counter easy hit

ماں ہوں ناں

دفتر کے پی اے نے اطلاع دی کہ کوئی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی ہیں۔ میں نے بلالیا۔ملاقاتی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے۔ میں نے پوچھا توکہنے لگے ’’ہمارا بیٹا سی ایس ایس کرکے انفارمیشن سروس میں آیا تو ہمیں اس سے بہت امیدیں تھیں کہ اب ہم دونوں میاں بیوی کا بڑھاپا آرام سے گزرجائیگا،ہم اپنے بیٹے کے پاس رہنے کے لیے کراچی میں اپنا فلیٹ بیچ کر راولپنڈی آگئے تھے۔

وہ چند روز پہلے آپ کے ادارے میں ڈیپوٹیشن پر آیا ہے مگر آپ نے اس کا تبادلہ لاہور کردیا ہے وہ لاہور چلا گیا تو ہم یہاں کس کے پاس رہیں گے؟ لگتا ہے وہ بیوی کے کہنے پر اپنی ماں کو بھول گیا ہے، اس کی ماں بہت پریشان ہے‘‘۔ اب مجھے ساری بات سمجھ میں آگئی چند روز پہلے ہی ایک نوجوان افسر ہمارے پاس آیا تھا اور میں نے اس بناء پر اس کی لاہور تعیناتی کی تھی کہ اس کے بقول وہ اپنے والدین کو بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔

اب میں شاہ صاحب(ملاقاتی) کی اہلیہ سے مخاطب ہوا کہ آپ بتائیں آپ کیا چاہتی ہیں؟ انھوں نے کہا ’’میں چاہتی ہوںاسے لاہور کے بجائے اسلام آباد میں ہی رکھیں‘‘۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے ہم آپکی سہولت کے لیے اسے واپس اسلام آباد تعینات کردیں گے۔ مگر میرے ساتھ وعدہ کریں کہ بیٹے کے تبادلے کے بارے میں آپ دوبارہ سفارش نہیں کریں گی ۔ ملازموں کے باربار تبادلے نہیں کیے جاسکتے۔

 والدین کا بیٹے پر حق مسلّمہ ہے اس لیے ایک بار میں آپکی بات مان لیتا ہوںلیکن یہ صرف ایک بار ہی ہوگا‘‘ دونوں نے بیک زبان کہا ’’بس آپ ایک بار کردیں ہم آئیندہ اس کے تبادلے کے بارے میں آپکوبالکل نہیں کہیں گے‘‘۔ میں نے ان کی بات مان لی اور وہ شکریہ ادا کرکے چلے گئے۔ دوسرے روز میں دفتر پہنچا تو پی اے نے بتایاکہ جس افسر کا تبادلہ واپس اسلام آباد ہوا ہے اس کی والدہ کے چار پانچ فون آچکے ہیںوہ بیٹے کے تبادلے کے بارے میں… میں نے سختی سے کہا انھوں نے مجھ سے کمٹمنٹ کی تھی کہ اب وہ تبادلے کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گی اس لیے ان سے فون ملانے کی ضرورت نہیں۔ مگرجب کچھ دیر بعد پی اے نے بتایا کہ خاتون خود آگئی ہیں اور وہ آپ سے ضروری ملنا چاہتی ہیں، تو میں انکار نہ کرسکا مگر خاتون کے آتے ہی میں نے انھیں اداروں میں میرٹ اور ڈسپلن پرلیکچر دینا شروع کردیا۔ میرا پُرجوش لیکچر سننے کے بعد کہنے لگیں۔

’’دیکھیں جی، میرا بیٹا پریشان ہے اور میں اس کی پریشانی نہیں دیکھ سکتی آپ اُسے لاہور ہی رہنے دیں‘‘۔ میں نے کہا ’’آپ نے تو وعدہ کیا تھا‘‘۔ کہنے لگیں’’وعدہ دیکھوں یا بیٹے کی پریشانی دیکھوں، بیٹے کی خوشی کے لیے تو ماں وعدے،قسُمیں سب کچھ توڑ سکتی ہے حتیٰ کہ اپنے آپ کو بھی توڑ ڈالتی ہے۔ آپکی مہربانی میرے بیٹے کو واپس لاہور بھیج دیں وہ بہت پریشان ہے‘‘۔ میں نے کہا”  مگرآپ کوہمارے ادارے کا بھی خیال …کہنے لگیں ’’ میں توبیٹے کی پریشانی کا خیال کرونگی،ماں ہوں ناں۔آپ نہیں جانتے ماں کا دل کیسا ہوتا ہے؟‘‘میں خاموش رہا مگردل میں کہا۔کیسے نہیں جانتا ماں کے دل کو! پچپن سال اسی دل سے نکلنے والے نور سے شرابور ہوتا رہا ہوں۔ اُسی چشمہء رحمت سے سیراب ہوتا رہا اور اسی دل سے اٹھنے والی محبت کی گھٹاؤں میں بھیگتارہا ہوں، اسی دل سے نکلنے والی دعاؤں کی چھاؤں میں رہ کر تو بڑے بڑے ناسوروں سے لڑتا اورپہاڑوں سے ٹکراتارہا ہوں۔

کیسے نہیں جانتا ماں کے دل کو۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے آپ کے کہنے پر میں آپکے بیٹے کو پھر لاہور بھیج دونگا‘‘۔ ایک بیٹے کی ماں چلی گئیں مگر ماں کے دل کا ذکر سنکر ایک اور بیٹا محبتوں اور رحمتوں سے بھرپور دل کی کی آغوش میں اتر گیا جلد ہی مجھے امی جان کی سہانی یادوں اور اپنے گھر کے سحر انگیز ماحول نے جکڑ لیا۔ وہ گھر جو کبھی رونقوں اور خوشیوں کا گہوارہ اور آس پاس کی تمام بستیوں کے لیے قابلِ رشک تھا ایک نورانی وجود کے اُٹھ جانے سے ویرانی کی تصویر بن گیاہے۔ سال میں ایک دن امی جان کے بیٹے بیٹیاں اور ان کے بیٹے بیٹیاں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں اور خاموشی سے اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتے ہیں۔ اُنکے ہوتے ہوئے جی ٹی روڈ  سے گزرتے ہوئے گاڑی خود بخود گاؤں کیطرف مڑجاتی تھی۔گاؤں پہنچنے کے لیے دل مچلتا تھااورآدھی رات کو بھی پہنچنا پڑے تو بھی پہنچ جاتا تھا مگراب مہینوں گزر جاتے ہیں، درجنوںبارجی ٹی روڈسے گزرجاتاہوںمگر گاڑی موڑنے کے بجائے صرف دعا کے لیے ہاتھ اُٹھتے ہیں۔

پچھلے دنوں اچانک گھر چلا گیا تو والدہ صاحبہ کی خادمہ بہن رشیدہ آگئیں۔ رونقوں سے بھرپورگھر کی ویرانی دیکھ کر رو پڑیں،صحن میں کھڑے ہوکرمجھے بتانے لگیں کئی واقعات تو آپکے علم میں بھی نہیں ہیں۔ ایک دن سخت سردی کا موسم تھا آپکے آنے کی اطلاع ملی تو بی بی جی مغرب کی نماز پڑھتے ہی اس گیٹ کے پاس کرسی پر بیٹھ گئیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ کمرے میں آجائیں مگر وہ نہ مانیں اور یہی کہتی رہیں۔ ’’میرا بیٹا آرہا ہے اور میں بستر پر لیٹی رہوں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے میں اپنے بیٹے کو گیٹ پرجاکرملونگی‘‘۔آپ نہ آئے۔ سردی بڑھتی گئی وہ گیٹ سے نہ اُٹھیں اور انھیں نمونیے کا بخار ہوگیا اور کئی دن بستر سے نہ اُٹھ سکیں لیکن اس حالت میں بھی بار بار یہی تاکید کرتی تھیں کہ’’ ذوالفقار کو پتہ نہ چلے۔۔ پریشان ہوگا‘‘ ۔

’’پھر ایک بار رات گئے آپ اور ڈاکٹر صاحب (میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد )آگئے ۔ باہر کا دروازہ کھلا، آپ دونوںک ی آواز سنکر بی بی جی ایک دم اُٹھ گئیں اور بسم اﷲ کہہ کر تیزی سے دروازے کیطرف بڑھیں تو کرسی کے پائے کی نوک سے اُنکا گھٹنا زخمی ہوگیا۔ خون رسنے لگا، شدید درد سے کراہتی رہیں مگر انھوں نے آپ کو نہیں بتایا کہ آپ پریشان نہ ہوں، پھر ایک روزآپ کے آنے کا انتظار تھا تو انھوں نے کھانا نہیں کھایا کہ میرا بیٹا آئیگا تو ملکر کھائیں گے۔ آپ دو دن نہیں آئے اور انھوں نے دو دن کچھ نہیں کھایا۔’’ اب مزید سننے کی تاب نہ تھی۔

اب بھی کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ گاؤں جاکرگھر کا گیٹ آہستہ سے کھولتا ہوں کہ شاید گیٹ کے ساتھ کوئی کرسی بھی ہو۔ پھر ان کے کمرے کے پاس سے آہستہ سے گزرتا ہوں کہ شاید اندر سے بسم اﷲکی آواز آجائے مگر کئی سال بیت گئے ہیں، نہ گیٹ کے ساتھ کوئی کرسی نظر آئی ، نہ کمرے سے بسم اﷲ کی آواز آئی ہے۔ اب گیٹ کے ساتھ کبھی کوئی کرسی پر بیٹھ کر انتظار نہیں کریگا، اب کوئی بسم اﷲکہہ کردروازے کیطرف نہیں لپکے گا۔

میں نے ایک ماں سے اپنا وعدہ پورا کرنے پر اصرار کیا،جس پر مجھے ندامت ہوئی۔ ماؤں پر کون پابندیاں لگا سکتا ہے۔ ماں کے دل کو اصولوں اور قانون کی زنجیرکون پہنا سکتا ہے! ماں کے لیے تو کائناتوں کے خالق نے سب ضابطے اور قانون بدل دیے ۔ اس نے ماں کو اتنی عظمت عطا کی کہ جنّت کو آسمانوں کی رفعتوں سے اتارکر ماں کے قدموں میں رکھ دیا۔ خالق نے نظروں کو خیرہ کردینے والے بیشمارمعجزات تخلیق کیے ہیں مگر اس کی سب سے شاہکار تخلیق۔ ماں کا دل ہے۔

جسکی تمام کائناتوں میں کوئی مثال نہیں، معروف شاعر پروفیسرانور مسعود  جہاں جاتے ہیں اپنی مزاحیہ نظموں سے سامعین کو ہنساتے ہیں اور آخر میں جب حا ضرین کی فرمائش پر ’’امبڑی‘‘ سناتے ہیں تو ہر شخص کی آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں۔ نظم کا تھیم ہے کہ گاؤں کا ایک ٹین ایجر اکرم صبح کسی بات پر اپنی ماں سے لڑ پڑتا ہے، وہ بدبخت ماں کو لکڑی اٹھا کر مار تاہے جس سے ماں کاہاتھ زخمی ہوجاتا ہے۔ بیٹا ناراض ہوکر اسکول چلا جاتا ہے، ماں زخمی ہاتھ پر پٹی باندھ کر فوری طور پر اُسی اکرمے کے لیے پراٹھے بناتی ہے اور پریشان ہوکر ادھر اُدھر دیکھتی ہے ، پھر اکرمے کا ایک کلاس فیلو بشیرا مل جاتا ہے تو اس کے ہاتھ اکرم کی روٹی بھیجتی ہے اور تاکید کرتی ہے جلدی جا کر میرے اکرمے کوپہنچاؤ۔ میرا بیٹا آج بھوکا ہی اسکول چلا گیا ہے۔ جس نے ماں کو مارا ہے اُسی بدبخت بیٹے کے لیے ماں کا دل تڑپ رہا ہے کہ بے چارہ روٹی کھائے بغیر چلا گیا ہے۔کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بھی یہی کہتی ’’ماں ہوں ناں‘‘۔

آقائے دوجہاںؐ نے ایک باربڑی حسرت سے کہا تھا ’’کاش ایسا ہوتاکہ میں نماز ادا کررہا ہوتا اورمیری والدہ آواز دیتیں محمّد ! تو میں نماز چھوڑ کر ماں کے قدموں میں جا بیٹھتا‘‘ یہ کہہ کر سرورِ کائنات نے ماں کی عظمتوں پر ہمیشہ کے لیے مہر لگادی ہے۔

تمام علماء متفق ہیں کہ ماں کے ساتھ گستاخی کرنا اور اس کا دل توڑنا گناہِ کبیرہ ہے جسکی سخت ترین سزا مقرر ہے، جن خوش قسمت خواتین و حضرات کو ماں کا سایہ میّسرہے انھیں چاہیے کہ اس کا فائدہ اٹھائیں زیادہ سے زیادہ ان کے قدموں میں بیٹھیں۔ ان کے آرام اور خوشیوں کا خیال رکھیں ان کا کبھی دل نہ دکھائیں، ان کی خدمت کرکے نیکیوں سے دامن بھرلیں۔آپ اپنی والدہ اور والد کی خدمت کریں گے تو نہ صرف وہ خوش ہونگے بلکہ تمام جہانوں کا مالک بھی آپ سے خوش ہوگا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website