counter easy hit

مہربان خدا

Umrah

Umrah

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وہ میری قیمت بڑھا رہا تھا ۔ وہ پو ری کو شش کر رہا تھا کہ مجھے خرید سکے اُسے اپنی دولت کا اتنا زیادہ نشہ یا زعم تھا کہ وہ ہر خوشی خریدنے پر تُلا ہوا تھا میری خا موشی اور انکار کے بعد وہ میری قیمت بڑھا دیتا پہلے تو اُس نے ڈائریکٹ مجھے پیسے دینے کی کوشش کی میرے انکا ر پر اُس نے شاپنگ کر انے عمرہ کر انے لندن کا ٹکٹ مہنگی گاڑی مو بائل سیٹ اور پتہ نہیں کیا آفر کئے جا رہا تھا میں اُسے سپاٹ گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا میںآج صبح جیسے ہی دفتر پہنچا تو کا لے رنگ کی جہازی گا ڑی میں تقریبا 50 سالہ یہ شخص اپنے محا فظوں کے ساتھ مجھے ملنے آیا تھا اِس نے آتے ہیں مجھے مختلف ترغیبات دینی شروع کر دی تھیں میں خا موشی سے اُس کی حماقتوں کو بر داشت کر رہا تھا جب اُس نے اپنی چرب زبانی اور آفروں کا مثبت جواب نہ پا یا تو اچانک اُس نے بڑے نوٹو ں کی دو تین گڈیا ں زبردستی مجھے دینے کی کو شش کی میں اُس کی اس بے باکی کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا ۔

اُس کی اِس حرکت سے میرا صبرکا پیمانہ چھلک پڑا میرے لہجے کی مستقل شفقت اور نر می رخصت ہو گئی اور غصے کا رنگ میرے چہرے پر اُتر آیا میں نے سختی سے اُس کے پیسوں والے ہا تھ کو جھٹک دیا اور کہا کہ آپ کی بد تمیزی اور بکواس اب میری بر داشت سے با ہرہو چکی ہے میرے رویے کی تلخی اور جا رحیت سے وہ گھبرا گیا اور پا نی پینے لگا میں نے ایک با ت نوٹ کی تھی وہ جب سے میرے پا س آیا تھا قطرہ قطرہ پا نی تھوڑے تھوڑے وقفے سے پی رہا تھا اُس کے بار بار پا نی پینے سے مجھے الجھن ہو رہی تھی ۔ اب میں نے اُسے غصے سے کہا آپ کے پا س اگر بہت زیا دہ دولت ہے تو مُجھ فقیر کے پا س کیا لینے آئے ہو جا کر دولت سے سب کچھ خرید لو اب وہ گھبراہٹ خوف اور شرمندگی میں ڈوب رہا تھا اب اُس نے اپنا لہجہ بدلا اور معافیاں ما نگنی شروع کر دیں کہ مسلسل بیما ری سے میری ذ ہنی حالت ٹھیک نہیں ہے آپ مجھے معاف کر دیں لیکن آپ میری بیماری دور کر دیں میں اس کے بدلے میں بے شمار دولت آپ کے قدموں میں ڈھیرکر دوں گا ۔ اب وہ سراپا سوالی دامن ِ مراد پھیلائے کشکول بنا میری طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ اب مجھے اُس پر غصے کی بجائے رحم آنا شروع ہو گیا تو میں نے اُس سے بیما ری کے با رے میں پو چھا تو اُس نے بتا یا کہ چند سالوں سے اُس کو پرا سرار سی بیماری لگی ہو ئی ہے میرے منہ میں تھو ک یعنی Salivaنہیں بنتا میں اپنے منہ کو تر رکھنے کے لیے با ر بار قطرہ قطرہ پا نی ڈالتا رہتا ہوں میں کو ئی بھی چیز نہیں کھا سکتا مجھے با ر بار پا نی منہ میںانڈیلنا پڑتا ہے ۔

میں اپنی اِس بیماری کے لیے پا کستان ، ملائیشیا ، سنگا پور ،دبئی یو رپ امریکہ اور بے شما ر ملکوں میں چکر لگا چکا ہوں لیکن میری اِس بیماری کا علاج آج تک مجھے نہ مل سکا دنیا جہاں کی Laboratories ، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے بعد حکیموں ہر بل ڈاکٹروں کے بعد اب میں روحانی علاج کے سلسلے میں دربدر بھٹک رہا ہوں ۔ میں اِس بیماری کے علاج کے لیے لا کھوں روپے لگا چکا ہوں لیکن مجھے کہیں سے بھی افاقہ نہیں ہوا میں ارب پتی انسان ہوں چند سال پہلے دولت کے نشے میں چور میں نے فخریہ طور پر اپنی فیکٹری کے ملازم کو بیماری کے لیے پیسے نہیں دئیے اُس کی بے عزتی کی تو اُس غریب نے کہا تھا کہ جناب اگر کبھی آپ بیمار ہوں تو آپ کو پتہ چلے تو اُس وقت میں نے سوچا تھا کہ میں ہر بیماری کا علاج پیسے کے زور پر کرا سکتا ہوں اور پھر وہ لمحہ قدرت کی گرفت میں آگیا اورمیں اِس بیماری کا شکا ر ہو گیا پھر میں نے دولت کے بل بو تے پر اِس کا علاج کرا نے کی سر توڑ کو شش کی لیکن ہر کو شش میں نا کا می اور شرمندگی ہی میرا مقدر بنی ، اِسی سلسلے میں آج میں آپ کے سامنے سوا لی بن کر بیٹھا ہوں ۔

اِس شخص کو دیکھ کر مجھے کئی سال پہلے دنیا کا امیرترین آدمی یو نا نی اوناسس یا د آگیا جو دنیا کی سب سے بڑی جہا ز رانی کمپنی کا مالک تھا اُس کے اور بھی کا روبار تھے اُس کی بے پناہ دولت کے چرچے پو ری دنیا میں افسانوی حیثیت اختیا رکر گئے تھے یہاں تک کہ امریکہ کی خا تون اول جیکولین کینڈی نے بھی اُس سے شادی کی اوناسس اپنے وقت کا ڈریم پر سن تھا اُس کو عالمی شہرت حاصل تھی اُس نے مرنے پر ایک ٹیلی ویژن چینل نے اُس پر دستاویزی فلم بنا ئی جس میں ایک انکشاف نے پو ری دنیا کو لرزا کر رکھ دیا اُس کے زوال اور بے بسی پر اہل دنیا حیران رہ گئے کہ دنیا کا امیر ترین آدمی ایک عجیب پراسرار بیما ری کا شکا ر تھا خدا ئے بزرگ و بر تر خا لق بے نیاز نے اُس کو اُس کی اوقات اِس طرح یا د دلا ئی کہ اُس کی پلکوں کے اعصاب جوا ب دے گئے بیما ری اِس حد تک بڑھ گئی کہ وہ اپنی مر ضی سے اپنی پلکوں کو اٹھا نہیں سکتا تھا دنیا جہاں کے قا بل ترین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں میں دھکے کھا ئے اور شفا نہ پا نے کے بعد ڈاکٹروں نے لا علا ج قرار دیا اب دن کے وقت اُس کے پپوٹوں پر سلو شن ٹیپ لگا دی جا تی جس کے لگا نے سے دن بھر اُس کی آنکھیں دیکھ سکتی تھیں دن گزرنے کے بعد رات کو و ہ ٹیپ اتار دی جا تی تو پلکیں اُس کی آنکھوں پر گر جا تی اور وہ نیند میں ڈوب جا تا اگلے دن دوبا رہ اُس کو ٹیپ لگا دی جا تی اب قدرت دن رات اُس کو بے بسی کے طمانچے ما رتی یہ تمہا ری اوقا ت ہے

اِسی فلم میں اوناسس سے پو چھا گیا کہ تم دنیا کے امیر ترین شخص ہوکیا تمھاری کوئی ایسی خواہش ہے جو ابھی تک نہ پوری ہوئی ہو تو اوناسس بہت دیر سوچنے کے بعد بو لا کا ش میں صرف ایک بار اپنی پلکوں کو اپنی مر ضی سے حرکت دے سکوں اٹھا سکوں پھر اوناسس سے پو چھا گیا کہ تم اپنی اس خوا ہش کو پو را کر نے کے لیے کیا قیمت دے سکتے ہو تو وہ حسرت سے بو لا اپنا سب کچھ اپنی سا ری دو لت دے سکتا ہوں اوناسس کی طرح آج کا ارب پتی بھی بے بسی کے کے ٹو پر کھڑا اپنی دولت خدا کی معمولی نعمت پر وارنے کو تیا ر تھا ۔ اُس رحمن رحیم کر یم سوھنے رب کا کرم ملاحظہ ہو کہ ہم اپنی پلکیں آسانی سے خو د اٹھا تے ہیں کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ صرف پلکوں کا ایک با ر اٹھا نا کتناقیمتی ہے کہ اربوں روپے اِس نعمت کے لیے قربا ن کئے جا سکتے ہیں ۔ ستر ما ئوں سے زیادہ شفیق رب نے ہمیں لا زوال نعمتوں کے خزانوں سے بھر پور نوازا ہے ایک معمولی نعمت ایسی کہ دنیا میں اُس کا کو ئی بدل نہیں جو مالک بے نیاز نے ہمیں مفت اور آسانی سے دے رکھی ہیں اگر اِن نعمتوں میں سے اگر کو ئی کم ہو جا ئے تو ہم دن رات ایک در سے دوسرے در تک اُس کو حاصل کر نے کے لیے دوڑیں لگا تے ہیں اپنی زندگی بھر کی کما ئی لٹا نے کو تیا ر ہو جا تے ہیں ۔

اُس رحمن رحیم نے ہم پر اپنی نعمتوں کی بر سات کی ہو ئی ہے ہما را جسم رب ذولجلال کا شا ہکار ہے جب ہم اپنے جسم اور نظاموں پر غور کر تے ہیں تو اُس کی رحمت پر اش اش کر اٹھتے ہیں ایک دل کو ہی لیں کس طرح سا ری عمر خو د کا ر مشین کی طرح دھڑکتا رہتا ہے دن رات سو تے جا گتے اپنی ڈیو ٹی احسن طریقے سے سر انجام دیتا ہے دل ایک دن میں ایک لا کھ تین ہز ار چھ سو اسی مر تبہ دھڑکتا ہے اور اگر کسی اندرونی تبدیلی کی وجہ سے دھڑکنوں کی تر تیب کم یا زیادہ ہو جا ئے تو ہم زندگی کی با زی ہا سکتے ہیں ۔ ہم دن رات کھا تے پیتے ہیں دنیا جہاں کی نعمتوں سے لطف انداز ہو تے ہیں اور اگر کسی وجہ سے ہما ری آنتوں کی حرکت رک جا ئے یا مثانہ پا نی نکا لنے سے انکا ر کر دے تو زندگی کتنی خو فناک ہو جا ئے اِس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے میرے پا س جب بھی ایسے مریض آتے ہیں جن کی آنتیں کاٹ کر معدے کے منہ پر نا لی لگا کر سا ئیڈپے پلا سٹک کا تھیلا لٹکا دیا جا تا ہے اب سارا دن فضلہ اُس تھیلے میں جمع ہو تا رہتا ہے اور مریض سارا دن اُس تھیلے کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہو تا ہے آپ تصور کر سکتے ہیں جن کی ہڈیاں ٹوٹ جا ئیں اُن کے با زوئوں اور ٹانگوں پر پلستر لٹکا کر ہا تھ پا ئوں با ندھ دیے جا تے ہے انسان جو ساری رات کروٹ پر کروٹ لیتا ہے اب کروٹ جیسی نعمت سے بھی محروم ہو جا تا ہے پو ری میڈیکل سائنس ڈاکٹر، Laboratories، اور ہسپتال زبان جیسا آلہ بنانے سے قاصر ہیں جو لیموں کی تر شی اور آم کی مٹھاس کو جان کر فرق محسوس کر سکے ۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956