counter easy hit

75 لاکھ نانک میں خریدا جانے والا کشمیر

Kashmir

Kashmir

تحریر : سلطان حسین
آج پانچ فروری ہے دنیا بھر بالخصوص پاکستان میں5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اور کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی اخلاقی مدد کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے پاکستان میں اس روز عام تعطیل ہوتی ہے اور اس سلسلے کا آغاز1990میںقاضی حسین احمد کی اپیل سے ہوا، اس وقت پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن تاریخ میں پہلی بار 14اگست1931کو پورے برصغیر میں منایا گیا اس کے علاوہ کشمیری13جولائی کو1931 کے شہدا اور6نومبر کو1947 کے شہدا کی یاد میں یوم شہدا،24اکتوبر کو1947 میں آزاد کشمیر حکومت کے قیام کی یاد میں یوم آزادی،27اکتوبر کو1947کے بھارتی تسلط،27جولائی کو1949میں کشمیریوں کو تقسیم کرنے والی لکیر لائن آف کنٹرول کے خلاف اور ہر سال26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پریوم سیاہ مناتے ہیں اس کے علاوہ مختلف شہدا کی یاد بھی منائی جاتی ہے۔ کشمیریوں نے مجلس احرار اسلام کی تحریک پر آزادی کی جو جدوجہد شروع کی وہ مرحلہ وار آج بھی جاری ہے۔دنیا بھر میں کشمیر کو ایک حل طلب مسّلہ قرار دیا جارہا ہے لیکن بھارت اس کے باوجود ہٹ دھرمی کا مظاہر کرتے ہوئے جموں وکشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے بھارت کی اسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ماہرین ارضیات کااس خطے کی تاریخی حیثیت کے بارے میں کہنا ہے کہ دس کروڑ سال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا

مگر پھر رفتہ رفتہ خطے کی سر زمین وجود میں آئی اور اس عمل کو بھی 10کروڑ سال گزر چکے ہیں۔ ہزاروں سال کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی کشمیر کی ریاست دہلی سے کابل، کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہے اور کبھی اسی ریاست میں درجنوں چھوٹی بڑی آزاد ریاستیں بنی نظر آتی ہیں آج کی دنیا جس کشمیر کے متنازعہ حصے کو جانتی ہے اس پر 1947 میں بھارت نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ قرار پائی ہے۔کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے۔ پاکستان پورے خطہ کشمیر کو متنازعہ سمجھتا ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور یہ متنازعہ علاقہ نہیں پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جس کے باعث مسئلہ کشمیر دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں1947 کی جنگ1965 کی جنگ اور1999کی کارگل جنگ شامل ہے اگرچہ1971کی جنگ بھی دونوں ملکوں کے مابین ہوئی مگر اس کا تعلق تنازعہ کشمیر سے براہ راست نہیں البتہ بھارت کی مشرقی پاکستان میں مداخلت کی بڑی وجہ کشمیر ہی تھا۔ اب بھی یہ صورتحال ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین کبھی بھی جنگ ہو سکتی ہے۔

بھارت اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی101،387مربع کلومیٹرپر قابض ہیں۔کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جس کو سکھ راجہ نے معاہدہ امرتسر کے تحت انسانوں سمیت 75 لاکھ نانک شاہی پر انگریز سے 16 مارچ 1946 میں خریدا اور کشمیریوں کو اپنا غلام بنایامہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی کیونکہ حکمراں طبقہ اقلیتی تھا جبکہ خطے کی 85فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی اس لئے حکمراں ہمیشہ مسلمانوں سے ہی خطرہ محسوس کرتے تھے۔ مہاراجہ نے مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کے لئے بڑی کوششیں کیں یہی وجہ ہے کہ 1846کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف1931تک کوئی نمایاں آواز نہیں اٹھی اگرچہ اس عرصے میں مسلمانوں کی نصف درجن سے زائد انجمنیں یا جماعتیں بن چکی تھیں مگر ڈوگرہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے مسلمان سر نہ اٹھا سکے۔جب برصغیر کو تقسیم کیا گیا تب ہندوستان میں موجود ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ چاہے وہ پاکستان یا بھارت میں شامل ہو جائیںیا خودمختار ریاست تشکیل دیں ایسا کرتے وقت ریاست کے راجا یا نواب کو ریاست کی جغرافیائی صورت حال اور عوام کی خواہشات کا خیال رکھنا تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔

چونکہ اس وقت وادی کشمیر کی آبادی کا تقریبااسی فیصد مسلمان تھی وادی کشیر کا الخاق پاکستان سے بنتا تھا کشمیری عوام کی خواہش اور جدوجہد پاکستان کے لیے تھی مگر اس وقت کے راجا گلاب سنگھ نے الگ ریاست قام کرنے کا سوچا۔ ایسے میں بھارت نے راجا گلاب سنگھ کو کشمیر کا الخاق بھارت سے کروانے پر اکسایا بعد ازاں گلاب سنگھ نے قیمت لے کر کشمیر کا الخاق بھارت سے کر دیا جس پر کشمیری عوام میں شدید غصے کی لہر دوڑی اور عوام نے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ایسے میں پاکستان سے قبائلی لشکر نے کشمیری عوام کی مدد کرنے کے لیے حملہ کر دیا بھارت نے اپنی پوزیشن کمزور دیکھنے پر بھارتی فوج کشمیر میں داخل کر دی جس پر پاکستانی فوج کو بھی کشمیری عوام کی حمایت میں بھیجنی پڑی بھارت نے جنگ سے نکلنے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف رجوع کیا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہو گی اقوام متحدہ نے 1949میں کشمیریوں کیلئے استصواب کی صورت میں مسئلہ کشمیر کا حل تجویز کیا بھارت خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے کر گیا اور ان قراردادوں کو تسلیم کیا بھارت یکم جنوری1948کواقوام متحدہ میں خود گیا جس پر17جنوری 1948کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد منظور کی اور20جنوری کو پاکستان بھارت کمیشن قائم کیا جس کی سفارشات کی روشنی میں5اگست 1948اور یکم جنوری1849کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق 84ہزار471مربع میل پر پھیلی ہوئی پوری ریاست جموں و کشمیر متنازعہ ہے

اس میں وہ تمام حصے شامل ہیں جو پاکستان، بھارت اور چین کے پاس ہیں۔ اقوام متحدہ نے17اپریل1948،13اگست 1948،5جنوری1949اور23دسمبر1952کو کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کی قراردادیں پاس کی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے سے کیا جائیگا مگر بھارت نے عالمی اور مقامی طور پر ہونے والے معاہدوں سے انحراف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ ریاست جموں و کشمیر کے علاقوں میں1950کے بعد ہی بے چینی پھیلنا شروع ہوئی، مختلف ادوار میں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ شروع کی گئی مگر بھارت نے عالمی انصاف کے ٹھیکیداروں کی پس پردہ حمایت کے باعث وقتی طور پر کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ یہ بات درست ہے کہ اقوام متحدہ نے ابتدائی9سالوں میں تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے کوششیں کیں مگر پھر تنازعہ کشمیر بھی عالمی سیاست کی نذر ہوگیا۔1948سے1957تک روس اقوام متحدہ میں غیر جانبدار رہا مگر بعد میں20فروری1957اور22جون1962کو کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردوں کو ویٹوکیااور بھارت کی حمایت کرتا رہا۔

جنگ بندی اوراقوام متحدہ میں جانے اور قرار داد کی منظوری کے بعدبھارت نے وادی پر قبضہ مزید مضبوط بنانے کے اقدامات شروع کئے اور چند سال بعد اپنے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ اسکے بعد بھی وہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات کرتا رہا اور گاہے بگاہے پورے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بھی قرار دینے لگا آج اسکی پوری قیادت مذاکرات سے انکار کرکے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہیجس کی وجہ سے یہ مسلہ آج بھی حل طلب ہے ۔بھارتی لیڈر شپ عرصہ دراز گزرنے کے باعث اقوام متحدہ کی قراردادوں کو متروک قرار دیتی ہے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو آئین میں اپنی ریاست کا درجہ دیئے جانے کے بعد بھارتی انتخابات کے ساتھ ہی مقبوضہ وادی میں انتخابات کرادیئے جاتے ہیں۔ جس کا کشمیری عوام ہمیشہ بائیکاٹ کرتے ہیں۔ بھارتی قیادت اس کو ہی استصواب کا متبادل قرار دیتی ہے جو انتہائی نامعقول جواز ہے۔

بھارت جو بھی کہتا رہے اسکے قول و فعل سے حقیقت نہیں بدل سکتی کشمیر تقسیم ہند کے ہر اصول قانون اور ضابطے کے مطابق پاکستان کا حصہ ہے یوں یہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کیلئے ہی بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمدعلی جناح نے انگریز آرمی چیف جنرل گریسی کو لشکر کشی کا حکم دیا تھالیکن انگریز جنرل نے حکم عدولی کرکے فوج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا اگر اس وقت انگریز جنرل فوج بھیج دیتا تو آج یہ مسّلہ نہ رہتاکشمیری اپنی آزادی کی جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ دراصل پاکستان کی جنگ ہے پاکستان کی بقاکشمیر کے ساتھ وابستہ اور مشروط ہے کشمیر یقینا پاکستان کی شہ رگ ہے کشمیری بھارت کے ساتھ رہنے پر تیار نہیںہیں بھارت کو کشمیریوں سے اپنے ساتھ جانے کی موہوم سی بھی امید ہوتی تو وہ ان کو حق خودارادیت دینے میں تامل نہ کرتا بھارت کشمیریوں کے تیور بھانپ کر ہی ان کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کیلئے ظلم جبر اور ستم کا ہر حربہ آزمارہا ہے اسکے سات لاکھ سفاک فوجیوں نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی اسی مقبوضہ وادی میں ہوتی ہے کشمیری یہ ستم محض آزادی حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کیلئے سہہ رہے ہیں بے گناہ کشمیریوں کو خواتین اور بچوں سمیت بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لاکھوں کشمیریوں کو استصواب کا حق مانگنے پر خاک اور خون میں نہلایا جا رہا ہے

اپنے پیاروں کی لاشوں پر آنسو بہانے والی ہزاروں خواتین کی عزتیں تار تار کی جارہی ہیں انصاف کے عالمی دعویداروں نے ہمیشہ انصاف کے نام پر کشمیریوں کی نسل کشی اور تباہی کے منصوبوں کا ساتھ دیا کشمیریوں نے آزادی کے لیے کئی لاکھ جانبازوں کی قربانی دی مگر عالمی قوتوں کی منافقت کے باعث آزادی کی یہ جنگ ظلم جبر اور تشدد کا نہ صرف سبب بنی بلکہ وادی کشمیر ایک فوجی کیمپ خوف، مایوسی اور تاریکی کی تصویر بنی ہوئی ہے آج جب کوئی شخص کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو فورا جلاؤ گھیرؤ، فوجی کیمپ، عورتوں کی عصمت دری، خوف، ظلم و ستم، تشدد، غلامی، مایوسی، قتل و غارت، بچوں کا تاریک مستقبل، تقسیم در تقسیم لائن آف کنٹرول اور بھارتی تسلط کا تصور ذہن میں آتا ہے دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کا رویہ انتہائی مایوس کن ہے۔ مولانا فضل الرحمان گزشتہ دس سال سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہیں وزیراعظم نوازشریف نے بھی ان کو کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کا اعزاز بخشا ہے۔

مولانا کی کشمیر کے حوالے سے کارکردگی ویسی ہی مایوس کن ہے جیسی خود سابق اور موجودہ حکمرانوں کی تاہم آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کشمیر کوپاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور اس کو کشمیری عوام کی امنگوں کیمطابق حل کرنا علاقائی سلامتی اور پائیدار امن کیلئے ناگزیر ہے ۔مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیںاس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیاکا امن مسئلہ کشمیر سے وابستہ ہے۔ پاکستان بھارت تعلقات اور تجارت مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں پاکستانی حکمرانوں کی ہزار خواہش کے باوجود پائیدار نہیں ہو سکتے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے حکمرانوں کو بانی پاکستان جیسے عزم و ارادے کا اظہار کرتے ہوئے دنیا کے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر پوری قوت سے اجاگر کرنا ہو گا۔تنازعہ کشمیر کو دنیا کا قدیم ترین تنازع کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر نام نہاد مہذب دنیا نے اس تنازع کو حل نہیں کیا تو شاید دنیا میں پہلی باقاعدہ عالمی ایٹمی جنگ ہو اوریہ دنیا کی ایک بڑی تباہی کا سبب بنے اس لیے عالمی ادارے اور عالمی قوتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس تباہی کو روکنے کے لیے اس سنگین مسّلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں

Sultan Hussain

Sultan Hussain

تحریر : سلطان حسین