counter easy hit

امریکی صدر پاکستان کے ساتھ کیا کرے گا؟ٗ امریکی ماہرین کا عجیب و غریب دعوٰی

new-us-presidents-committment-for-pakistan-american-analysts-claimed

new-us-presidents-committment-for-pakistan-american-analysts-claimed

واشنگٹن(نیوز ایجنسیاں) امریکی ارکان کانگریس کو ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنیوالی ریاست قرار دے کر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بیک فائر ہوسکتا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں پاکستان امریکا تعلقات کے حوالے سے ہونیوالی بحث کا مسودہ جاری کردیا گیامسودے کے مطابق کمیٹی کے چیئرمین باب کورکر نے اپنے افتتاحی بیان میں افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپس کو شکست دینے میں پاکستان کے مبینہ طور پر عدم تعاون پر مبنی رویے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کورکر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر بین کارڈن نے اجلاس کے شرکاء سے پوچھا کہ پاکستان کو تعاون پر مجبور کرنے کے لیے امریکی ارکان کانگریس کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔اجلاس میں شریک جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیئل مارکی نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کے حوالے سے پالیسی میں بڑی تبدیلی جیسے امداد کی بندش، دہشت گردوں کی معاونت کرنے والی ریاست قرار دینا یا پابندیاں عائد کرنے سے قبل ارکان کانگریس کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ایہ اقدامات کس طرح امریکا کے اسٹریٹجک مفاد میں بہتر ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ کانگریس کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسے اقدامات بیک فائر کرسکتے ہیں، اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی تعمیری ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی خواہش کو نقصان پہنچے۔ڈینیئل مارکی نے کہا کہ موجودہ صدر براک اوباما کے مقابلے میں نیا آنے والا امریکی صدر پاکستان کے حوالے سے پہلے سے زیادہ جابرانہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ’ہمیں پاکستان کی امداد مکمل طور پر بند کرنے کے بجائے اس میں کمی اور تشکیل نو پر غور کرنا چاہیے اور اس عمل کے دوران امریکا کو واضح شرائط اس طریقے سے سامنے رکھنی چاہئیں کہ امریکی اور پاکستانی عوام اسے سمجھ سکیں۔کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے شریک ڈائریکٹر توبی ڈیلٹن نے کمیٹی کے سامنے وضاحت پیش کی کہ امریکا کو کیا کرنا چاہیے اور امریکا کیا کرسکتا ہے ان دو باتوں میں بہت فرق ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام میں پیش رفت نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ جب سے پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام شروع کیا اس وقت سے امریکا نے اسے روکنے کی بہت کم کوشش کی، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ماضی میں پابندیوں اور مراعات کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں؟امریکی کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے اسلام آباد میں تعینات رہنے والے سابق اسٹیشن منیجر روبرٹ ایل گرینیئر نے کمیٹی کو بتایا کہ 1993 اور 1994 میں پاکستان ان ممالک کی امریکی فہرست میں تقریباً شامل ہو ہی چکا تھا جنہیں امریکا نے دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک قرار دیا تھا تاہم امریکی قومی مفادات کی وجہ سے واشنگٹن اس وقت یہ فیصلہ نہیں لے سکا۔سینیٹر باب کورکر نے یاد دلایا کہ رواں برس مئی میں سینیٹ نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی خریداری کیلئے فنڈز کے اجراء کو روکنے کا حکم دیا جو میرے خیال سے مناسب اقدام تھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے امریکی حکومت اور ارکان کانگریس کی مایوسی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ شدت پسند تنظیم حقانی نیٹ کے رہنما پاکستان میں موجود ہیں اور حکومت پاکستان یہ جانتی ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں تاہم ان کے خاتمے کیلئے وہ امریکا کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ان باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ اگر یہ شدت پسند فاٹا میں ہوتے تو ہم ڈرون طیاروں کے ذریعے انہیں نشانہ بناسکتے تھے لیکن یہ لوگ نواحی علاقوں میں ہیں اور ہم وہاں ایسا نہیں کرسکتے۔سینیٹر کارڈن نے نشاندہی کی کہ پاکستان کو امریکی فنڈز سے ایف سولہ طیاروں کی خریداری سے روکنا خاصہ مشکل کام تھا اس حوالے سے ہونے والی مشاورت میں کئی پہلوؤں پر غور کیا جارہا تھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے تاہم امریکا کو پاکستان کیس اتھ تعلقات پر اب بھی سنگین خدشات ہیں کیوں کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں کافی محدود دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے کہاکہ امریکا نے ماضی میں امداد کا اجراء کارروائیوں سے مشروط کیا تاہم اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔سینیٹر کارڈن نے استفسار کیا کہ وہ کونسے طریقے ہیں جنہیں ہم بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے رویے میں تبدیلی لاسکتے ہیں؟سینیٹر ڈیوڈ پرڈیو نے پوچھا کہ اگر اس سوال کا جواب پیسہ نہیں تو پھر کیا ہے؟ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اجلاس میں شریک تینوں ماہرین نے اس بات کا اتفاق کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ شراکت داری اب بھی بامقصد ہے۔انہوں نے کہا کہ 11 ستمبر 2001 سے اب تک پاکستان کو دیے جانے والے 19 ارب ڈالر میں سے صرف 8 ارب ڈالر سیکیورٹی مقاصد کے لیے تھے ٗ11 ارب ڈالر انسانیت کی فلاح کے لیے دیے گئے۔سینیٹر نے کہا کہ جہاں تک رقم کی فراہمی کی بات ہے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ جب ہم 30 کروڑ ڈالر یا اس کا نصف روک لیں گے جو ہمیں رواں سال پاکستان کو دینے تھے تو پاکستان کا کیا رد عمل ہوگا۔پروفیسر مارکی نے بتایا کہ پاکستان کو دی جانیوالی امریکی امداد کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا جائے۔پہلی کیٹیگری میں ان معاملات کو رکھا جائے جو ہماری خواہش ہے اور پاکستان کی خواہش ہے ٗدوسری کیٹیگری میں وہ چیزیں شامل کی جائیں جو پاکستان اور امریکا کی مشترکہ خواہش ہو لیکن پاکستان اسے مختلف طریقے سے کرنا چاہتا ہو ٗ تیسری کیٹیگری میں ان پہلوؤں کو شامل رکھا جائے جہاں ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کام کرے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کام نہیں کررہے۔پروفیسر مارکی نے کہا کہ ہم نے امداد کو یہ سوچ کر روکا کہ چیزیں تبدیل ہوں گی تاہم ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کیا کہ ہم ان کے ساتھ شراکت داری چاہتے ہیں ٗ اسی لیے ہم نے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے تاہم اتنا ضرور کیا کہ جو کام وہ نہیں کررہے اسے کے پیسے بھی نہیں دے رہے۔انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے ہم انہیں وسیع پیمانے پر معاونت فراہم کررہے ہیں جو کسی کھاتے میں شامل نہیں اور یہ توقع کررہے ہیں کہ ہم اسے بطور ہتھیار استعمال کرسکیں گے، ان کا رویہ تبدیل کرسکیں گے، اس طرح ان میں تبدیلی آنے والی نہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website