counter easy hit

مراد علی شاہ کا حیدرآباد کے شہریوں کو تحفہ

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ کی تاریخی درسگاہ گورنمنٹ کالج کالی موری کی صد سالہ سالگرہ کی تقریبات میں اعلان کیا کہ حکومت کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے رہی ہے۔ اس بیان پر عمل ہوگیا تو حیدرآباد کے شہریوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا۔ مراد علی شاہ کے والد عبداﷲ شاہ اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت بہت سے نامور لوگوں نے اس کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔

سابق وزیر اعظم پرویز اشرف کا ویسے تو تعلق گوجرخان سے تھا مگر انھوں نے گورنمنٹ کالج کالی موری سے گریجویشن کیا تھا۔ وہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد خاص طور پر گورنمنٹ کالج آئے تو اساتذہ اور طالب علموں سے خصوصی تقریب میں خطاب کیا تھا۔ اس تقریب میں جب وہ اپنی مادرعلمی کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کرنے والے تھے کہ اچانک اس وقت کے وزیر تعلیم پیر مظہرالحق جو اسٹیج پر بیٹھے تھے، وزیراعظم کے پاس روسٹرم پرگئے اور ان کے کان میں کچھ کہا اور وزیراعظم پرویز اشرف نے اس کالج کو یونیورسٹی بنانے کا معاملہ اپنی تقریر سے ہدف کردیا تھا۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ سال حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ موجودہ بجٹ میں یونیورسٹی کے لیے رقم بھی مختص کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم جب عروج پر تھی تو اس کے قائد نے حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یونیورسٹی کا قیام ضروری ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں سندھ میں لسانی کشیدگی شدید تھی۔ سندھ یونیورسٹی میں طلبہ کے بعض گروپ موجود تھے جو شہری علاقوں سے آنے والے طلبہ کو تعلیم کا حق دینے کے لیے تیار نہیں تھے مگر سندھ میں صورتحال معمول پر آنے کے بعد حیدرآباد کے نوجوانوں کے لیے سندھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوگئی تھیں۔

جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی حیثیت کو بلند کرکے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا گیا۔ معروف سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمن ایچ ای سی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ورلڈ بینک نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو وافر مقدار میں امداد دی۔ ایچ ای سی نے سرکاری اور نجی شعبے میں یونیورسٹیوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی۔ چاروں صوبوں میں سرکاری شعبے میں یونیورسٹیوں کا جال بچھ گیا۔ ایم کیو ایم کے منشور میں حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا معاملہ شامل تھا۔ ایم کیو ایم جنرل پرویز مشرف حکومت کا مضبوط ترین ستون تھی۔

ایم کیو ایم کے مطالبے پر مشرف حکومت نے کراچی اور حیدرآباد میں اوور ہیڈ برج، انڈر پاس اور نئی سڑکوں کی تعمیر کے لیے غیر معمولی امداد دی۔ اس دوران کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی اور ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی، حیدرآباد میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی اور مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی قائم ہوئی تھی مگر ایم کیو ایم نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر حیدرآباد شہر میں اس مطالبے کو منوانے پر توجہ نہیں دی۔

2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر 90 گئے اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور آصف زرداری نے ماضی کی تلخیوں پر معذرت کی اور زرداری  نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت شہری اور دیہی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے گی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی۔ کراچی میں چار نئی یونیورسٹیاں بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری، سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی، ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء اور جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی قائم کی۔ لاڑکانہ، سکھر، میرپورخاص، سکرنڈ اور نواب شاہ وغیرہ میں یونیورسٹیاں قائم کی گئیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت حیدرآباد شہر میں یونیورسٹیاں قائم کرنے پر تیار نہیں ہوئی۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور ان کی کابینہ کے وزراء حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی قائم نہ کرنے کے لیے مختلف تاویلیں دیتے۔ کبھی کہا گیا کہ جامشورو میں یونیورسٹی موجود ہے، کبھی کہا گیا کہ حیدرآباد میں قائم ہونے والی یونیورسٹی پر ایک مخصوص گروہ کا قبضہ ہوجائے گا۔

پیپلز پارٹی کا قیام تو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی قیام گاہ پر عمل میں آیا تھا مگر پیپلز پارٹی کی مقبولیت سب سے پہلے کراچی سے شروع ہوئی۔ بائیں بازو کے رہنما معراج محمد خان کی قیام گاہ میں طلبہ کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F) ، مزدوروں، ادیبوں، شاعروں، اساتذہ اور صحافیوں کی تنظیموں نے پیپلز پارٹی کے قیام کا خیر مقدم کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کنونشن سے خطاب کے بعد مقبولیت کی منزلیں طے کرنے لگے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقو ں کے ساتھ شہری علاقوں کی بھی مقبول ترین سیاسی جماعت تھی۔

حیدرآباد کے صنعتی علاقے میں بائیں بازو کی مزدور تنظیمیں مضبوط تھیں۔ ان مزدور تنظیموں کی قیادت اردو بولنے والے ترقی پسند رہنماؤں کے پاس تھی اور مزدور تنظیمیں پیپلز پارٹی کی ہمدرد تھیں۔ پرو کمیونسٹ پارٹی پرو چائنا کی منفی پالیسی کی بناء پر معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جس کا خلاء جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نے پر کیا۔

1972ء میں سائٹ اور لانڈھی میں مزدور تنظیموں کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں فائدہ رجعت پسند تنظیموں نے اٹھایا۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کی بناء پر جماعت اسلامی کامیاب ہوئی اور پیپلزپارٹی شہری علاقوں میں محدود ہوگئی مگر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف جدوجہد میں کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں، صحافیوں، مزدوروں اور خواتین کارکنوں نے اہم کردار ادا کیا مگر پیپلز پارٹی نے 1988ء سے شہری علاقوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اختیار کی جس کا فائدہ ایم کیو ایم نے اٹھایا اور 2008ء اور 2013ء کے انتخابی نتائج کے تجزیہ اور ایم کیو ایم کے تنظیمی بحران کی بناء پر ثابت ہوا کہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اپنی مقبولیت کھو چکی ہیں اور مذہبی انتہاپسند قوتیں ان کی جگہ لے رہی ہیں۔

2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو مقبولیت حاصل ہوئی تھی مگر عمران خان کی مہم جوپالیسی کی بناء پر تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف گر گیا اور سیاسی تجزیہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ صرف پیپلز پارٹی ہی ایم کیو ایم کا مقابلہ کرسکتی ہے مگر پیپلز پارٹی ملازمتوں اور اہم پوسٹوں پر تقرریوں اور شہری سہولتوں کی فراہمی جیسے اہم معاملات میں شہری علاقو ں کے لوگوں کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

شہری علاقوں کے نوجوانوں میں شہری سہولتوں کی عدم دستیابی کا فائدہ ایم کیو ایم کے لندن والے اٹھا رہے ہیں، مگر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو کراچی اور حیدرآباد میں مقبولیت کے لیے اپنے مخصوص ذہن سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا اور شہری علاقے کے مکینوں کو یقین دلانا پڑے گا کہ پیپلز پارٹی ہی ان کے مفادات کا تحفظ کرسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ کا سندھ حیدرآباد کے شہریوں کو یہ تحفہ کیا پیپلز پارٹی کی مجموعی پالیسی کو تبدیل کردے گا ،یہ اگلے انتخابات سے بہت پہلے طے ہو جائے گا۔