counter easy hit

میم کی لاج

مسلمان مسجد اور محبت تینوں الفاظ میم سے شروع ہوتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کا اسم گرامی بھی میم سے شروع ہوتا ہے۔ یہ نام اور ان کا میم کے حرف سے شروع ہونا ہمارے لئے خاص معنی کا حامل ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ان تمام ناموں میں ایک منطقی ربط اور تعلق ہے۔ ان میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کا مسلمان فرقہ پرستی میں اندھا ہو کر ان الفاظ کا تقدس اور مفہوم بھول سا گیا ہے۔ دین محمدی ﷺ در اصل مسجد اور محبت سے مربوط ہے۔ اگر مسجدیں آباد ہوں گی تو ہمارے گھر بھی آباد ہونگے۔ ہم شاد ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں اتفاق اور ہم آہنگی ہو گی۔ ہر طرف امن اور سکون ہو گا۔ اور مسجدیں کیسے آباد ہوں گی؟ اس کا بنیادی نقطہ محبت ہے۔ اپنے رب سے محبت ،اپنے آقا پیارے نبی ﷺ سے محبت اور اللہ تبارک و تعالی اور نبی آخرالزماں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اپنے مسلمان بھائوں سے والہانہ محبت کی جائے۔ ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ نے ان سے محبت کا اظہار فرمایا جنہوں نے آپ پر ظلم و ستم کے نشتر چلائے ہوئے تھے۔ جو آپ کے پاکیزہ و مطہر بدن مبارک پر کوڑا پھینک دیتے۔ جو بوڑھی عورت آپ ﷺکے ساتھ چلتے ہوئے آپ ﷺکو برا بھلا کہتی جا رہی تھی حالانکہ آپ ﷺنے اس کی لکڑیاں اٹھائی ہوئی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے حسن سلوک اور محبت کا اظہار کیا۔ قریش مکہ نے آپ ﷺ کو ایسی ایسی اذیتیں دی ہوئی تھیں جن کا بدلہ یا انتقام لینے کے آپ ﷺ حق بجانب تھے مگر آپ ﷺ نے فتح مکہ والے دن سب کو معاف کر دیا۔ سب کے اوپر رحمت کی کملی اوڑھ دی۔ اور یہ آپ ﷺ کا ایسا پیارا سلوک تھا کہ آپ ﷺکے جانی دشمن بھی آپ ﷺ کےسامنے شرمسار ہو کر معافی کے خواستگار ہوئے۔

لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج میں نے اور آپ نے ان کی راہ کو مکمل نہیں اپنایا۔ مسلمان تو ہم وراثتی ہو گئے مگر اپنے دل اور دماغ سے بغض کینہ اور حسد نہیں نکالا۔ غرور اور تکبر ہے کہ جس نے ہمیں آ لیا ہے۔ ہم صرف اپنے فرقے کو ہی درست تسلیم کرنے کو تیار ہیں دوسرے مسلک یا فرقے کے لوگوں سے نفرت بھرا سلوک کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم مسلمان ہیں جو میم سے شروع ہوتا ہے یعنی حضرت محمد ﷺ کی نسبت سے ان کے نام نامی کی نسبت سے۔ اسی طرح ہم مسجدوں میں جھگڑا کرنے لگ گئے ہیں۔ ایک مسلک کا شخص اگر دوسرے مسلک کی مسجد میں جا کر عبادت کرنے لگتا ہے تو بہت سارے لوگ اسے عجیب اور غصہ بھری نظروں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے جیسے کوئی اجنبی دنیا کا شخص ہو۔ اس سے محبت تو کیا اسے مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ دوسری مرتبہ اس مسجد میں نہ آئے۔مسجد بھی میم سے ہی شروع ہوتی ہے اور اس کی نسبت بھی ہمارے پیارے آقا ﷺ کے نام مبارک سے ہے۔ اور محبت کا تو آپ ﷺ کی ذات عملی نمونہ اور مظہر ہے۔

تو میرے مسلمان بھائیو آئو آج عہد کریں کہ ہم اس میم کی لاج رکھے رکھیں گے اپنے مسلمان بھائوں سے محبت کریں گے اپنی مسجدوں کو محبت سے آباد کریں گے اور اپنے آپ کو محبت محمدی ﷺ کا اہل بنائیں گے۔یہ محبت کا درس اگر مدارس کے منبروں سے دیا جائے تو بہت جلد ہمارا معاشرہ فکری ہم آہنگی کا متمنی بلکہ حامل ہو جائے گا۔