
سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ گولی کی زبان میں بات کرنے والی فوج کو آخرحکومت میں آکر کیا ہوا کہ وہ فوراجھک گیا اور سوچا جائے تو یہ بھی جمہوریت کی سب سے بڑی جیت تھی۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ نظام کی خرابی ہے۔ پوری ریاستی مشینری پر مفاد پرست عناصر کا قبضہ ہے۔ اس میں فرد واحد کی کوئی حیثیت نہیں، سارا کام ریاستی مشینری کرتی ہے، جو اس غلط نظام کے تابع ہے۔ جب نظام ہی غلط ہوگا تو ظاہر ہے نتیجہ بھی غلط ہی نکلے گا۔ ایسے حالات میں بعض عناصر کی جانب سے الیکشن کی سیاست سے مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی، نتیجے میں ملک محفوظ رہا۔ جنرل یحییٰ خان نے سیاسی جماعت نہیں بنائی، نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
ہمارے ملک کے وہ نام نہاد دانشور جو چند سیاست دانوں کی کرپشن اور دیگر خرابیوں کو بنیاد بناکر تمام سیاست دانوں کو عوام کی نگاہ میں قابل نفرت بناتے ہیں ان ارسطو اور بقراطوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ایک فوجی جنرل بھی کرپٹ ہوسکتا ہے اور ایک جج بھی۔ ایک دانشور یا صحافی بھی کرپٹ ہوسکتا ہے اور ایک عالم دین بھی۔ اس لیے عوام میں یہ تاثر دینا کہ صرف سیاست دان ہی کرپٹ ہوتے ہیں کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ ان افلاطونوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے اس عمل سے عوام میں سیاست سے بیگانگی کا کلچر فروغ پا رہا ہے، جو ملک اور قوم کے لیے کسی بھی لحاظ سے مفید نہیں ہے۔












