counter easy hit

نئی صورتحال

New situationمعروف کالم نگار اور ٹی وی اینکر جاوید چوہدری زیادہ پڑھنے، زیادہ سوچنے اور زیادہ لکھنے والے انسان ہیں۔ اُن اینکرز میں سے نہیں جو چھتری سے اتر کر ٹی وی اسکرین پر قبضہ جما بیٹھے ہیں بلکہ پرنٹ میڈیا سے طویل وابستگی کی وجہ سے وہ ہر لفظ کے استعمال اور اس کے اثرات سے بخوبی واقف ہیں۔ اردو زبان پر اُن کا عبور قابلِ رشک ہے اور اُن کے ہاں مجھ جیسوں کی طرح کبھی الفاظ کی کمی واقع نہیں ہوتی، اِس لئے جو کہنا چاہتے ہیں، اُس کے لئے موزوں سے موزوں الفاظ کا چنائو کرنا جانتے ہیں۔16 اور 17مئی کو چیئرمین نیب جاوید اقبال کے ساتھ اپنی ملاقات کی روداد پر مبنی ان کے کالم پڑھے تو میں حیران رہ گیا۔ حیرانی اس بات پر تھی کہ اِس نازک موڑ پر چیئرمین نیب ایسی باتیں کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن ساتھ ہی ذہن میں آیا کہ اگر یہ باتیں اُنہوں نے نہیں کیں تو پھر جاوید چوہدری جیسے سمجھدار لکھاری کیوں کر اُن سے منسوب کر سکتے ہیں؟ دل کو تسلی دی کہ شاید جاوید چوہدری کو روزہ لگ گیا تھا اور اُنہوں نے آف دی ریکارڈ گفتگو مبالغہ کرکے تحریر کی ہے لیکن پھر جب نیب کی پہلی تردید نما وضاحت سامنے آئی تو مجھے کسی حد تک یقین ہوگیا کہ گفتگو آف دی ریکارڈ نہیں تھی بلکہ جان بوجھ کر چیئرمین نیب نے چوہدری صاحب کے ذریعے اپنے خیالات عوام اور خواص تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم پھر بھی کسی حد تک زہن میں یہ شک رہا کہ شاید جاوید چوہدری صاحب نے کسی حد تک مبالغے سے کام لیا ہے لیکن اگلے روز اُن کالموں کے اثرات کو کنٹرول کرنے یا سمیٹنے کے لئے جاوید اقبال صاحب نے جو لمبی چوڑی پریس کانفرنس کر ڈالی، اُس کے بعد تو میرا وہ شک بھی دور ہوگیا ہے اور مجھے پکا یقین ہوگیا کہ انہوں نے وہی کچھ کہا ہے جو جاوید چوہدری نے لکھا ہے۔ ایک گھنٹے سے زائد وقت پر محیط اس غیرروایتی پریس کانفرنس میں انہوں نے نہ تو جاوید چوہدری کے ساتھ ملاقات کی تردید کی، نہ یہ فرمایا کہ انہوں نے آف دی ریکارڈ گفتگو کو آن دی ریکارڈ بنا کر تحریر کیا ہے اور نہ کالموں کے مندر جات کی دلائل کے ساتھ تردید کی۔ انہوں نے اپنا طویل خطاب تو کرڈالا لیکن سوالات کا جواب دینے کی ہمت کی اور نہ اپنے طویل خطاب میں ان ایشوز کی طرف آئے جو جاوید چوہدری کے کالموں کے بعد زبان زدعام تھے جبکہ دوسری طرف جاوید چوہدری اپنے کالموں کے ایک ایک لفظ کی صداقت پر اصرار کررہے ہیں اور ٹی وی ٹاک شوز سمیت ہر فورم پر جاکر اپنے موقف کا کھل کر دفاع اور ہر طرح کے سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔

چیئرمین نیب جاوید اقبال نے جو کچھ جاوید چوہدری کے ذریعے چھپوا کر قوم تک پہنچایا (ان کی یہ اپنی خواہش اس لئے تھی کہ چوہدری صاحب نے وقت نہیں مانگا تھا بلکہ چیئرمین صاحب نے انہیں خود طلب کیا تھا۔ یہ چوہدری صاحب کا دعویٰ ہے جس کی نیب کی طرف سے تردید نہیں ہوئی) اس سے چند نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔

پہلا نتیجہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ واقعی قومی احتساب بیورو کو پولیٹکل مینجمنٹ کے لئے استعمال کیا گیا۔ انہوں نے جاوید چوہدری کو مختلف سیاسی رہنمائوں کے بارے میں جو کچھ بتایا اور پھر اگلے روز پریس کانفرنس میں جس طرح اسے دہرایا، وہ کسی محتسب کے نہیں البتہ ایک سیاسی نظریے کی تشریح دکھائی دیتے ہیںمثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ حکومت کے اتحادیوں کے خلاف بھی کیسز تیار ہیں لیکن ان پر ہاتھ اس لئے نہیں ڈالا جارہا کہ اس سے حکومت گر جائے گی اور ملک میں خوفناک بحران پیدا ہوگا۔ حالانکہ جج اور محتسب تو کبھی نتائج کا نہیں سوچتے۔ اگر جج یہ سوچتے تو پھر کیا کوئی جج یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کو سزا سنا سکتا تھا؟ تاہم ان کا موقف یہی ہے کہ قومی مفاد میں حکومت گرانا مناسب نہیں ہو گا۔

دوسرا نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیاستدانوں کی عزت کے بارے میں خیال نہیں کیا جاتا۔ جن الفاظ میں انہوں نے آصف علی زرداری، پرویز خٹک اور شہباز شریف وغیرہ کو یاد کیا ہے، اس سے عیاں ہوتا ہے کہ دوسروں کے وقار اور عزت کے بارے میں وہ کس قدر غیرحساس ہیں۔

تیسرا نتیجہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا پیمانہ سب کے لئے ایک نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ ”پرویزخٹک کی صحت سے ڈرتا ہوں۔ یہ اگر گرفتار ہوئے اور اگر انہیں کچھ ہوگیا تو نیب مزید بدنام ہوجائے گا“۔ سوال یہ ہے کہ یہ خیال انہیں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی گرفتاری کے وقت کیوں نہیں آیا؟

چوتھا نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کو تکبر کی بیماری نے بھی آگھیرا ہے اور نرگسیت کے بھی شکار ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری جس دن انکوائری کے لئے پیش ہوئے تو ان کی ٹانگیں اور ہاتھ لرز رہے تھے۔ اسی طرح ہنس کر کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف اس وقت جیل میں ہیں اور میں آج بھی چیئرمین نیب کی کرسی پر بیٹھا ہوں۔ حالانکہ یہ متکبرانہ الفاظ زبان پر لاتے ہوئے ان کو سوچنا چاہئے تھا کہ وہ اسی آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے حکم پر ان کے دو وفاداروں یعنی سید خورشید شاہ اور شاہد خاقان عباسی کےدستخطوں سے ہی چیئرمین نیب کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔

پانچواں نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پورا سچ بھی نہیں بولتے ہیں، جو کسی صورت ان کا شیوہ نہیں ہونا چاہئے۔ جاوید چوہدری کے بقول چیئرمین نیب نے انہیں بتایا کہ شہباز شریف ان سے ایسی ڈیل کرنا چاہ رہے تھے جس میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا شامل تھا۔ اب ظاہر ہے کہ شہباز شریف اتنا تو جانتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو وزیراعلیٰ بنانا کس کے بس میں ہے اور کس کے بس میں نہیں۔ پھر ان کے معاملات عدالتوں میں ہیں تو کیا شہباز شریف یہ بھی نہیں جانتے کہ چیئرمین نیب عدالتوں میں کچھ نہیں کرسکتے؟ انہوں نے اگر این آر او مانگنا تھا تو چیئرمین نیب سے کیوں مانگتے؟

نیب اور چیئرمین نیب نے جو وضاحت کی ہے وہ کافی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کمزور وکٹ پر ہیں، حکومت بھی انہیں ہٹانا چاہتی ہے اور وہ خود بھی اپنے دوست نہیں۔