counter easy hit

سرکاری ملازمین کی پنشن اورتنخواہوں کے ساتھ مزدور کی اجرت 25000 کی جائے، اسامہ قادری

اسلام آباد(یس اردو نیوز) قومی اسمبلی کا اجالاس سپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت شروع ہوا توایم کیوایم کے رکن اسمبلی اسامہ قادری اظہارِ خیال کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ بجٹ 2021-2020 کا اجلاس میں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا، پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں پیش کیے گئے تمام بجٹ الفاظ کے ہیر پھیر پرمبنی تھے۔ مگر ایک بجٹ ایسا پیش کیا گیا جسے غریبوں کا بجٹ کہا گیا وہ بجٹ خان لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا اور بجا طورپر اسے غریبوں کا بجٹ کہا جاتا ہے اوریاد کیا جاتا ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ وفاقی بجٹ میں کل وفاقی بجٹ کا آدھا اورترقیاتی بجٹ کا 6فیصد حصہ متروکہ سندھ کے شہر کراچی کیلیے رکھا گیا ہے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ شہر کراچی جو پاکستان کے ریونیو کا ستر فیصد مہیا کرتا ہے کیایہ ممکن ہے کہ اسے اس طرح سے نظر انداز کردیا جائے۔انھوں نے کہا کہ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اس حکومت نے بھی کراچی کو نظر انداز کیا ۔ اسد عمر صاحب سے اوراس حکومت سے امیدیں تھیں مگر کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ گرین لائن کا منصوبہ تعطل کا شکار ہے جسے کافی عرصہ پہلے مکمل ہوجانا چاہیے تھا۔ کراچی سے ریونیو تو لیا جاتا ہے مگر دیتے وقت کراچی کیخلاف سازشیں شروع ہوجاتی ہیں۔ میری درخواست ہے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جائے جو اس وقت ملازمت میں ہیں ان کی تنخواہوں میں کم از کم 20فیصد اضافہ کیا جائے اور مزدور کی اجرت کم از کم 25ہزار مقرر کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ دلی سات باراجڑی مگر 1947 سے سندھ کا متروکہ شہر کراچی کئی بار اجڑا ہے ۔ پہلی مرتبہ 1951 میں لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا اس وقت کراچی اجڑا، دوسری وقت تب اجڑا جب محمد علی بوگرا نے ون یونٹ بنا کر کراچی کے ساتھ زیادتی کی۔ تیسری مرتبہ 1959 میں ایوب خان صاحب نے جو اس قت کے آمر تھے انھوں نے کراچی سے دارالخلافہ منتقل کر کے کراچی کے ساتھ انتہائی زیادتی کی۔ چوتھی مرتبہ محترمہ فاطمہ جناح کو ناجائز طریقے سے شکست دیکر پاکستان بنانے والے قائد کی بہن کی حق تلفی کر کے کراچی کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ پانچویں مرتبہ 1971 میں ایک لسانی بل متعارف کرایا گیا اور اس بل نے آج تک پاکستان کی وحدت کو پارا پارا کر کے رکھا ہوا ہے۔ چھٹی مرتبہ بھٹو صاحب نے کراچی کی آبادی کو کم کر کے کوٹہ سسٹم نافذ کردیا۔ ساتویں مرتبہ بھٹو صاحب نے مہاجرین کی جائیدادیں، تعلیمی ادارے، صنعتیں سرکاری تحویل میں لے لیں اور پاکستان کے ان لوگوں کو جو ملکی معیشت میں اہم ستون رکھتے تھے ان کو فٹ پاتھ پرلاکرکھڑا کردیا گیا۔ آٹھویں مرتبہ 1400 مہاجرین بیوروکریٹس کو انگریزوں کا لے پالک دھبہ لگا کر ان کو نوکریوں سے برطرف کردیا گیا۔ نویں مرتبہ نظام مصطفیٰ کی تحریک جو چلائی گئی تھی ۔ جس میں کراچی نے بھرپور کردارادا کیا تھا۔ اس کراچی کی وحدت کو پارا پارا کرنے کیلیے شہر کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس موقع پر سپیکر اسدقیصر نے انھیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ مختصر کریں اور مجھے آکر ملیں میں نے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ جس پر انھوں نے کہا کہ میں نے تو ابھی آغاز کیا ہے اور میں سندھ کے ساتھ زیادتی کرنیوالوں کا مکروع چہرہ سامنے لانا چاہتا ہوں۔ اندرون سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے جوبجٹ پیشش کیا ۔ اس میں ایک نیا پراجیکٹ کراچی کو نہیں دیا گیا۔ جبکہ کراچی سندھ کو 99 فیصد ریونیو دیا ہے۔ اگر یہ فورم مجھے نہ ملے تو میں کہا جائوں کیا کراچی جاکر احتجاج کروں۔حکومت سندھ نے ترقیاتی کاموں کیلئے 3 ارب روپے رکھے ہیں اس میں بھی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ تین ارب روپے سرکلر ریلوے کے پلوں کو بنانے کیلیے 3 ارب جبکہ میٹروپولیٹن سٹی کیلیے صرف 25 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آدھے شہر کو پانی نہیں ملتا، سڑکیں بدحالی کا شکار ہیں۔ حکومت سندھ کو 235 ارب ٹیکس وصولی کی مد میں حاصل ہوئے جس میں سے 210 ارب کراچی شہر سے حاصل ہوئے۔ این ایف سی ایوارڈ کو پی ایف سی ایوارڈ سے مشروط اس لیے کیا جاتا ہے۔ اٹھارھیوں ترمیم کی چھ باتیں اچھی مگر وفاق کو غیر مستحکم کرنے والی شقیں بے مقصد ہیں۔ متروکہ سندھ کے شہروں کیخلاف سازش کی جارہی ہے۔ لاڑکانہ پلان کے تحت وفاق کو کمزور کر کے بلیک میلنگ اورسندھ کارڈ کا استعمال جاری رکھا گیا ہے۔ اندرون سندھ کے وزیراعلیٰ نے کراچی شہر کو بدحال کردیا ہے۔ کوئی محکمہ کام نہیں کر رہا۔ متروکہ سندھ کے شہری مہاجر نہہں بلکہ 1947 کو ہم اختیاری طورپر پاکستان آئے تھے۔ بابراعوان اورفروغ نسیم سے التجا ہے کہ ہوش کے ناخن لے لیں اور متروکہ سندھ کے حوالے سے مناسب اقدامات کریں۔ اٹھارھویں ترمیم قرآنی صحیفہ نہیں کہ اس پرتنقید نہ کی جاسکے یا اس میں خامیوں کی نشاندہی نہ کی جاسکے۔ آج میں ان زیادتیوں کے معاملے پرواضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگرمتروکہ سندھ کے خلاف اقدامات 3کروڑ شہریوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ سندھ کے آئی جی کام کرنے والے لوگوں کو ہٹا کر وفاق کی کمزوری کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ آئی جی نے اندرون سندھ کے بھرتی کیے گئے ملازمین کو کراچی میں ٹرانسفر کیا ۔ سٹیل مل وہ ادارہ ہے جو ہمیشہ سے منافع دیتا رہا اتنے بڑے ادارے کے ساتھ سویلین حکومتوں نے زیادتی کر کے خسارے میں پہنچایا۔ میں تحریک استحقاق کے ذریعے سٹیل مل ملازمین کی بحالی کے اقدامات پر زور دینا چاہتا ہوں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website