counter easy hit

کراچی کی نائٹ پارٹیاں : مگر ان پارٹیوں میں دراصل ہوتا کیا ہے ، کمروں اور چابیوں کی کہانی کیا ہے ؟ اندر کے حالات سے واقف ایک شوقین نے انکشافات کی لائن لگا دی

کراچی (ویب ڈیسک) کراچی میں پولیس نے ’ڈرٹی پارٹی‘ کے منتظم کو گرفتار کر لیا ہے، جس پر الزام ہے کہ اس نے ایک فیس بک پیج بنا کر اس پارٹی میں شرکت کی پیشکش کی جس میں بیوی یا ساتھی کا تبادلہ کیا جا سکتا تھا۔ڈرٹی پارٹی کا فیس بک پر پیج سامنے آنے کے بعد
سوشل میڈیا اور بعد میں بعض اخبارات میں اس پر تنقید کی گئی اور بالآخر کلفٹن پولیس ملزم تک پہنچ گئی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں نامور صحافی ریاض سہیل لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کے مطابق ایس پی کلفٹن سہائی عزیز نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے اپنے ایک مخبر کے ذریعے ٹکٹ کی خریداری کی اور ملزم کو 15 ہزار روپے کی ادائیگی بھی کی۔ اس کے بعد ایک دوسرے مخبر کے ذریعے رابطہ کیا کہ پارٹی کب ہے تو اس نے کہا کہ کوئی پارٹی نہیں ہے میں دھوکہ دے رہا ہوں۔ پولیس نے اسے اس کے رابطہ نمبر سے ٹریک کر کے گرفتار کیا۔ ملزم ارسلان قمر دو دیگر افراد سے بھی پیسے لے چکا تھا جو اس نے ایزی پیسہ کے ذریعے حاصل کیے۔ پولیس کے مطابق تحقیقات میں ایزی پیسہ میں بھی ملزم کے نمبر اور انگوٹھے کا نشان آ رہا تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پارٹیز عام ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف رہتی ہے۔ ایس پی سوہائی عزیز کا کہنا ہے کہ ہم ’مورل پولیسنگ‘ نہیں کریں گے کیونکہ یہ سب کا اپنا ذاتی فعل ہے، تاہم پارٹی اگر ڈانس پارٹی ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر پارٹی کا مطلب ہے کہ اس میں آئس، چرس، کوک و دیگر منشیات استعمال کی جائیں گی تو یہ قابل قبول نہیں۔
گرفتار ارسلان قمر ایونٹ مینیجر ہیں اور وہ اس سے قبل بھی پارٹیاں منعقد کر چکے ہیں۔ ایس پی سوہائی کے مطابق ایک تو یہ دھوکہ دہی تھی دوسرا یہ بہت غیر اخلاقی اقدام تھا کیونکہ ساتھی کا تبادلہ انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے اور ہماری معاشرے میں بھی قابل قبول نہیں۔ پولیس کو یقین ہے کہ ملزم نے کبھی ’وائف سواپنگ‘ یا ’سوئینگنگ پارٹیز‘ کا انعقاد نہیں کیا، لیکن اس میں لوگوں کی دلچسپی ضرور موجود ہے۔ کراچی میں متعدد کلب، ہوٹلز کے علاوہ فارم ہاؤسز پر پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کراچی یا ملک کے دیگر شہروں میں سوئنگنگ پارٹیز ہوتی ہیں؟ ایس پی سوہائی عزیز کہتی ہے کہ ایسی کوئی پارٹی نہیں ہوتیں۔ انیس سو اسی کی دہائی میں پی ٹی وی لاہور کے پیش کردہ ڈرامے جانگلوس میں بھی ایک مقام پر ساتھیوں کا تبادلہ دکھایا گیا ہے۔ شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ڈرامے کو بعد میں نامعلوم وجوہات پر بند کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کے ایک انگریزی روزنامہ میں نومبر 2016 میں مشورے کے شعبے میں ایک لڑکی کا خط شائع ہوا تھا جس میں اس نے بتایا کہ وہ تعلیم یافتہ اور امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اس کا نکاح ہوچکا ہے اور دسمبر میں رخصتی ہے۔ لڑکی کے مطابق وہ دونوں ایک دوسرے کو ایک طویل عرصے سے جانتے ہیں لیکن حال ہی میں اس کو معلوم ہوا کہ اس کا شوہر سوئینگنگ کا شوق رکھتا ہے۔ جو اس سے ہضم نہیں ہو رہا لہذا وہ علیحدگی چاہتی ہے۔
ایک غیر ملکی جریدے میں شائع ہونے والے ایک ذاتی اکاؤنٹ میں ایک شخص جو بقول اس کے اسی کی دہائی تک کراچی میں سوئنگنگ پارٹیاں منعقد کرتا تھا اپنی آخری پارٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ پارٹی 1980 کی دہائی میں رکھی گئی تھی جس میں گھر کو مغل اسٹائل میں سجایا گیا تھا۔ ’مائی سیکس لائف ان پیرس‘ کی مصنف سائرہ میر نے بھی انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں 1970 میں ’کی کلب‘ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔کراچی میں پارٹیوں میں شریک ایک نوجوان نے بتایا کہ سوئگنگ پارٹیاں زیادہ تر بیس سے چالیس افراد پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان پارٹیوں میں لوگ زیادہ تر ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور اسے ’کی کلب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ’ایک گھر، کلب یا ہوٹل میں کمرے بک کرائے جاتے ہیں اور باہر ان کی چابیاں موجود ہوتی ہیں جو تقسیم کر دی جاتی ہیں، اب اس کمرے میں جو خاتون یا مرد ہے وہ ساتھی بھی نکل سکتا ہے یا کوئی اور بھی۔‘ ’بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ تمام گاڑیوں کی چابیاں ایک جگہ جمع کر دی جاتی ہیں وہ چابیاں خواتین میں تقسیم ہوجاتی ہیں وہ ان گاڑیوں میں جا کر بیٹھ جاتی ہیں اور مرد حضرات اپنی گاڑیوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں ایک دوسرا ساتھی مل جاتا ہے۔‘ پاکستان میں شادی کے بغیر کسی سے جنسی تعلقات رکھنا جرم ہے اور بعض اوقات تو پولیس شادی شدہ جوڑے سے بھی نکاح نامے کا تقاضا کر لیتی ہے۔