counter easy hit

میڈیا کے بارے میں سالانہ کانفرنس

Media

Media

تحریر : بشیر انصاری
ایک غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام میڈیا کے بارے میں سالانہ کانفرنس ہوئی جس میں صحافتی ضابطہ اخلاق او ر اس سے متعلق امور پر تفصیل کیساتھ بحث کی گئی، اس کا نفرنس میں ملک کے نامور صحافیوں نے شرکت کی جبکہ ملک میں چاروں صوبوں سے تعلق والے صحافیوں نے بھی کارروائی میں حصہ لیا۔

سرکردہ صحافیوں نے ریاست اور میڈیا کے تعلقات اور میڈیا پر قدغن لگانے کی ریاستی کوششوں کا تفصیل کیساتھ جائزہ لیا۔ اور کہا کہ میڈیا کو دبانے کیلئے ماضی میں کئی حربے آزمائے گئے اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کو مختلف طریقوں سے خریدنے کی بھی چال آزمائی گئی۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ صحافت کیلئے کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے ۔ اور صحافت کو اصولوں کے تابع کرنا چاہیے ، اس بارے میں مخالف لوگوں کے الگ خیالات ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی صحافتی ادارہ اور ریاستی قوت ضابطہ اخلاق کی پابند نہیں ہے ایک سینئر صحافی نے کہا کہ ریاست خود بد اخلاق ہے لیکن وہ صحافت کیلئے ضابطہ اخلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔

پاکستان میڈیا کی اپنی تاریخ ہے اور میڈیا کی آزادی کیلئے کارکن صحافیوں کی جد وجہد ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آمریت کے دور میں صحافت کو جن سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا اس سے وہ لوگ اچھی طرح واقف ہیں جنہوں نے ریاستی جبر کا مقابلہ کیا اور پابندیوں کے باوجود لوگوں کی بات کو عام کیا اس سلسلہ میں انہیں پریشانیوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستانی صحافت سے وابستہ لوگوں نے شہریوں کی آزادی اور اُن کے حق رائے دہی کیلئے عمل جد وجہد کی اور قیدو ہند جر مانوں اور کوڑوں کا سامنا کیا ۔ بے شمار اخبار نویس روزگار سے محروم کر دیئے گئے۔ صحافتی ضابطہ اخلاق یا صحافتی اخلاقیات کی بات ابتداء سے ہی کی جارہی ہے ۔ اور مختلف ادوار ہیں پوری شدت کیساتھ یہ آواز بلند کی جاتی رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ضابطہ اخلاق صرف میڈیا کیلئے کیوں۔

سیاست ، معثیت اور دوسرے شعبوں میں ضابطہ اخلاق کیوں لاگو کیا جاتا ، اخلاق کا درس صرف صحافیوں کیلئے کیوں ہے ۔ جبکہ برقی صحافت فعال ہوگئی ہے اس وقت سے صحافتی ضابطہ اخلاق کی بات پوری شدت کیساتھ کی جائے لگی ہے ۔ ہمارے یہاں الیکٹرانک میڈیا نے خوب ترقی کی ہے، پہلے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی تھا جب نجی ٹی وی اور ریڈیو شروع ہوا تو صورتحال بدل گئی ، اور صحافتی معیار کو بھی نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ، میڈیا آج جن حالات سے گزر رہا ہے ، وہ کسی طور پر تسلی بخش نہیں ہیں۔ میڈیا آزاد ہو چکا ، بعض معاملات میں مشروط آزادی ہے لیکن مجموعی طور پر جو صورتحال ہے وہ ماضی سے بالکل مختلف ہے۔ آزادجمہوری معاشروں میں ایک طاقتور ستون کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ہمارے یہاں جس نوعیت کی جمہوریت ہے پاکستان میڈیا اس سے کہیں زیادہ ایڈوانس ہے ۔ ہمارے سیاست دان جمہوریت اور شہری آزادیوں کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن وہ شہری آزادیوں اور حق رائے دہی کی اس حد تک حمایت کرتے ہیں کہ وہ آزادی کیساتھ اپنے سیاسی مخالفین کی مخالفت اور کردار کشی کر سکیں لیکن جب مجموعی طور پر معاشرے میں آزادصحافت کے کردار کی بات ہو تی ہے۔

تو اپنے لیے آزادی اظہار رائے کے حق کی بات کرنے والے دوسروں کے اس حق کے معاملہ پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں دھرنوں کے دوران ہم نے یہ افسوسناک صورتحال دیکھی کہ جو لوگ دھرے والوں کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ ان صحافیوں کو بکائو مال قرار دے دیا گیا ، اور کہا گیا کہ یہ لوگ حکومت کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ اسطرح جو نشریاتی ادارے دھرنے والوں کی حمایت نہیں کر رہے تھے۔ ان سے وابستہ کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک کرپٹ اور دھاندلی سے وجود میں آنے والی حکومت کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں ۔ اگر ان کے الزامات کی حمایت کی جائے تو درست اور یہ صحافتی ضابطہ اخلاق کی بہترین مثال اور اس کے برعکس رائے پر جو کچھ کہا اور سنا گیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ صحافتی ضابطہ اخلاق کی بات کرنے والے اس بارہ میں بھاری بھر کم دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں ۔ ٹھیک ہے کہ ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے اور اس کی پوری طرح پابندی کی جانی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ میڈیا کو ضابطہ اخلاق کا درس دینے والے خود کس مقام پر کھڑے ہیں، ان کا کردار کیا ہے اور اپنے لیے کونسا ضابطہ اخلاق پسند کرتے ہیں یا کسی ضابطے کی پابندی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آج کا میڈیا مختلف اطراف سے دبائو کا شکار ہے ۔ اور یہ دبائو مختلف شکلوں میں ہے ۔ بعض ایسی قوتیں جو میڈیا کو اپنی مرضی کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیتی رہتی ہیں۔

میڈیا سے وابستہ لوگ ان قوتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ریاستی جبر ماضی میں میڈیا کے خلاف مختلف شکلوں میں آزمایا جاتا رہا ہے ۔ اور کارکن صحافیوں کیساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا، اس کانفرنس میں بعض مقررین نے آج کی صحافت میں ایڈیٹر کے وجود سے انکار کے معاملہ پر تبادلہ خیال کیا، اور کہا کہ اب مالکان خود ادارت کے فرائض انجام دینا شروع ہوگئے اور شعبہ صحافت سے وابستہ کہنہ مشق صحافی جو ادارت کے فرائض دے رہے تھے ، اب ان کی حیثیت کو تقریبا مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔ خبروں کی تیاری کا کام بھی اب نادیدہ ایڈیٹر ہی کرتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کے نمائندے، ایڈیٹر یا نیوز ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ لیکن خبروں کی قطی شکل دوسرے لوگ دیتے ہیں جن کا ادارتی عملہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ صحافتی ضابطہ اخلاق کا معاملہ دیرینہ ہے اور اس بارے میں ہر دور میں مختلف اراء ظاہر کی جاتی رہی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ آج میڈیا ایڈوانس ہے اور میڈیا سے وابستہ کارکن صحافی پوری محنت اور توجہ سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ان کے اداروں سے وابستہ نادیدہ افراد صحافتی دواد کو ہی بدل دیتے ہیں، یہ صورتحال مایوس کن ہے، معیاری اور ذمہ دار صحافت کیلئے ایڈیٹر کے کردار کو بحال رکھتا ہوگا۔ آج صحافتی ضابطہ اخلاق کی نہیں ذمہ دار صحافت کی ضرورت ہے، اگر صحافت کو ہر قسم کے دبائو سے آزاد رکھا جائے تو خود بخود ضابطہ اخلاق وجود میں آجائے گا۔

صحافت کو پابند رکھنے کیلئے جو کالے قوانین موجود ہیں اس سے صحافت کی آزادی کو سلب کی جاسکی ہے لیکن ان قوانین سے صحافتی ضابطہ اخلاق وجود میں نہیں آسکتا ، ہمارے سینئر صحافی آزادی صحافت کی عملی جد وجہد سے گزرے ہیں۔ کارکن صحافیوں نے حریت فکر کی حرمت کے تحفظ کیلئے آزمائشوں کا بہادری کیساتھ مقابلہ کیا ہے۔ آج کے میڈیا کے جو کارکن فعال ہیں انہیں بھی اپنے سینئر سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور ایک ذمہ دار اور غیر جانب دار وفرض شناس میڈیا کو وجود میں لانے کا فرض پورا کرنا چاہیے۔ ذمہ دار انہ صحافت کسی قانون یا پابندی سے وجود میں نہیں آ سکتی۔

Bashir Ansari

Bashir Ansari

تحریر : بشیر انصاری