counter easy hit

نواز ریلی کا پیغام

’’کتنے بندے تھے؟‘‘ والا سوال غیر ضروری۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں ’’سزا یافتہ‘‘ کی ’’سج دھج‘‘کے ساتھ جیل روانگی کو ’’اخلاقی بنیادوں‘‘ پر زیر بحث لانا بھی وقت کا زیاں۔

مقصد منگل کی رات ہوئی ریلی کا ایک پیغام دینا تھا اور وہ یہ کہ ’’نااہل‘‘ قرار پائے نواز شریف کی ذات سے جڑا ووٹ بینک اب بھی برقرار ہے۔ لاہوریوں کی ایک مؤثر تعداد موصوف سے ہمدردی کے جذبات رکھتی ہے۔ انہیں کئی حوالوں سے اقرار کرتی ہے۔ ان کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کو لہذا حقارت سے ’’ماضی کا قصہ‘‘ قرار دینا فی الوقت ممکن نہیں۔

مذکورہ پیغام دینے کے علاوہ منگل کی رات ہوئی ریلی کا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ پنجاب کی انتظامیہ نے اس پیغام کی حدود کو مہارت سے سمجھتے ہوئے اپنا ’’ہاتھ ہولا‘‘ رکھا۔ مسلم لیگ (نون)کے کارکنوں کو جمع ہونے سے نہ روکا۔ ان مناظر کو دہرانے سے گریز کیا جو اسلام آباد کی انتظامیہ نے چند ہفتے قبل بلاول بھٹو زرداری کی احتساب بیورو کے دفتر پیشی کے موقع پر دکھائی بے صبری کی بدولت ٹی وی سکرینوں کو دکھانے پر مجبور کیا تھا۔

’’پُرجوش کارکن‘‘ جیل توڑ کر نواز شریف کو وہاں سے باہر لانے کے ارادے سے جمع نہ ہوئے تھے۔ ہماری سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ بلکہ یہ ہوا ہے کہ مسلم لیگی کارکنوں نے اپنے قائد کو بہت ’’اہتمام‘‘ سے جیل والوں کو لوٹادیا ہے۔ اپنے حامیوں کی تعداد اور جذبے کو دکھائیں کرتے ہوئے بھی سابق وزیر اعظم نے ’’انقلابی‘‘ تو کیا روایتی شکریے والی تقریر بھی نہ کی۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے ایک مختصر پیغام ریکارڈ کروایا اور جیل چلے گئے۔

نواز شریف کا کسی دھواں دھار خطاب سے گریز واضح انداز میں یہ بتارہا ہے کہ ان کی دانست میں نواز شریف کی ذات اور جماعت پر نازل ہوئی مصیبت کی گھڑی بہت لمبی ہے۔ اس سے نجات کی فوری صورت ممکن نہیں۔ ان کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کو ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کی امید نہیں رکھنا چاہیے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس کی ٹکٹ کی وجہ سے بیٹھے اراکین کو پارلیمان میں متحرک کردار ادا کرتے ہوئے ’’مزاحمت‘‘ کی ایسی راہ ڈھونڈنا ہوگی جس کا اثر بالآخر گلیوں اور بازاروں میں بھی نظر آئے۔ اسی باعث شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف جیسے افراد کو شہباز شریف کے حقیقت پسندانہ رویے کی وجہ سے پھیلے تاثر کو زائل کرنے کے لئے اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ عمران حکومت کے بنائے پہلے بجٹ سے ممکنہ طورپر مہیا ہونے والی اسپیس کو یہ لوگ کس طرح عوامی جذبات کی نمائندگی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

کوئی چاہے یا نہ چاہے۔ اپوزیشن کو فقط عوام کی معاشی مشکلات کے باعث خود مؤثر اور جاندار بنانے کے لئے خاطر خواہ اسپیس ہر صورت ملے گی۔ ’’بازار‘‘ کئی مہینوں سے سکتے کی کیفیت میں ہے۔ بے روزگاری میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹرحفیظ پاشا جیسے ماہرینِ معیشت دعویٰ کررہے ہیں کہ کم از کم دس لاکھ افراد گزشتہ مالی سال کے دوران بے روزگار ہوئے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ خوفناک یہ دعویٰ ہے کہ اگر معیشت کا موجودہ چلن جاری رہا تو کم از کم 80لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ تنخواہ دار طبقہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجہ سے پہلے ہی اپنی طے شدہ آمدنی کی وجہ سے متوسط طبقے سے نچلے متوسط طبقے کی طرف پھسل رہا ہے۔ نسبتاََ خوش حالی سے پریشانیوں کی جانب سرکنا دلوں میں پھیلے خوف کو بالآخر غصے میں بدل دیتا ہے۔

غصے کی یہ کیفیت فقط پاکستان تک محدود نہیں۔برطانیہ میں اس کی وجہ سے بریکسیٹ ہوا۔ امریکہ میں اس غصہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ وائٹ ہائوس پہنچا۔ فرانس کا صدر اس کی وجہ سے اپنی مقبولیت تیزی سے کھورہا ہے۔ پلوامہ نہ ہوا ہوتا تو بھارت کے نریندر مودی کو بھی اپنے ملک کے معاشی حقائق کی وجہ سے وہاں جاری انتخابات کے دوران جان کے لالے پڑے ہوتے۔شاید اب بھی اس کی جماعت اکثریت حاصل کرلے۔ نام نہاد مودی ویو مگر اپنا اثر کھو رہی ہے۔ حتمی نتائج کے بارے میں سروے کرنے والے پورے اعتماد سے تجویز دینے سے گھبرا رہے ہیں۔

عمران خان خوش نصیب ہیں کہ ا نہیں کسی فوری انتخاب کا سامنا نہیں کرنا۔ انہیں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔اپنے ابتدائی ایام میں منتخب حکومتوں سے ’’سخت‘‘ اور ’’غیر مقبول‘‘ فیصلوں کی توقع رکھی جاتی ہے۔ اسد عمر کی قیادت میں نظر بظاہر عمران سرکار ایسے فیصلے لے چکی ہے۔

ہماری معیشت کے حتمی مانیٹر یعنی آئی ایم ایف وغیرہ کی مگر تسلی نہیں ہورہی۔ وہ بضد ہیں کے نئے بجٹ میں کم از کم 5000 ارب کے نئے ٹیکس لگائے جائیں۔ ڈالر کی قیمت منڈی طے کرے۔ سٹیٹ بینک پاکستانی روپے کو ’’مستحکم‘‘ رکھنے کے نام پر دخل اندازی نہ کرے۔ اسی بات کو یقینی بنانے کے لئے ڈاکٹر رضا باقر آئی ایم ایف سے استعفیٰ دے کر راتوں رات سٹیٹ بینک آف پاکستان کے بااختیار گورنر بنادئیے گئے ہیں۔ “لاگت کی وصولی” پر اصرار کرتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔

ڈاکٹر رضا باقر نے ایسے ہی نسخے مصر کی معیشت پر 2016 سے نازل کئے ہوئے تھے۔ مصر کے مخصوص حالات میں ایسی حکومت آئی ایم ایف کے احکامات پر شدت سے عمل درآمد کرنے میں کامیاب رہی۔ پاکستان مگر ’’وکھری نوعیت‘‘ کا ملک ہے۔ وہ اپنے ’’لیڈر‘‘ سے ریلیف کی توقع رکھتا ہے۔ ’’تکلیف‘‘ کی نہیں۔ ترکی کا اردوان ’’سلطان‘‘ بنا تو وجہ اس کی کئی برسوں تک اپنے ملک کے پسماندہ لوگوں کو معاشی پالیسیوں کے ذریعے نچلے متوسط طبقے سے خوشحالی کی طرف بڑھانا تھا۔ماہرین اس عمل کو اپ ورڈ موبلیٹی کہتے ہیں۔ یہ عمل اب رجعت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس رجعت کی وجہ سے اردوان کی جماعت انقرہ، ازمیر اور استنبول جیسے شہروں میں بلدیاتی انتخابات ہار گئی۔ اردوان کے سیاسی کیرئیر کا اصل آغاز استنبول کے میئر کی حیثیت سے ہوا تھا۔ استنبول سے آئے نتائج کو لہذا اس نے خوش دلی سے تسلیم نہیںکیا۔ وہاں سے آئے نتائج کو رد کرکے نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔استنبول میں نئے بلدیاتی انتخابات ترکی میں اردوان کی مشکلات میںاضافے کا باعث بھی ہوسکتے ہیں۔

عمران حکومت کے لئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ آئی ایم ایف کو مزید ’’سخت‘‘ اور ’’غیر مقبول‘‘ فیصلوں سے روکے۔ ایمنسٹی وغیرہ کے نام پر بازار پر چھائی مندی اور مایوسی کی فضا کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ ایف بی آر پہلے ہی گزشتہ بجٹ میں ٹیکس کے حوالے سے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں تاریخی طور پر ناکام رہا ہے۔ 5000 ارب کے مزید ٹیکس جمع کرنا اس کے لئے ممکن ہی نہیں۔بازار میں ’’گرمی‘‘ نظر آئے گی تو ٹیکس بھی جمع ہوں گے۔ بازار میں ’’گرمی‘‘ نظر نہ آئی تو گلیاں اور محلے احتجاجی جذبات سے گرم ہوجائیں گے۔ اس گرمی کی پیش بندی کرنا ضروری ہے۔