ٹماٹر بھارت سے منگوا لیا جائے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے لندن سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے متعلقہ افسران کو حکمت عملی تیار کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ ہمارے اخبار کے رپورٹر رضوان آصف نے حکومتی اقدامات کے متعلق تفصیلی خبر میں واہگہ کے راستے بھارت سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کھولنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

خبر کے مطابق پاکستان میں پیاز کی پیداوار کے لحاظ سے بلوچستان سب سے اہم ہے لیکن حکومت کی زرعی مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان کے کسان مسلسل خسارے کا شکار رہے ہیں جس کی وجہ سے اس دفعہ انھوں نے کم رقبہ پر فصل کاشت کی جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے وقت ہونے والی بارشوں کے باعث فصل خراب بھی ہو گئی اسی طرح ٹماٹر کی فصل میں بھی کمی ہوئی جس کا اثر براہ راست عام آدمی پر پڑا اور مارکیٹ میں طلب و رسد کے خراب توازن کی وجہ سے بنیادی ضرورت کی ان دونوں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا، اب حکومت متبادل ذرایع سے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کرنے جا رہی ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ حکومتی دعوؤں کے مطابق کسان دوست پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جس کا کسانوںکو بہت فائدہ ہو رہا ہے لیکن اصل صورتحال اس کے برعکس ہے اور مارکیٹ میں اجناس کی قیمتیں بلند سطح پر ہی رہتی ہیں ۔ حکومت چھوٹے کسانوں کو فصل کی بوائی کے موقعہ پر آسان شرائط پر قرضے تو فراہم کر رہی ہے لیکن ان کسانوں کو منڈیوں میں فصل کی کاشت کی بھی قیمت نہیں مل رہی اور ان کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے ایک تو وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں دوسری طرف انھوں نے اجناس کی مطلوبہ قیمتیں نہ ملنے سے پیداوار بھی کم کر دی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ان غذائی اشیا کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ پچھلے سالوں کے دوران بھی بھارتی پنجاب سے خاص طور پر ٹماٹر درآمد کیے جارہے تھے لیکن بعد ازاں کسانوں کی جانب سے احتجاج پر اس کی درآمد بند کر دی گئی تھی تا کہ وہ منڈی میں اپنی فصل کی بہتر قیمت حاصل کر سکیں۔

ایک بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود ہر سال ہمیں کسی نہ کسی غذائی جنس کی کمی کا سامنا رہتا ہے اور ہم وہ مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں کر پاتے جس کی مارکیٹ میں ضرورت رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کمزور زرعی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے کسان مشکلات کا شکار رہتا ہے اور وہ صرف اتنی ہی فصل کاشت کرتا ہے جس سے اسے اس کی جنس کی مطلوبہ قیمت مل سکے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ فصل کی برداشت کے موقع پر تو اجناس کی بہتات ہوتی ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں بھی کمی ہو جاتی ہے کیونکہ روز مرہ استعمال کی اجناس چونکہ جلد خراب ہو جاتی ہیں اس لیے کسان کو منڈی میں جو قیمت مل رہی ہوتی ہے وہ اسی پر فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اس کا براہ راست فائدہ آڑھتی اٹھاتا ہے اور سستے داموں خریداری کر کے اسی وقت اس کو مہنگے داموں فروخت کر دیتا ہے اور اپنا منافع کما لیتا ہے۔

دراصل ہماری صنعتکار حکومت نے ملک کے اس اہم اور سب سے بڑے زرعی شعبے کی ترقی اور بحالی کی طرف کم ہی توجہ دی ہے جس کی وجہ سے کسانوں میں بددلی پھیلی ہوئی ہے اور وہ ملکی ضروریات کے مطابق اجناس کی پیداوار نہیں کر پا رہے اور وجہ وہی ہے کہ ان کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے جو کہ وہ اپنے دوسرے اثاثہ جات جن میں مویشی شامل ہوتے ہیں کی فروخت سے پورا کرنے پر مجبور ہیں۔

اس اہم ترین شعبہ کو حکومت کی جانب سے قرضوں کے بجائے سبسڈی دینے کی ضرورت ہے جو کہ ضرورت کے مطابق پیداوار میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ کسانوں کو زرعی آلات ، ڈیزل ، کھاد اور بجلی کے بلوں میں مزید رعاتیں دینے سے پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور کسان اس جانب راغب ہوں گے کہ وہ ملکی ضرورت کے مطابق اجناس کاشت کریں جس سے ملک کی ضروریات بھی پوری ہوں اور کسانوں کے حالات بھی بدلیں ۔ دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات ہی اس شعبہ کو فعال کر سکتے ہیںاور آج کل کے دور میں زرعی پیداوار ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس سے نہ صرف زرمبادلہ کی بچت ہوتی ہے بلکہ اگر پیداواری لاگت کم ہو جائے تو اپنی اجناس بیرون ملک بجھوا کر برآمدات میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

زرعی پالیسیاں اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ زرعی اجناس کی خریدو فروخت کے معاہدے ہی زرعی ترقی کی بنیاد ہیں لیکن بدقسمتی سے کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی اور ہر سال جب کسی جنس کی کمی ہو جاتی ہے تو ہم ہنگامی بنیادوں پر اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں اگر یہی اقدامات پہلے سے ہی کر لیے جائیں تو نہ تو غذائی اشیا کی قلت ہو گی اور ہمیں ان کی قیمت بھی مناسب ادا کرنا پڑے گی اور عوام کو بھی یہ ارزاں نرخوں پردستیاب ہوں گی لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم ہمسایہ ممالک سے انھی اشیا کی اسمگلنگ شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں قلت بدستور موجود رہتی ہے اور ناجائز منافع خور اپنا کام کر جاتے ہیں ۔ فیکٹریوں اور ملوں کے منافع سے لدے پھندے صنعتکار حکمرانوں کو کسانوں کے لیے کسان دوست پالیسیاں ترتیب دینی ہوں گی ورنہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک غلط پالیسیوں کی وجہ سے بنجر ہو جائے گا اور ہم اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کے مرہون منت ہو جائیں گے۔ دنیا میں کئی ملکوں نے اس مشکل پر قابو پا لیا ہے تو پاکستان کیوں نہیں پا سکتا جو سب سے زیادہ باوسائل ملک ہے۔