counter easy hit

دریائے سندھ کی تہذیب سے متعلق نئے انکشافات

فرانس سے تعلق رکھنے والے آثار قدیمہ کے ماہرین کی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر اروری ڈائڈیئر خطاب کرتے ہوئے—۔فوٹو/ ڈان
فرانس سے تعلق رکھنے والے آثار قدیمہ کے ماہرین کی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر اروری ڈائڈیئر خطاب کرتے ہوئے—۔فوٹو/ ڈان

کراچی: فرانس سے تعلق رکھنے والے آثار قدیمہ کے ماہرین کی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر اروری ڈائیڈیئر کا کہنا ہے کہ ضلع بے نظیرآباد میں چانھیوں جو دڑو کے مقام پر کھدائی کا سلسلہ کامیابی سے مکمل ہوچکا ہے جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ علاقہ دریائے سندھ کی تہذیب کا اہم کاروباری مرکز تھا۔خیال رہے کہ 2015 کے بعد سندھ کے مشہور تاریخی مقام پر کھدائی کا یہ دوسرا موقع تھا، اس کا آغاز جنوری میں ہوا، جس میں مختلف جامعات کے طالب علم نے حصہ لیا، جبکہ اس کا اختتام 5 مارچ کو ہوا۔

 اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل میوزیم کے شمشیر الحیدری ہال میں وزارتِ ثقافت کی جانب سے منعقدہ پروگرام کے دوران خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی ٹیم کی سربراہ کا کہنا تھا کہ ‘کامیاب کھدائی کے بعد ان کی ٹیم تاریخی مقام کو تباہی یا بارشوں کے نقصانات سے بچانے کے بعد دوبارہ مٹی سے بھر چکی ہے’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کھدائی کے دوران بہت سے قدیم نمونے اور نوادرات دریافت ہوئے جن میں تسبیح کے دانے، ان دانوں سے بنی اشیاء اور کھلونے شامل ہیں، ان اشیاء کی دریافت واضح کرتی ہے کہ ہڑپہ دور میں یہ علاقہ ان چیزوں کی تیاری کا مقام رہا ہوگا۔فرانسیسی ماہر کا کہنا تھا کہ یہ مقام دراصل قدیم صنعتی مرکز تھا جس کے ذریعے دریائے سندھ کی تہذیب کے اہم ترین شہروں خاص کر موئن جو دڑو اور ہڑپہ میں واقع شہروں میں اشیاء سپلائی کی جاتی ہوں گی۔دریائے سندھ کی تہذیب کے پہلے دور (2500 سے 2300 قبل مسیح) کو ‘سنہرا دور’ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ مقام یا تو موئن جو دڑو کے دور میں یا اس سے بھی قدیم ہوسکتا ہے۔

کھدائی کے مقامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک جگہ پر برتن سازی کے مرکز جبکہ کچھ جگہوں پر کشادہ گھر اور بڑی عمارتیں دریافت ہوئی ہیں۔علاقے کے نکاسی آب کے نظام کو سراہتے ہوئے فرانسیسی ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ چانھیوں جو دڑو سے ملنے والی کئی اشیاء ہڑپہ اور موئن جو دڑو سے ملنے والے آثار سے مماثلت رکھتی ہیں۔خطاب کے دوران انھوں نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ چانھیوں جو دڑو میں سب سے پہلے کھدائی کا آغاز نانی گوپال مجومدار نے 1930 میں کیا تھا جس کے بعد برطانیہ سے آئے ماہرین نے یہاں تحقیق کی اور بعد ازاں فرانس کے ماہر آثار قدیمہ 1958 میں کھدائی کے لیے سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں پہنچے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ان مقامات پر مزید کھدائی کی ضرورت ہے جبکہ کچھ مقامات ایسے ہیں جو زرعی سرگرمیوں کے باعث پہلے ہی سندھ میں تباہ ہوچکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حالیہ کھدائی میں 1 ہزار میٹر کے علاقے کی کھدائی کی گئی جس کے دوران مٹی کی اینٹیں، مکانات، چھوٹے چھوٹے گھر اور برتن وغیرہ دریافت ہوئے، مشرقی علاقے میں ملنے والی بھٹیاں اور مرکز میں پتھر توڑنے کے ہتھیاروں سمیت دیگر ہتھیاروں کا ملنا اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ایک صنعتی علاقہ تھا۔اس موقع پر تقریب میں شریک وزیر ثقافت سردار شاہ کا کہنا تھا کہ چانھیوں جو دڑو میں ملنے والے تین مٹی کے ٹیلوں کا جائزہ لیا جارہا ہے، ساتھ ہی انھوں نے اس تاریخی مقام پر ایک عجائب گھر اور گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کا اعلان بھی کیا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website