counter easy hit

کیا ہم اب بھی ایک نہیں ہوسکتے؟

Protests

Protests

تحریر: دانیہ امتیاز
گزشتہ کئی روز سے مسلمانوںمیں ایک عجیب بے چینی اور اضطراب پایا جارہا ہے۔ یہ بے چینی ایسی ہے جو مسلمانوں کی روح اور ان کے جذبات تک کو متاثر کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر یہود و نصاریٰ نے اپنی غلیظ سوچ کا اظہار کر ڈالا۔

انسانیت کو امن و سلامتی، آپس میں بھائی چارے اور غیروں سے اچھا برتائو کا درس دینے والے پیغمبر اسلام محمد رسول ۖ کی شان اقدس کیخلاف اپنی بلید سوچ کا اظہار کرتے ہوئے گستاخانہ خاکے شائع کر کے پوری دنیا کو یہ پیغام دلایا گیا ہے کہ وہ دنیا میں امن و امان نہیں بلکہ کھلی دہشت گردی چاہتے ہیں۔

دنیا کا ہر مذہب انسانیت کا درس دیتا ہے اور انسانیت کسی بھی شخص کے احساسات مجروح کرنے، جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔ خود کو انسانیت کا علمبردار کہنے والے انسانیت سے اس حد تک گھر چکے ہیں کہ آج انسانیت بھی منہ چھپاتے پھر رہی ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد نبی مکرم ۖ کی توہین آمیز خاکے بنا کے مسلمانوں میں اشتعال پیداکیا جاتا ہے۔

مگر آخر کیوں؟ ہمیشہ سے مسلمانوں کے جذبات کو ہی نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا آپ میں متحدہ نہ ہونا ہے۔ آج امت مسلمہ کی تمام ریاستیں آپس میں ہی بہتر تعلقات قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ عالم تو یہ ہے کہ ایک مسلم ملک میں بسنے والے مسلمان ہی ایک پلیٹ فارم پر جمع دیکھائی نہیں دیتے۔

اگر وطن عزیز میں نظر دوڑائیں تو یہاں یہ صورتحال ہے کہ مختلف مذہبی جماعتیں توہین آمیز خاکوں کے خلاف اپنا اپنا احتجاج تو ریکارڈ کرا رہی ہیں، مگر افسوس صد افسوس کہ ہر مذہبی جماعت الگ الگ احتجاجی مظاہرے کر رہی ہے۔ شہر قائد میں چار روز میں الگ الگ جماعتوں کے احتجاج کا شیڈول رکھا گیا ہے۔

ذرا سوچئے کہ کیا اس ایک مسئلہ پر بھی ہم ایک نہیں ہوسکتے۔ اپنے مسلک پہ قائم رہتے ہوئے کیا ہم اپنے نبی ۖ کے لئے ایک ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے؟ بار بار ہمیں نشانہ اس لئے بنایا جاتا ہے کیوں کہ ہمارے اندر اتنی ہمت نہیں کہ پرزور آواز بلند کر سکتے۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

اگر ہم اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کے اس مسئلہ کے لئے ایک ہوجائیں تو دوبارہ کسی کی ہمت نہ ہو کہ ہمارے نبی ۖ کی شان اقدس پر انگلی بھی اٹھائے۔ چھوٹے چھوٹے بکھرے احتجاج کچھ نہیں کرسکتے۔ ہمیں ایک ہونا ہوگا ورنہ یہ سلسلہ اس طرح جاری رہے گا اور اس کے ذمہ دار شاید ہم بھی ہوں گے۔

تحریر: دانیہ امتیاز