counter easy hit

ایس ایس جی کے ایک سابق کمانڈو کی یاداشتیں

Memories of a former SSG commando

لاہور(انتخاب : شیر سلطان ملک ) میں 1978ء میں راولپنڈی چھاؤنی میں 27 پنجاب رجمنٹ کی کمانڈ کر رہا تھا۔ میری پلٹن 111 بریگیڈ کے تحت تھی۔ مئی1978ء کے پہلے ہفتے کے دوران ایک روز مجھے بریگیڈ ہیڈکوارٹرکی طرف سے حکم ملا کہ میں ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں رپورٹ کروں۔ جیل پہنچنے پر نامور سابق عسکری شخصیت کرنل(ر) رفیع الدین اپنی کتاب بھٹو کے آخری ایام میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں نے کمانڈر111 بریگیڈ‘ بریگیڈئیرایم ممتاز ملک‘ جو سب مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر(ایس ایم ایل اے) کی ڈیوٹی انجام سے رہے تھے‘ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی‘ سپرنٹنڈنٹ انجینئرراولپنڈی اور جیل سپرنٹنڈنٹ چودھری یارمحمد کو وہاں موجود پایا۔ کچھ دیر میں میجر جنرل شاہ رفیع عالم جو اس وقت ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر(ڈی ایم اے ایل)بھی تھے‘ تشریف لے آئے۔ ہم سب نے ایک ساتھ عورتوں کے وارڈ کو گھوم کر دیکھا۔ جنرل صاحب نے جیل کے اندر زوروشور سے ہونے والے تعمیراتی کام کے بارے میں چند ہدایات دیں اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ بعد ازاں مجھے بریگیڈہیڈکوارٹر طلب کیا گیا جہا ں بریگیڈ کمانڈر ایم ممتاز ملک نے میرے نئے فرائض سے متعلق مجھے ضروری ہدایات دیں۔ تب پتا چلا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو18 مارچ1978ء کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے جرم میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں جو موت کی سزا سنائی گئی تھی‘ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی ہے اور انتظامیہ نے ٖفیصلہ کیا ہے کہ سماعت کے دوران بھٹو صاحب کو کوٹ لکھپت جیل سے راولپنڈی جیل منتقل کر دیا جائے تا کہ سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کی پیشی کا عمل انتظامیہ کیلئے نسبتاً آسان ہو جائے۔ اس مقصد کیلئے کچھ عرصہ پہلے 10 کور ہیڈ کوارٹر راولپنڈی اور مارشل لاء حکام نے طے کیا تھا کہ خاتون قیدیو ں کے لئے مخصوص وارڈ کو سیکیورٹی وارڈ کی شکل دے کر سنٹرل جیل راولپنڈی میں اسیری کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی حفاظت کو یقینی بنایا جا ئے۔ اس مقصد کیلئے جیل کے اندر دن رات ہنگامی بنیاد پر سرگرمی سے کام جاری تھا۔ ایس ایم ایل نے مجھے بتایاکہ بھٹو صاحب کی اسیری کے دوران میری پلٹن کو راولپنڈی جیل میں ان کی حفاظت کی اضافی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ تیا ر کردہ سیکیورٹی وارڈ کا نقشہ کچھ یوں تھا۔۔سیکیورٹی وارڈ۔ سنٹرل جیل راولپنڈی کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک ڈیوڑھی آتی ہے جس کے بائیں جانب جیل کے دفاتر ہیں ‘ دالان کے پار اندر ایک پھر دوسرا آہنی دروازہ ہے۔ ان کے بعد کھلی جگہ ہے۔ یہاں سے بائیں ہاتھ پر قیدیوں کا لنگر خانہ ہے اور دائیں ہاتھ کچھ فاصلے پرالگ تھلگ عمارت ہے۔ بھٹو صاحب کی اس جیل میں اسیری سے پیشتر یہ الگ تھلگ عمارت قیدی خواتین کاوارڈ کہلاتی تھی۔ اب یہ عمارت کسی قدر ترمیم وتوسیع کے بعد سیکیورٹی وارڈ کے نام سے موسوم ہوئی۔ ابتداء میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ مجرم خواتین کو جیل میں کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے اور یہ وارڈ ذ والفقار علی بھٹو کیلئے استعمال کیا جائے۔خواتین وارڈ آٹھ کوٹھڑیوں پر مشتمل تھا۔ چا رکوٹھڑیاں ایک جانب اور چار دوسری جانب اور درمیان میں چند فٹ چوڑا دالان ( Corridor ) شمالاً جنوباً واقع تھا۔ دالا ن کے دونوں کناروں پر آہنی دروازے نصب تھے۔ ہر کوٹھڑی تقریباً12فٹ لمبی اور ساڑھے سات فٹ چوڑی تھی۔ جنوب والے آہنی دروازے کے باہرتقریباً3423536 فٹ کا ایک صحن تھا۔ جس کے گرد تقریباً8 فٹ اونچی دیوار تھی‘ اس صحن کی مشرقی طرف ایک دروازہ تھا جو ضرورت پڑنے پر بند کر دیا جاتا تھا۔ زنانہ وارڈ کے شمالی آہنی دروازہ اور ملحقہ دو کوٹھڑیوں کو فرش سے لے کر چھت تک ایک مضبوط دیوار کے ذریعے الگ کر کے اس حصہ کو مستقل طور پر بند کر دیا گیاجہاں ضروری آلات وغیرہ لگائے گئے جن کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔ بھٹو صاحب کو یہاں لانے سے پہلے سیکیورٹی وارڈ میں درج ذیل ترامیم و اضافہ کیا گیا۔ اصلاح ومرمت۔ بھٹو صاحب کی آمد سے پہلے یہ کوٹھڑیاں حفظانِ صحت کے اصولوں پر ازسرنو تیار کی گئیں۔ ہر چند یہ ترمیم و توسیع سیکیورٹی کے نقطۂ نظر سے کی گئی تھی پھر بھی اس عمل کی بدولت وارڈمیں صاف ستھرا اور صحت مند ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ فرش‘ چھت اور دیواروں کی مرمت میں سیکیورٹی کے تقاظوں کے مطابق تبدیلیاں کی گئیں۔ باہر سے جیل کے اندر سیکیورٹی وارڈ تک سرنگ لگانے کو نا ممکن بنانے کی خاطرکچے فرش کو کھود کر ‘ اس کی جگہ لوہے اور کنکریٹ کا مضبوط فرش بنایا گیا۔ بدنما چھت کو چھپانے کیلئے اصلی چھت سے چندفٹ نیچے آہنی چھت بنائی گئی۔ اس کے نیچے لوہے کی موٹی چادروں سے سیلنگ کر دی گئی جس کی نچلی طرف خوشنما سفید رنگ و روغن کر دیا گیا۔ پرانی اور نئی آہنی چھتوں کے خلاء کے درمیان خاردار تاروں کے گچھے بھر دیے گئے۔ اس ساری تبدیلی اور تیاری کا اصل مقصدیہ تھا کہ بھٹو صاحب کو چھت توڑ کر بھگا لے جانے کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر تمام کوٹھڑیوں کی دیواروں پر‘ جو پہلے ہی مضبوط پتھر سے بنائی گئی تھیں‘ موٹے پلستر کی تہیں چڑھا دی گیءں تا کہ حفاظت کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی کے خصوصی اہتمام کا خصوصی تاثر بھی پیدا ہو سکے۔ سیکیورٹی وارڈ میں حفظانِ صحت کا خاص خیال رکھا گیاتھا۔ وارڈ میں پانی اور بجلی کابھی معقول انتظام تھا۔ اس وارڈ کو باقی جیل سے بالکل الگ تھلگ کرنے کیلئے ڈیوڑھی سے لے کر جیل فیکٹری کی دیوار تک اور پرانے زنانہ وارڈ کے ارد گرد واقع تمام کھلے علاقے کے ساتھ ساتھ اوپر تلے خاردار تاروں سے ایک دفاعی حصار تعمیر کر دیا گیا تھا۔ اس دفاعی حصار میں ایک گیٹ بنایا گیا جو سیکیورٹی وارڈ میںآنے جانے کا واحد راستہ تھا۔ اس کانٹے دار دفاعی حصار کے اندر اور گرداگردگول گچھوں والے خاردار تارکے پانچ گچھے‘ تین نیچے اور دو اوپر‘ پھیلا دینے سے یہ ایک ناقابلِ عبور روکاوٹ بن گئے۔ ایک گچھے کی گولائی تقریباًایک میٹر اونچی اور ایک میٹر چوڑی ہوتی ہے۔ بیچ میں دس پندرہ فٹ خالی جگہ چھوڑ کر سیکیورٹی وارڈ کی بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ ہر طرف اسی طرح کی ایک اور رکاوٹ بھی بنا دی گئی تھی تا کہ سیکیورٹی وارڈ پر کسی بھی نوعیت کے ممکنہ حملے یا وہاں سے بھٹو صا حب کے فرارکی کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔نگرانی کے مینار۔ سیکیورٹی وارڈ کے اردگردکانٹے دار تاروں کی دو روکاوٹوں کے درمیان دس پندرہ فٹ خالی جگہ پر لکڑی اور فولاد سے پانچ مینار تعمیر کئے گئے تھے‘ جن پر ہر چاق وچوبند اور مستعد نگہبان پہرہ دیا کرتے تھے۔ بعد ازاں جب شریک مجرموں کے وارڈ کی جانب ایک نئی عمارت تعمیر ہوئی تو اس کی دوسری منزل پر نگرانی کا ایک اور مینار بھی تعمیر کر دیا گیاتھا۔ سیکیورٹی وارڈ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں سرچ لائٹ سے روشنی کا انتظام کیا گیا۔ برقی رو کے اچانک بند ہونے یا کاٹ دیے جانے کی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کی خاطر متبادل کے طور پر ایک جنریٹر کے علاوہ ایک قبلِ اعتماد الارم سسٹم بھی مہیا کر دیا گیا تھا۔آپریشن روم۔ ڈیوڑھی سے اوپر کی منزل میں آپریشن روم قائم کر دیا گیا۔ یہاں پہلے ہی سے دو کمرے موجود تھے‘ جن میں جیل کا ریکارڈ محفوظ رہتا تھا۔ اب یہ ریکارڈ کسی اور جگہ منتقل کر دیا گیا۔ ان میں سے کمرے میں ہر وقت ڈیوٹی آفیسر موجود رہتا اور دوسرا نگہبانوں کی آ رام گاہ بن گیا۔ ضروری نقشے اور چارٹ‘ وائرلیس سیٹ‘ ٹیلیفون اور ڈیوٹی آفیسر‘ لاگ بک ( Log Book ) وغیرہ آپریشن روم میں رکھے گئے اور ان کمروں کی چھت کو ایک باقاعدہ چوکی کی شکل دے دی گئی۔ چھت کی اس چوکی سے سیکیورٹی وارڈ کی ہر نقل و حرکت کے علاوہ تقریباًساری جیل‘ جیل کے مضافات خصوصاً بڑی سڑکیں اور جیل کے صدر دروازے کے سامنے کا سارا علاقہ صاف نظر آتا تھا۔ سیکیورٹی وارڈ اورجیل تک پہنچنے والے تمام راستوں پر نظر رکھنے کی خاطر ڈیوڑھی کی چھت پر ضابطہ سنتری پوسٹیں تعمیر کی گئیں جن میں اسلحہ جات رکھنے کا بندوبست بھی کر دیا گیا تا کہ کسی بھی نا گہانی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔ یہ چھت ہوائی حملوں کے خطرات کی روک تھام کا بھی نہایت عمدہ ذریعہ ثابت ہوئی۔ چنانچہ یہاں دونوں قسم کی مشین گنیں یعنی زمینی اور طیارہ شکن توپیں‘ دفاعی مقصد کیلئے نصب کر دی گئیں۔ مزید برآں جیل اور اس کے مضافات میں ایک طیارہ شکن بیٹری بھی متعین کر دی گئی۔ یہ تمام انتظامات15مئی1978ء تک مکمل کر دیئے گئے اور 18-17 مئی کی درمیانی شب کو میری بٹالین بھی جیل کے شمالی حصے کی پولیس لائنوں میں متعین کر دی گئی۔(الف)27 پنجاب رجمنٹ کو بطور سیکیورٹی بٹالین متعین کیا گیا۔….(ب) ایک کمپنی ایکس3 ایف ایف رجمنٹ کو بطورسپیشل ٹاسک فورس متعین کیا گیا۔(ج) بیٹری94 لائٹ اینٹی ایئر کرافٹ رجمنٹ کو بطورسپیشل ٹاسک فورس متعین کیا گیا۔ ….فرائض۔ سیکیورٹی فورس کو مندرجہ ذیل غیر متوقع حادثات سے فوری طور پر عہدہ برآ ہونے کامشن سونپا گیا۔(الف) بڑے مجرم ذوالفقار علی بھٹوکا اقدامِ خودکشی۔ (ب) بڑے مجرم کے پانی یا خوراک میں زہر خورانی سے یاجیل کے اندر یا جیل سے سپریم کورٹ آتے جاتے دھماکہ خیز مادہ سے یا پھر جیل سے سپریم کورٹ آتے جاتے پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے مطابق سڑک پر حادثہ کے ذریعے قتل کی سازش۔ ان متوقع اقداماتِ قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کو سیکیورٹی وارڈ یاپورے جیل میں آتش زنی کے ذریعے ہلاک کرنے کا اقدام بھی پیشِ نظر تھا۔(ج) سیکیورٹی وارڈ میں سرنگ لگا کرفرار ہونے یا بھگا لے جانے کی کوشش۔ (د) زمینی حملے سے اغواء کی کوشش۔(ر) ہوائی حملے کے ذریعے اغواء کی کوشش۔ (س) با ہر کی مدد یاباہر کی مدد کے بغیر جیل کے اندر فساد برپا کر کے یا غدر مچا کر مسٹر بھٹو کی رہائی کی کوشش۔(ص) جیل یا سپریم کورٹ پر یا راستے میں عوامی ہجوم کا حملہ۔جیل‘ پولیس اور فوج کی سیکیورٹی فورس کو ان تمام متوقع کارروائیوں کی صورت میں درجِ ذیل واضح اور قطعی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں۔(الف) جیل کے اندر داخل ہونے کے بعدجیل کی چار دیواری میں بڑے قیدی مجرم کے تحفظ کی تمام تر ذمہ داری جیل حکام پر تھی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل اوراس کے ماتحت عملہ کودرجِ بالا کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ذوالفقار علی بھٹو کی پوری حفاظت کا ذمہ دار قرار دیا گیاتھا۔ (ب) جیل سے باہر مسٹر بھٹو کی حفاظت کا فریضہ راولپنڈی ڈ سٹرکٹ پولیس کے ذمہ تھا۔ جیل سے سپریم کورٹ تک اور سپریم کورٹ کے اندر حفاظت کی ذمہ داری ایس ایس پی راولپنڈی اور اس کے زیرِ کمان پولیس فورس پر عائد تھی‘ اوریوں ایس ایس پی کسی بھی ہنگامی صورتحال کیلئے تیار رہتا تھا۔(ج) ان کارر وائیوں کی نگرانی‘ انتظام اور بروقت رہنمائی فوج کے ذمہ تھی۔ سیکیورٹی بٹا لین کمانڈر کو مارشل لاء کی جانب سے حفاظتی اقدامات کی اعلٰی تر نگرانی کا کام سونپا گیا تھا۔خفیہ آلات۔ مئی1978ء کے دوسرے ہفتے میں یعنی بھٹو صاحب کی پنڈی جیل میں آمد سے صرف چند روزپیشتر مجھے اطلاع دی گئی کہ ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے فلاں صاحب ضروری سازوسامان کے کر آئیں گے اور سیکیورٹی وارڈ کی اس کوٹھڑی میں‘ جہاں بھٹو صاحب کو رکھنا مقصود ہے‘ کچھ خفیہ آلات نصب کریں گے‘ تا کہ سیکیورٹی کا جامع اور مکمل بندوبست ہو سکے۔ چنانچہ اگلی صبح ایک ڈائیریکٹر کے ہمراہ دو ٹیکنیشنز آئے اور انہوں نے اس کوٹھڑی کی دیوار میں خفیہ جاسوسی حالات نصب کیے جس میں بھٹو صاحب کو رکھا جانا تھا۔ یہ آلات وائرلیس( Wireless ) کے علاوہ زیرِزمین تار سے بھی جوڑ دیے گئے جو جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر کے متصل کمرہ میں لے جایا گیا۔ ایک دو ہفتوں بعد یہ زیرِزمین تاربڑھا کر میری پلٹن کے ہیڈ کوارٹر کے ایک کمرے تک بھی پہنچا دیا گیا‘ تا کہ جیل میں کسی کو بھی معلوم نہ ہوسکے کہ ان خفیہ آلات سے کس وقت کام لیا جاتا ہے اورکس وقت ڈیوٹی پر انٹیلی جنس کے خاص آدمی موجود نہیں ہوتے۔ شروع شر وع میں یہ آلات پورا دن اور گئی رات تک کام کرتے رہے مگر چند ہفتوں بعد چونکہ بھٹو صاحب کے پاس رات کو کوئی آدمی نہیں جاتا تھا اس لئے آپریٹر ز ان آلات کوشام آٹھ نو بجے کے قریب بند کرکے واپس چلے جاتے اور پھر صبح آکر تمام دن نگرانی کی جاتی۔ خرابی یاترمیم کی حالت میں آلات تک پہنچنے کیلئے سیکیورٹی وارڈ کے شمالی دو کمرے ایک نئی دیوار تعمیر کرکے الگ کر دیئے گئے اور انہیں جیل کے ہر شخص آؤٹ آف باؤنڈایریا ( Out of Bound Area ) قرار دیدیا گیا تا کہ یہ خفیہ آلات ان کی پہنچ سے باہر اور محفوظ رہیں۔یہ تھے وہ حفاظتی اقدامات جو اسیری کے دوران بھٹو صاحب کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ان کو سنٹرل جیل راولپنڈی لانے سے پہلے عمل میں لائے گئے۔ ویسے ان کی اسیری کے دوران نت نئے واہمے اور مفروضے جنم لیتے رہے اور ان کے توڑ بھی صادر ہوتے رہے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصی ہیبت عوامی مقبولیت کی شدید دہشت طاری ہے اور ان تہہ در تہہ حفاظتی اقدامات کے باوجود کسی غیر متوقع اور اچانک اقدام سے بھٹو صاحب کے بچ نکلنے کے کئی امکانات موجود ہوں۔ سنگ و آہن کی دیواروں اور فولادی چھتوں کے اندر محبوس ایک شخص کی نگرانی پر مامور دائرہ در دائرہ مسلّح دستوں کی موجودگی نے بھی ہماری نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ لیکن دوسری طرف جب میں بھٹو صاحب کی طرف دیکھتا تو وہ ہمیشہ مجھے بے پروائی اور بے نیازی ہی کے عالم میں نظر آتے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website