counter easy hit

دوقومی نظریہ کی تلوار

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر : قاضی کاشف نیاز
23مارچ1940ء کو قراردادِ پاکستان پیش کی گئی۔ گویا دو قومی نظریہ کو باضابطہ طور پر پیش کر دیا گیا۔ کسی مسئلے پر کسی خاص دن قرارداد پیش کرنے کامطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مسئلہ یا نظریہ وتصوراسی دن پیداہوا اور اسی دن پیش کردیاگیا بلکہ مسئلہ یا نظریہ توعموماً پہلے سے موجود ہوتاہے’ صرف اس کا باضابطہ یاپرزور اظہاربعض اوقات کسی خاص دن کیاجاتاہے۔ قراردادپاکستان کے متعلق بھی ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ قراردادِپاکستان کی بنیاد بننے والا دوقومی نظریہ تو صدیوں پہلے سے موجودتھا لیکن برصغیر میں اس نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے الگ ملک پاکستان کے قیام کامطالبہ 23 مارچ1940ء کوکیاگیا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے اس آفاقی حقیقت کو اپنے ان الفاظ میں طشت ازبام کیاتھا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ ” پاکستان تواسی دن معرض وجود میں آگیا تھا جس دن یہاں پہلا ہندومسلمان ہواتھا۔” یعنی اسی دن برصغیر میں دوقومی نظریہ کی تلوار چل پڑی تھی جس دن یہاں پہلا شخص مسلمان ہوااوربالآخر 23 مارچ 1940ء کو یہ نظریہ وتصور قراردادِپاکستان کی صورت میں ڈھلا اور 14اگست 1947ء کو پاکستان کے قیام کی صورت میں اس نظریہ نے متجسمّ شکل اختیار کرلی۔یوں دو قومی نظریہ کی اس تلوار نے ہندوؤں کی گاؤماتا کے بالآخر تاابد دوٹکڑے کردئیے۔ ماؤنٹ بیٹن کو یہی بات سمجھاتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا: ”لارڈ صاحب! یہاں دوالگ الگ قومیں بستی ہیں جن کا جینا مرنا ‘اٹھنا بیٹھنا الگ الگ ہے۔ غمی وخوشی کے طورطریقے علیحدہ ہیں۔پیداہونے سے لے کرمرنے تک کی ساری رسومات جداجداہیں۔ ہندؤوں کے سینکڑوں بھگوان اور اوتار ہیں۔ہمارا صرف ایک خداہے۔ وہ جس گائے کو بھگوان کادرجہ دیتے ہیں’ہم اسے شوق سے ذبح کر کے کھاجاتے ہیں۔”

کہاجاسکتاہے کہ تحریک پاکستان سے پہلے دو قومی نظریہ کاعملاً وجود نہ تھا اور نہ اس میں کوئی حقیقت و صداقت تھی۔ اگربالفرض ایک لمحے کے لیے یہ بات مان بھی لی جائے توکیاوجہ ہے کہ دو قومی نظریہ پاکستان کے قیام کے پہلے دن سے لے کر آج تک مسلسل اپنے وجود اور صداقت کی گواہی دے رہاہے۔ ہندو کو جب بھی مسلمانوں پر طاقت اور اقتدار و اختیار ملا’وہ انہیں دیوار سے لگانے اورصفحۂ ہستی تک سے مٹانے سے بازنہیں آتا۔ 1937ء میں یہ کانگریسی وزارتوں کا دور ہی تھا جس نے مسلمانوں کو آنکھیں کھولنے پرمجبور کردیا’ مسلمانوں پر گائے کے ذبیحہ پرپابندی لگادی گئی۔ تمام سرکاری محکموں سے مسلمانوں کو چن چن کر فارغ کیاجانے لگا ‘مسلمانوں کی بھرتی عملاً ناممکن بنادی گئی’مسلمانوں کے خلاف قتل وغارت کا بازار گرم کردیا گیا… اس دورمیں مسلمانوں پر بڑھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ سرکرپس نے برطانوی ایوان میں یوں کیا: ”کلکتہ کے فسادات میں چارہزارآدمی موت کے گھاٹ اتاردیے گئے۔مشرقی بنگال میں دوسومارے گئے اور پچاس ہزار بے گھر ہوئے۔بہارکے خونی ہنگاموں میں پانچ ہزارمسلمان شہیدہوئے۔”(بوئے گل از شورش کاشمیری) لوگ آج بھی حیران ہوتے ہیں کہ مسلم لیگ نے 1940ء کوقراردادِپاکستان منظورکی اور صرف 7سال کی مختصر ترین جدوجہدمیں وہ ایک الگ ملک حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوگئی۔اس راز کوبھی خودبانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے ان الفاظ میں طشت ازبام کیاتھا’ا نہوں نے اپنے ایک خطاب میں کہاتھا”پاکستان مسلمانوں نے نہیں بلکہ ہندو کے تعصب نے بنایا۔”یہ کتنی بڑی راز اور حقیقت کی بات ہے ۔ہندو چاہتے توبعد میں اپنے عمل وکردار اورمسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک سے ان کے اس نظریہ کو غلط ثابت کرسکتے تھے لیکن جو قوم نچلی ذات کے اپنے ہم مذہب لوگوں کو اپنے ساتھ برابری کادرجہ دینے پرتیارنہ ہو’ اعلیٰ ذات اورنیچ ذات کے ہندؤوں کی آج بھی عبادت گاہیں یعنی مندرتک الگ الگ ہوں’اکٹھے ایک برتن میں کھانے پینے کے بھی روادار نہ ہوں’ مسلمانوں کی طرح وہ انہیں بھی ملیچھ اور ناپاک سمجھتے ہوں توبھلاوہ مسلمانوں کو کب برابری کادرجہ دے سکتے تھے۔

ایک بھارتی کانگریسی مسلمان عالم مولانا ارشد مدنی صدرجمعیت علمائے ہند نے دوسال قبل کہاتھا کہ” قیام پاکستان سے اب تک بھارت میں 60ہزار سے زائد مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ ”ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہیدہوچکے۔ آئے روز کے ان فسادات کو دیکھ کر پھربھی کوئی کہے کہ ہندومسلم اکٹھے رہ سکتے ہیں تواس کی عقل کاماتم ہی کرناچاہیے۔ ہندو چاہتے توبھارت کو مسلمانوں کے لیے پرامن ترین جگہ بنادیتے لیکن مسلمانوں کے خلاف ان کا بغض وتعصب کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتا جارہاہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی اور مسلمانوں کو اس قدر دیوار سے لگادیاگیا کہ خود گزشتہ کانگریس حکومت کی سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلت (شودروں) سے بھی بدترہوچکی ہے۔نہ وہاں ان کی جان ومال محفوظ ہے’نہ ان کی عزتیں اورنہ مسجدیں۔بابری مسجد سمیت یہاں سینکڑوں مسجدیں شہید کردی گئیں۔ ملک کی اعلیٰ ملازمتوں میں ان کاکوئی حصہ نظرنہیں آتا ۔مسلمانوں کی اکثریت محض اب وہاں مزدور پیشہ ہے۔ پاکستان میں ایک مندر یاگرجاتباہ ہو توفوراً ازسرنو پہلے سے بھی بہترتعمیرکردیاجاتاہے لیکن بھارت میں بابری مسجد شہید کرکے ہندو دہشت گردوں نے دن دیہاڑے اتنا بڑا ظالمانہ اقدام کیا لیکن بابری مسجد کی شہادت کو آج 22سال بیت گئے’ بھارت میں کتنی ہی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن کسی بھی پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو بابری مسجد دوبارہ بناکر دیناتوکیا’اس کاجھوٹا وعدہ کرنے کوبھی تیار نہیں۔اس سانحۂ عظیم کے کسی ایک مجرم کو بھی آج تک سزا نہیں ملی’نہ ہی کسی اورفساد میں کسی ہندوکوکبھی کوئی سزا ملی۔ آج بمبئی جیسے بھارت کی ایک بڑے اقتصادی شہر میں مسلمانوں کو نہ تومسجد بنانے کی اجازت ہے اور نہ پرانی مسجدوں میں توسیع کی اجازت ۔اس کانتیجہ ہے کہ وہاں مسلمان تین تین شفٹوں میں جمعہ کی نمازیں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف کوئی نادانستہ زیادتی بھی ہوجائے’ہمارے سیکولرزم کے دعویداروں سمیت پورا بھارت اس معمولی زیادتی کے خلاف چیخ اٹھتاہے لیکن مسلمانوں کے خلاف زیادتی پر کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔

آج بھارت میں ہر دوسرے مسلمان کو دہشت گرد قرار دے کرجیلیں بھری ہوئی ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 15-20 فیصدہے لیکن جیلوں میں ان کاتناسب 75فیصد سے زائد ہے۔تازہ رپورٹ کے مطابق 52ہزارسے زائد مسلمان جیلوں میں بند ہیں۔ آج آندھرا پردیش ‘ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘دہلی’گوا’ گجرات ‘کرناٹک سمیت بھارت کی اکثرریاستوں میں گائے ذبح کرنے پر پابندی ہے۔ابھی حال ہی میں فیس بک پر ایک وڈیو سامنے آئی جس میں گائے ذبح کرنے والے مسلمانوں کو ہندوپکڑکر ویرانے میں لاتے ہیں اور پھر انہیں باندھ کر ان پرمختلف قسم کے جسمانی تشدد اور ٹارچرکرتے ہیں۔ ان کی ٹانگیں باندھ کر پاؤں کھڑے کر کے ان پر لوہے کے راڈ برساتے ہیں اور انہیں ننگی گالیاں دے کر ان کے منہ پرپیشاب کرکے انہیں پیشاب پینے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کوکھلم کھلا کہاجاتاہے کہ تم سب پاکستان چلے جاؤ یاعرب چلے جاؤ۔ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندوبن کر رہناہوگا۔ مسلمانوں کی بے بسی یہاں تک ہے کہ وہ اپنے خلاف ظلم پرآواز تک نہیں بلند کرسکتے ‘کوئی ان کے حق میں آواز بلند کرے تواس سے بھی سخت خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور ان کی حالت کل کے بغداد اورآج کے وسطی افریقہ کے مسلمانوں کی طرح ہوتی جارہی ہے جہاں وہ اپنے آپ کو ذبح کے لیے خود آکر پیش کرتے رہے۔ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے تھے کہ قیام پاکستان سے قبل ہندؤوں نے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کے لیے شدھی کی تحریک شروع کی تھی۔ اس وقت ہم اسے کم تعلیم کی وجہ سے دورتاریک کی بات سمجھتے تھے لیکن آج ہی کے دور میں ہندؤوں نے ایک بار پھر اسی تحریک کا دوبارہ پہلے سے بھی شدت کے ساتھ آغازکردیاہے اور وہ ہزاروں غریب مسلمانوں اور عیسائیوں کو پیسے کا لالچ اور جان ومال اور عزت کا خوف دلاکر انہیں زبردستی ہندو بناتے ہیں اور ان کے رہنمایہاں تک دعوے کر رہے ہیں کہ آئندہ 20-25 سالوں میں ہندو ستان سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کردیں گے۔

آج یہ ہندو تعصب ہی ہے کہ بھارت کاایک انتہا پسند دہشت گرد وزیراعظم بن کر بھارت کے اقتدار پر قابض ہے۔ پاکستان میں اگرپروفیسرحافظ محمدسعیدd اپنی صرف دعوتی سرگرمیاں ہی جاری رکھیں تو بھارت کی حکومتی اوراپوزیشن سمیت تمام پارٹیوں اور بھارتی میڈیا کو سخت اعتراض ہوتاہے کہ حافظ سعیدdکھلم کھلا اپنی سرگرمیاں کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن مودی پرکوئی حرف لانے کوتیار نہیں جو گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کاقاتل ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ توہرظلم روا رکھا’ جوناگڑھ’حیدرآباد دکن اور مناوادر پر قبضہ کیا’مشرقی پاکستان میں کھلم کھلا فوجی مداخلت کرکے پاکستان کے دو ٹکڑے تک کردیے لیکن اسے کوئی دراندازی ماننے کو تیار نہیں’ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود چھوڑنے کو تیار نہیں’پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرکے اوریہاں بیسیوں ڈیم بناکر پاکستان کو صحرا بنانے کے مشن پرکاربند ہے’سیاچن اور سرکریک جیسے آسان مسائل بھی حل کرنے کوتیار نہیں۔سمجھوتہ ایکسپریس میں 60سے زائد پاکستانیوں کوزندہ جلانے والے مجرموں کو ہمارے حوالے کرنے کوتیار نہیں ‘اب وہ ہمارے عام ماہی گیروں کی راستہ بھولنے والی کشتی کو بھی دہشت گردوں کی کشتی قرار دے کر دیدۂ دلیری سے تباہ کرنے کا اعتراف کرچکاہے لیکن اس سے پوچھنے والا پھربھی کوئی نہیں۔ ہندو پاکستان کو تو ایک دشمن ملک قرار دے کر ہر زیادتی کرنااپناحق سمجھتاہے لیکن اگر اس کے اندر تھوڑی سی بھی انسانیت ہوتی توکم ازکم بھارت کے مسلمانوں کو ہی عزت سے جینے کابرابرحق دے دیتا اوردنیاپریہ ثابت کر دیتا کہ اس کی دشمنی مسلمانوں سے نہیں ‘صرف پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے حامیوں سے ہے لیکن ہندو نے پاکستان کے قیام کے بعد60سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تحریک پاکستان کے قائدین کے ہندؤوں سے متعلق اپنے خدشات کی پہلے سے بھی بڑھ کر تصدیق کی۔ آج بانی ٔپاکستان کے اس فرمان کی صداقت پہلے سے زیادہ اظہرمن الشمس ہوکرسامنے آگئی ہے

‘ 13 ستمبر1942ء کو قائداعظم نے نئی دہلی میں ایک امریکی نامہ نگارسے ہندورہنماؤں کے طرزِعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ”وہ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ وہ اس برصغیرمیں ہندو راج قائم کرناچاہتے ہیں اور مسلمانوں کو اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیناچاہیے اوراگرمسلمان سیدھے نہ ہوئے تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیاجائے گا جو جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ کیاجاتا ہے” کیاآج بھارت میں وہی انتہاپسندپارٹی برسراقتدار نہیں جس کاکھلم کھلا ایجنڈا ہی یہی ہے کہ وہ بھارت میں ہندو راج اور رام راج قائم کرناچاہتی ہے اور مسلمانوں کا بھارت سے مکمل صفایا کرناچاہتی ہے۔گجرات’بمبئی اور مظفرنگر کے حالیہ فسادات اس کامنہ بولتا ثبوت ہیں جن میں مسلمانوں کی بستیوں کی بستیاں صاف کردی گئیں۔ کیایہ بات پھر ظاہر نہیں ہوگئی کہ دو قومی نظریہ کی صداقت کل بھی ثابت تھی اور آج بھی ثابت ہے ۔آج کوئی بھی بھارت جائے تووہ اپنی کھلی آنکھ سے دیکھ سکتاہے کہ وہاں بھی ہندو مسلمان اکٹھے نہیں رہ رہے۔ ہندوکی بستیاں’ آبادیاں اورمحلے الگ اور مسلمانوں کی بستیاں اورمحلے الگ ہیں اورانہیں منی پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔غرض دوقومی نظریہ آج بھی بھارت کے اندرخود کو منوا رہاہے اور دوقومی نظریہ کی یہ تلوار گاؤماتا کے مزید ٹکڑے ٹکڑے تاابد کرتی رہے گی۔ان شاء اللہ

تحریر : قاضی کاشف نیاز