counter easy hit

حیا ایمان کا حصہ ہے

Muslim Man and Girls

Muslim Man and Girls

تحریر : رضیہ اسلم
حیاءایمان کا اہم ترین جز ہے، جس کے بغیر ایمان کبھی بھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم اپنے اسلاف کی سیرت کا جائزہ لیں تو خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ با حیاءتھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے تھے اتنے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور اپنی پنڈلی مبارک پر کپڑا کھینچ دیا ، کیوں کہ آپ ﷺ کو معلوم تھا اس طرح حضرت عثمان غنی کبھی داخل نہیں ہوں گے۔

ایک جھلک اگر دور حاضر کی دیکھی جائے تو اندازہ ایسا لگتا ہے جیسے ہم جاہلیت ثانیہ میں آگئے ہیں۔ ایک جاہلیت اولیٰ تھی جو نبوت کے دور سے قبل کی تھی۔ آج کی عورت سر سے پاﺅں کے کھلے رہنے پر نہ شرمندہ ہوتی اور نہ ہی کوئی بے حیائی محسوس کرتی ہے۔ اللہ کو حیا پسند ہے اس لئے اللہ کے معبوب بندے اللہ کی رضا میں ذرا سا پاﺅ ں کھلے رہ جانے پر بھی شرمندہ ہوتے تھے لیکن افسوس صد افسوس آج کی مسلمان عورت خود کو جتنا بھی برہنہ کرے کم ہے۔

یہ تو اللہ کی شان و حکمت ہے کہ اس نے مرد و عورت کو تخلیق فرما یا ،عورت کو حسن نسوانی عطا کی اور اسے خبر دار کیا کے اپنے حسن کو پر دے سے ڈھانپ لو ،پھر مردوں کو بھی حکم دیا کے وہ اپنی نگائیں نیچی رکھیں ۔اللہ کے احکا مات مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں ہیں ،چاہے وہ پچھلے زمانے میں اترے ہوں یا آج کے زمانے میں۔ لیکن اس دور کی عورت کو سراپا ماڈل کہیں گے تو کچھ غلط نہ ہوگا ،ماڈل تو پہلے زمانے کی بھی ہوا کرتی تھی لیکن ان کے دوپٹے سر اور سینوں سے لپٹے رہتے تھے۔

مگر آج کے اسلامی معاشرے میں مسلمان لڑکیوں اور عورتوں نے فیشن کے نام پر دوپٹہ اوڑھنا تو دور کی بات دوپٹہ لینا ہی ترک کردیا ہے جیسے یہ کوئی غیر ضروری یا بلا وجہ کا بوجھ ہو جسے گھر پہ ہی چھوڑ جائیں تو کندھوں پر بوجھ کم محسوس ہو گا ،اسی طرح استعمال کیے جانے والے پاجامے جن کی اقسام بے تحاشہ اور پردے سے سب نابلد ،کوئی اتنے اونچے کہ پنڈلیہ دکھائی دیں اور کوئی اتنے چست کے ہر عوض نظر آئے۔

ماڈرن ازم کے نام پر بے حیائی کی یہ قسم ایک دو کی نہیں بلکہ معاشرے میں موجود ہر فرد کے ذہن کو پرا گندہ کر رہی ہے ۔ایک عورت جو ایسی تزئین و آرائش سے مزین ہو بے پر دہ تو چار مردوں کو گناہ گار کرتی ہے جن میں باپ ،بھائی ،شوہر اور بیٹا شامل ہیں ،انکے علاوہ وہ جہاں سے گزرتی ہے اور جہاں کام کر تی ہے چاہے وہ پبلک پلیس ہو یا کا م کرنے کے ادارے اگر ہر نظر کا مر کز ہو گی تو اپنے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو بھی روحانی ،معاشرتی اور جنسی بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے۔

ایک مسلم معاشرے کے لئے یہ بات سوچنے والی ہے کہ جو عورت آج اپنی ذات کو چھپانے کا خیال نہیں رکھ سکتی کل کو وہ ماں بنے گی تو اپنی اولاد کی تر بیت کیسے کرے گی ؟ یا پھر جو مرد آج اپنی نگاہوں کی حفاظت نہیں کر سکتا یا جو اپنے ساتھ چلنے والی عورت کو بطور ماڈل سب کے سامنے پیش ہو نے کی اجازت دے رہا ہو ،وہ اس معاشرے کو کیسا مستقبل دے گا کل ؟ اگر ہمیں اللہ کے عذاب سے خود کو اور دوسروں کو بچا نا ہے تو معاشرے میں حیا جیسے نظام کو پھر سے عام کر نا ہو گا تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک مستحکم مسلم معاشرہ فراہم کر سکیں۔ اللہ تعالی ہمیں ایک اچھا اور باعمل مسلمان بنائے۔ آمین!۔

تحریر : رضیہ اسلم