counter easy hit

مظہر برلاس نے پوری قوم کو خبردار کر دیا

Mazhar-e-Brahman warned the whole nation

لاہور (ویب ڈیسک) غالباً پاکستان میں پہلی حکومت ہے جو غیر ملکی آقائوں کی مرضی کے خلاف بنی ہے۔ مرضی کی مخالفت سے بننے والی حکومت کو معاشی لحاظ سے تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار سے دوچار کرنے کی بے حد کوشش کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے غیر ملکی آقائوں کے نامور کالم نگار مظہر برلاس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستانی نمائندے نت نئی چالیں چل رہے ہیں، پاکستان کی حالیہ اقتصادی مشکلات میں ان قوتوں نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ یہ مشکلات بھی پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو کم کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ اسی لئے خطے کے اہم ملکوں کے رہنما کسی نہ کسی صورت پاکستان کے دوروں پر مجبور ہیں۔ حال ہی میں خلیج فارس، آبنائے ہرمز میں امریکی جنگی بیڑوں کی آمد نے خطے میں نئے سوالات کو جنم دیا ہے، آخر امریکیوں نے یہ چال کیوں چلی؟ امریکیوں نے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی قدموں کو بھی روکا جا رہا ہے، چینیوں کی ایک بڑی موبائل فون کمپنی کو رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اس کمپنی کے مالک کی بیٹی منگ وانزو کو کینیڈا میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کمپنی کے فون پر کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، جنوبی کوریا اور فرانس سمیت کئی دیگر امریکی اتحادیوں نے پابندی لگا دی ہے، جواباً چین نے بھی بڑی امریکی کمپنی کے فون پر اپنے ملک میں پابندی لگا دی ہے۔ چین ایک مضبوط معیشت کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے مگر چینیوں نے خطرے کی اصل گھنٹی سمندروں کے ذریعے بجائی ہے۔ امریکہ طویل عرصے سے سمندروں کے ذریعے حکومت کر رہا ہے مگر جب چین نے کولمبو، ہربنطوطہ، گوادر اور جبوتی سمیت کئی بندرگاہوں پر کام شروع کیا تو امریکیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ جبوتی میں جہاں چینیوں نے بیس بنایا ہے، وہیں تھوڑے فاصلے پر امریکیوں کے علاوہ فرانس کا بھی بیس ہے۔ اب ایک طرف سمندروں پر قبضے کی لڑائی ہے تو دوسری طرف تجارت کی حقیقت میں یہ ساری لڑائی معیشت کی ہے۔ چین کی ایک موبائل کمپنی کا راستہ دنیا بھر میں روکنے کی کوشش ہو رہی ہے مگر چین اسی سال ٹیکنالوجی پر 636ارب ڈالرز خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان اگلے دو تین روز میں ایک معاہدے کے ذریعے دو ہزار ایکڑ زمین چینیوں کو دے رہا ہے، جہاں چینی کپاس کاشت کریں گے، یہ زمین بلوچستان کے ضلع لسبیلا میں ہے۔ اقتصادی دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال میں امریکی جنگی بیڑوں کا کیا کام؟ یہ سوال اس خطے کے کئی ملکوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیا جنگی دہشت کے ذریعے امریکی صدر ’’ہنچری ڈیل‘‘ لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ اردن اور مصر تو ویسے ہی امریکی منشا کے تابعدار ہیں، یہی صورتحال قطر، کویت، بحرین اور امارات کی ہے تو پھر کیا شام اور لبنان کو کسی اقتصادی پیکیج کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ ترکی کے اسرائیل سے مراسم ہیں مگر ترکی ’’ہنچری ڈیل‘‘ کا حصہ بننے کو تیار نہیں، لبنان اور شام کی حکومتوں کے لئے بھی یہ ڈیل تسلیم کرنا آسان نہیں ہے، عراق اور ایران ویسے ہی مخالف ہیں۔ ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا کوئی جنگ ہونے جا رہی ہے؟ دراصل امریکی صدر ٹرمپ اسرائیل کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، شاید اسی لئے امریکیوں نے اس خطے میں مسلمان ملکوں کو کمزور کر کے کھنڈرات میں بدل دیا ہے۔ عراق، لیبیا، شام اور یمن میں وسیع و عریض کھنڈرات ہیں جبکہ مصر اور سوڈان میں کمزور حکومتیں ہیں۔ سعودی حکمرانوں کے بارے میں ٹرمپ کے خیالات ڈھکے چھپے نہیں۔ شام کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں قریباً پانچ لاکھ شامی موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس خطے میں ایران واحد ملک ہے جسے اسرائیل اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتا ہے مگر عجیب بات ہے کہ امریکہ میں موجود یہودی لابی کا ٹرمپ پر پریشر ہے کہ امریکہ، ایران پر خود حملہ نہ کرے بلکہ عرب مسلمان ملکوں کو استعمال کرے۔ یہودیوں کا یہ خیال ہے کہ اگر امریکہ نے ایران پر براہ راست حملہ کیا تو ایران جواباً اسرائیل پر حملہ کرے گا اور اسرائیل کی تباہی کے لئے ایرانی بلاسٹک میزائل کافی ہیں۔ اگرچہ قطر میں قائم امریکی فضائی اڈے پر بی 52بمبار طیارے کھڑے ہیں، عمان ایئر بیس بھی امریکیوں اور اسرائیلیوں کے پاس ہے مگر اسرائیلیوں کا ڈر ختم نہیں ہو رہا۔ ان کی کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ عرب ملکوں کے ذریعے چھیڑ خانی کروائی جائے تاکہ ایرانی میزائلوں کا رخ ابوظہبی، دبئی اور ریاض کی طرف ہو، اس سے اور کچھ نہیں تو مسلمان ملکوں کی تباہی تو ہو جائے گی۔ آبنائے ہرمز میں امریکی جنگی بیڑے کی موجودگی کے باوجود ایرانی مطمئن ہیں کہ جنگ نہیں ہو گی، ایرانیوں کے رہبر کو یقین ہے کہ جنگ نہیں ہو گی، ترکی فی الحال کسی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ترکی پر لگی سو سالہ پابندیاں 2023میں ختم ہوں گی۔ طیب اردگان اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ترکی میں گھسنے کے لئے امریکیوں کو آدھا ایران فتح کرنا پڑے گا اور ایرانیوں نے زیر زمین کئی میزائلی شہر بنا رکھے ہیں، یہ شہر ایران کے ہر صوبے میں ہیں، ایرانی دشمن کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ سکتے ہیں۔ خطے میں جنگ کے بادل ہیں مگر ایرانی رہبر بار بار کہہ رہے ہیں ’’جنگ نہیں ہو گی‘‘ ایرانیوں کے اطمینان کا یہ عالم ہے کہ ایران پر آٹھ سال حکومت کرنے والے احمدی نژاد بڑے سکون کے ساتھ کھیتوں میں بکریاں چرا رہے ہیں۔ ہاں البتہ امریکی جنگی بیڑوں کے باعث ایران کو بہت زیادہ اقتصادی نقصان ہو رہا ہے۔ آبنائے ہرمز سے روزانہ 19ملین بیرل تیل کی تجارت ہوتی ہے، اس کا نقصان امریکیوں کو تو نہیں ہو رہا مگر مسلمان ملکوں کو ہو رہا ہے۔ ان حالات میں خطے کے تمام ملکوں کے علاوہ امریکہ اور مغربی ملکوں کی نگاہیں عمران خان پر جمی ہوئی ہیں کہ ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے، عمران خان اس مہینے کے آخری دنوں میں سعودی عرب میں تین اہم کانفرنسوں میں شریک ہو رہے ہیں، وہ مسلمان ملکوں کو قریب کرکے خطے کو تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر ہونے والی ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ نے عمران خان کو صاف بتا دیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ہم سعودی عرب سے تعلقات بہتر کرنے کے لئے تیار ہیں، اگر وہ چاہیں تو ایرانی وزیر خارجہ ریاض جانے کو بھی تیار ہیں۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار عمران خان کے ساتھ سعودی حکمران کر چکے ہیں، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو اب ایران، سعودی عرب اور یمن کے درمیان ثالث کا کردار تیزی سے ادا کرنا ہوگا، عمران خان ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو مسلمان دنیا کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں، مسلمان ملکوں کو کھنڈرات بننے سے بچا سکتے ہیں، مغربی ملکوں اور امریکیوں کو بھی بہت اچھے طریقے سے سمجھا سکتے ہیں، اس بات کی گواہی کسی محفل میں زلمے خلیل زاد دے چکے ہیں۔ بقول جاوید منظر؎ میں بھی منظر ہوں مجھے دیکھنے والے منظرؔ ۔۔۔ اپنی پلکوں میں پرو لیں تو یقیں کر لوں گا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website