
ماضی قریب میں ایک ذمہ دار شخصیت نے نجی گفتگو میں دعویٰ کیا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک مغربی ملک سے رقم لی ہے اور اس رقم کے عوض وہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کچھ دن بعد پتہ چلا کہ اس ذمہ دار شخصیت نے مولانا کے ساتھ طویل نشست کی۔ پھر ایک وزیر صاحب نے دعویٰ کیا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم عمران خان کو قتل کرانے کی سازش کی۔ یہ دعویٰ بہت تشویشناک تھا لہٰذا میں نے یہ تشویش مولانا کے سامنے رکھی تو انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ میں نے کبھی سیاست میں تشدد کا سہارا نہیں لیا اور ویسے بھی میں عمران خان کو شہادت کا رتبہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ میں نے بہت معلوم کیا کہ عمران خان کے قتل کی سازش میں مولانا کا نام کیوں اور کیسے آیا لیکن کوئی تفصیل پتہ نہ چلی لیکن اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن ایک دوسرے کا ذکر اچھے الفاظ میں نہیں کرتے۔ مولانا صاحب پہلے دن سے عمران خان کی حکومت گرانا چاہتے ہیں لیکن انہیں نواز شریف نے روک دیا تھا۔ نواز شریف نے کہا تھا حکومت گرانا آسان ہے لیکن حکومت چلانا بہت مشکل ہے آپ عمران خان کو حکومت چلانے دیں، وہ خود ہی گر جائے گا۔
مولانا کا موقف تھا کہ اگر عمران خان کو ہم نے نہیں بلکہ وقت اور حالات نے گرانا ہے تو پھر ہم سیاست میں کیوں ہیں؟ مولانا صاحب عمران خان کو گرانے کی تجویز لے کر آصف علی زرداری کے پاس گئے تو انہوں نے بھی کچھ انتظار کا مشورہ دیا تھا۔ مولانا نے انہیں کہا کہ افسوس سیاستدانوں کو بار بار ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے لیکن وہ بار بار استعمال ہونے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ مولانا کافی دنوں سے اپنی جماعتی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ انہوں نے شمالی وزیرستان اور سرگودھا میں بڑے بڑے جلسے کئے جو ٹی وی اسکرینوں پر نظر نہ آئے۔ اس دوران ایک صاحب نے انہیں پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف اپنے تعاون کی پیشکش کی تو مولانا نے مسکرا کر معذرت کر لی اور کہا کہ ’’نکّے کے ابا‘‘ سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کی تو اس ملاقات پر کچھ وزراء نے کافی تنقید کی۔ یہ ملاقات پہلے سے طے تھی۔ مولانا فضل الرحمٰن کوٹ لکھپت جیل لاہور میں یہ ملاقات کرنے والے تھے لیکن اس دوران سپریم کورٹ نے انہیں چھ ہفتے کے لئے رہا کر دیا لہٰذا یہ ملاقات جیل کے بجائے نواز شریف کے گھر پر ہوئی۔ مولانا ایک طرف نواز شریف اور آصف علی زرداری سے رابطے میں ہیں تو دوسری طرف حکومت کی اتحادی جماعت بی این پی مینگل کو بھی گلے سے لگا رکھا ہے۔ منگل کو نواز شریف سے ملاقات کر کے نکلے تو مجھے کہا کہ آپ میڈیا والے بہت جلد غیر اہم ہو جائیں گے کیونکہ ہم سوشل میڈیا پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے صرف مولانا فضل الرحمٰن کو نہیں اور لوگوں کو بھی شکوہ ہے حالانکہ مولانا صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وطن عزیز میں ایک ٹیلی فون کال پر کسی بھی وقت کوئی بھی ٹی وی چینل بند کرا دیا جاتا ہے اور اسی لیے ’’نکّے دا ابا‘‘ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔ لیکن ہم میڈیا والے ٹھہرے کمزور لوگ لہٰذا مولانا کا زور بھی صرف ہم پر چلتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن جماعتوں کو متحد کر کے کب تک حکومت گرانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ حکومت گرانا آسان اور چلانا بہت مشکل ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی حکومت کے خلاف تحریک صرف سڑکوں پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی شروع ہونے والی ہے۔ مولانا صاحب کی سوشل میڈیا فورس تشکیل پا چکی ہے اور کچھ دنوں میں متحرک بھی ہو جائے گی لیکن اس فورس کو دوسری فورسز کی طرح گالم گلوچ، الزام اور دشنام سے پرہیز کرنا ہو گا ورنہ سوائے بدنامی کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ سوشل میڈیا پر وہی زبان استعمال کی جانی چاہئے جو آپ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے سامنے استعمال کر سکتے ہیں اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو سوشل میڈیا پر آپ کی تحریک بیکار ہو گی۔ سوشل میڈیا اتنا کارگر ہوتا تو عمران خان کی حکومت پر آج گلی کوچوں میں تنقید نہ ہو رہی ہوتی سیاست کے فیصلے آئندہ بھی گلی کوچے کریں گے سوشل میڈیا نہیں۔








